BBC
پاکستانی اداکار نعمان اعجاز کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جن کا کسی بھی پراجیکٹ کے ساتھ جڑنا اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
گذشتہ سال ختم ہونے والا ڈرامہ ’بسمل‘ ہو یا رواں سال کے سب سے کامیاب ڈراموں میں شمار ہونے والا ’پرورش‘ ان کی اداکاری ہر پراجیکٹ کو منفرد بنا دیتی ہے۔
اس وقت بھی ان کا ایک ڈرامہ ’شرپسند‘ نشر ہورہا ہے جس میں انھوں نے ایک ایسا منافق شخص کا کردار ادا کیا ہے، جسے عام طور پر مرد اداکار ادا کرنے سے کتراتے ہیں۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتےہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کردار کو منتخب کرنے کی سب سے بڑی وجہ اس کے ذریعے ہونے والی اصلاح کا پہلو تھا۔
نعمان اعجاز کا کہنا تھا ’جب کوئی کردار ملتا ہے تو مجھے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس میں میرے ساتھ کون ہے اور کون نہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کیا اس کے ذریعے سوسائٹی میں کوئی پیغام جائے گا؟ کیا اس سے اخلاقیات میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ کوئی سدھر جائے، کسی کا گھر بچ جائے۔ کیا اس کردار کو دیکھ کر لوگ اللہ سے معافی مانگ لیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو میں اسے ضرور کرتا ہوں۔‘
BBC
’شرپسند‘ میں وہ فراست علی خان نامی ایسے شخص کا کردار نبھا رہے ہیں جو مذہب کا سہارا لے کر محلے کے ہر گھر میں اپنے قول و فعل سے شرانگیزی کرتا ہے۔
نعمان اعجاز کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے اس کردار کی حامی بھری، توانھیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ ’ہماری سوسائٹی میں ایسے لوگ ہوتے ہیں۔‘
’میں نے خود ایسے کردار بہت کم دیکھے ہیں جو لگائی بجھائی کا کام کرتے ہیں، اس لیے یہ مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے ہدایتکار احسن طالش کے ساتھ اس پر کام شروع کر دیا۔ لیکن ڈرامہ آن ایئر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کا ردعمل دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اس قسم کے کردار تو ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔‘
اپنے کرداروں کے انتخاب پر ان کا کہنا تھا کہ ’میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس کردار کو جانے نہ دوں جس سے معاشرے کو کوئی پیغام پہنچ سکتا ہو۔‘
فراست علی خان کے کردار کو منفرد بنانے کے لیے نعمان اعجاز نے جہاں اس کی چال ڈھال مختلف رکھی وہیں بولنے کے انداز میں بھی تجربہ کیا۔
وہ کہتے ہیں ’یہ عام کرداروں سے بہت منفرد ہے۔ اسے موڈیفائی کرنے میں بھی وقت لگا اور اس کی شخصیت ڈھالنے میں بھی۔ چار ماہ کی محنت کے بعد فراست علی خان کی جو شخصیت سامنے آئی ہے اسے دیکھ کر شائقین کو کچھ نیا نیا سا لگتا ہے۔‘
’اگر اسے سادہ یا سنجیدہ طریقے سے کیا جاتا تو میرا نہیں خیال کہ یہ ڈرامہ چل پاتا۔‘
نعمان اعجاز: ’اگر آپ میرے مذاق کو نہیں سمجھ سکتے تو پھر یہ میرا مسئلہ نہیں‘نعمان اعجاز کا عفت عمر کے ساتھ ’پرانا‘ انٹرویو کیوں وائرل ہوا؟’پرورش‘: جین زی کا ڈرامہ جس نے والدین اور بچوں کے بیچ فاصلے کی کہانی دکھائیسنگِ ماہ: عورت پر حق ملکیت جتانے کی قبائلی رسم ’غگ‘یا ’ژغ‘ کیا ہے؟
انھوں نے مزید کہا کہ ڈرامے کے آغاز میں ہدایت کار اور پروڈیوسر دونوں نے انھیں آنکھیں جھپکانے سے منع کیا تھا۔ لیکن ڈرامہ آن ایئر ہونے کے بعد ’کسی نے کچھ نہیں کہا کیوں کہ عوام کو فراست کے بات کرنے کا طریقہ اور باڈی لینگویج، سب پسند آ گیا تھا۔‘
’فراست اسی سوسائٹی کا کردار ہے اور ناظرین کو میرا انداز اچھا لگ رہا ہے جس پر میں بہت خوش ہوں۔ یہ کردار 24 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے، کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔‘
نعمان اعجاز کے بقول وہ فراست علی خان کے مقابلے میں بہت مثبت انسان ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھی اداکار کا کام ان سے بہتر ہو تاکہ اس کے طفیل لوگ انھیں بھی دیکھ لیں۔
نعمان اعجاز کو ’کینسل کلچر‘ سے کیا مسئلہ ہے؟
نعمان اعجاز پاکستان کے ان چند اداکاروں میں شامل ہیں جو پچھلی پانچ دہائیوں سے نہ صرف سکرین پر اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ آج بھی مرکزی کرداروں میں نظر آتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں ’فشار‘ نامی ڈرامے سے کریئر کا آغاز کرنے والے نعمان اعجاز نے شروعات میں ’دشت‘ اور ’نجات‘ جیسے ہٹ ڈراموں میں کام کیا۔
