پاکستان نے استعمال شدہ انجن آئل کی درآمد پر 10 سال بعد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں وزارت تجارت کی جانب سے ایک سمری کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھجوائی گئی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب سمری کے مطابق ’وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے 2013 میں تجویز کے بعد پاکستان نے استعمال شدہ کالے انجن آئل کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کا خیال تھا کہ یہ تیل ماحول کے لیے خطرناک یا نقصان دہ اشیاء کے زمرے میں آتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ، شرح سود 21 فیصد کی ریکارڈ سطح پرNode ID: 755761
-
پاکستان میں بارشوں کے بعد ’ممکنہ شدید ہِیٹ ویو‘، حقیقت کیا ہے؟Node ID: 756006
وزارت کا کہنا ہے کہ ’کالے تیل کی درآمد پر پابندی کے بعد کئی ایک سٹیک ہولڈرز نے وزارت سے رابطہ کر کے پابندی کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کی۔
’کچھ کمپنیوں نے مختلف عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔ ایسے ہی ایک کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں وزارت تجارت کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر قانون کی روشنی میں ایک ماہ میں فیصلہ کرے۔‘
کیا استعمال شدہ انجن آئل خطرناک یا نقصان دہ ہے؟
وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جب دیکھا گیا تو عالمی سطح پر استعمال شدہ انجن آئل کی تجارت کی اجازت ہے اور اس کے لیے عالمی تجارتی کوڈ بھی موجود ہے۔
پاکستان کے اندر بھی مقامی مارکیٹ میں کالے انجن آئل کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ استعمال شدہ کالے انجن آئل کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے لگائے گئے پلانٹس وفاقی اور صوبائی سطح پر ماحولیات کے تحفط کی ایجنسیوں کی منظوری سے لگانے کی اجازت ہے۔
وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے استعمال شدہ انجن آئل کے نقصان دہ ہونے کے دعوے کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ وہ اس کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
’اس دوران استعمال شدہ انجن آئل کے نمونے ہائیڈروجن ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اور پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کو بھجوائے۔ جو پیرا میٹرز یا مطلوبہ ریسرچ لیبارٹری کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ یہ آئل نقصان دہ ہے یا نہیں؟‘
وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے اس سلسلے میں باسل کنونشن سیکریٹریٹ جنیوا سے رابطہ کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ اس کا تعین بیچنے اور خریدنے والے فریق کرتے ہیں کہ آیا وہ جس مقصد کے لیے خریدا یا بیچا جا رہا ہے وہ اس کے استعمال کے قابل بھی ہے یا نہیں؟
وزارت تجارت کے مطابق تیل درآمد کرنے والی کمپنیوں کا موقف ہے کہ وہ استعمال شدہ انجن آئل خطرناک ہوتا ہے جو ایک بار استعمال کے بعد قابل استعمال بنائے جانے کے قابل نہ رہے۔ تاہم پوری دنیا میں ایسے پلانٹس موجود ہیں جو استعمال شدہ آئل کو دوبارہ قابل استعمال بناتے ہیں اور وہ بالکل بھی خطرناک نہیں ہے۔
وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ عالمی جائزوں کے بعد یہ تو طے ہوا کہ استعمال شدہ کالے انجن آئل کی تجارت ممنوع اور خطرناک نہیں ہے۔
’تاہم اس سارے عمل میں تیل کو دوربارہ قابل استعمال بنانے کے پلانٹس ہیں جو وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی اجازت سے مقامی طور پر استعمال شدہ کالے انجن آئل کو دوبارہ قابل استعمال بنا رہے ہیں۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ درآمد کنندگان پر استعمال شدہ کالے انجن آئل کی درآمد کی پابندی ختم کر دی جائے۔‘
اس سلسلے میں وزارت پٹرولیم اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی جانب سے دی گئی تجاویز اور ملکی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ممنوعہ درآمدی اشیا سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