اس کے علاوہ ’آنسو‘، ’میرا سائیں‘، ’بڑی آپا‘، ’الو برائے فروخت نہیں‘، ’جیکسن ہائیٹس‘، ’ڈر سی جاتی ہے صِلہ‘، ’رقیب سے‘، ’پری زاد‘، ’بسمل‘ اور ’پرورش‘ میں بھی ان کی اداکاری کو کافی پسند کیا گیا۔
تاہم ہٹ ڈراموں کے باوجود وہ جس بات کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں وہ ہے معاشرے میں پھیلتا ہوا ’کینسل کلچر‘، جس کے نشانے پر نعمان اعجاز کئی بار آئے، کبھی کسی انٹرویو میں بیوی کو دھوکہ دینے کی بات پر تو کبھی ساتھی اداکاروں کی اداکاری پراپنی رائے دے کر۔
مگر اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مسئلے پر بات کرنے سے معاملہ ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن ’لوگ تحقیق کے بجائے سنی سنائی بات پر یقین کر لیتے ہیں جس سے نقصان ہوتا ہے۔‘
’ہمارے ہاں پرابلم یہ ہے کہ ہم بات سنتے ہیں اور اس پر دھاوا بول دیتے ہیں، ہم بات پر بات نہیں کرتے۔ اسے سمجھتے نہیں ہیں کہ یہ کس سٹیٹ آف مائنڈ میں کہی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اتنی فارغ قوم ہیں کہ بغیر تحقیق کیے بات کرنے والے کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ اگر کوئی میری طنزیہ بات کو سنجیدگی سے لیتا ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اسے کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔‘
BBCمشکل حالات میں بننے والے ڈراموں پر تبصرہ کرنے والوں کی مجبوری پر ترس آتا ہے
آج کل ایک نیا ٹرینڈ بھی سامنے آ رہا ہے جس میں ڈراموں میں کام کرنے والے افرادٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کررہے ہوتے ہیں۔
نعمان اعجاز بھی ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جن کے خیال میں اس طرح کے پروگرام نہیں ہونا چاہییں، کیوں کہ ’ڈرامے بنانے والے کم وسائل، زیادہ مسائل اور مشکل حالات کے باوجود اچھا کام کر رہے ہیں۔‘
نعمام اعجاز کا کہنا تھا کہ ’ان افراد کے گھر میں کتنی مجبوری ہے جس کی وجہ سے انھیں یہ کام بھی کرنا پڑا، یہ لوگ ان حالات سے بھی واقف ہیں جن میں ایک سیریل بنتا ہے، پھر بھی نئے آنے والوں کا مذاق اڑا کر ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔‘
ان کے بقول جس ملک میں نیا اداکار سکرپٹ میں ’کا، کی، کو‘ بھی تبدیل نہیں کر سکتا، جہاں سکرپٹ پڑھنے کا سلیقہ بہت کم لوگوں کو آتا ہو، وہاں نوجوانوں کا ہنر تراشنے کی ضرورت ہے، انھیں نیچا دکھانے کی نہیں۔‘
نعمان اعجاز کہتے ہیں کہ ’افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کام دیکھ کر نہیں بلکہ فیلڈ میں زیادہ وقت گزارنے والے کو سینئیر سمجھا جاتا ہے جو خود کو بڑا سمجھ بیٹھتے ہیں۔‘
نعمان اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک تنقید کرنے والے اہم نہیں بلکہ وہ لوگ زیادہ اہم ہیں جو محنت کرتے ہیں اور اپنے کام کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھ پر فرض ہے کہ ان کی ہر ممکن مدد کروں۔‘
نعمان اعجاز فلموں سے کیوں دور ہیں؟
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ نعمان اعجاز نے ٹی وی پر اداکاری سے پہلے فلموں میں طبع آزمائی کی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بطور وکیل بھی کام کر چکے ہیں۔
وکالت سے جو انھوں نے سیکھا شاید اسی وجہ سے وہ ان فنکاروں کی صف میں شامل نہیں جو شوبز انڈسٹری میں تاخیر سے معاوضہ ملنے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اگر کنٹریکٹ اچھا بنا ہو اور اپنا حق حاصل کرنے کی طاقت ہو تو کوئی پے منٹ روک نہیں سکتا۔‘
پچھلے 20 برس میں انھوں نے صرف دو فلموں، پاکستانی فلم ’رام چند پاکستانی‘ اور پاک انڈیا پنجابی فلم ’ورثہ‘ میں کام کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو فلمی ماحول کے لیے موزوں نہیں سمجھتے۔
’جب اللہ نے ٹی وی پر اچھا کریئر دیا ہوا ہے تو اپنی عزت پر فلم میں کام کر کے دھبہ کیوں لگاؤں۔ پاکستان میں آج بھی فلم ایک جوا ہے۔ ہمارے پاس نہ فلم میکر ہیں نہ رائٹر اور ڈائریکٹر کیوں کہ ہمیں فلم کا آئیڈیا ہی نہیں۔ جو بھی فلم بنا رہا ہے، اپنے شوق میں اور اپنے خرچے پر بنا رہا ہے۔ ہم صرف باہر سے دعا کر سکتے ہیں۔‘
نعمان اعجاز اپنے بیٹے زاویار کی انڈسٹری میں انٹری پر زیادہ خوش نہیں۔
خود اپنے بارے میں بھی ان کا خیال ہے کہ اگر انھیں دوبارہ شوبز میں آنے سے پہلے والا نعمان اعجاز کہیں مل جائے تو وہ اسے فیلڈ میں نہ آنے کا مشورہ دیں گے۔
وہ کہتے ہیں ’میں شوبز سے پہلے والے نعمان اعجاز کو کہوں گا کہ اس فیلڈ میں نہ آنا۔ یہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ یہ ہماری ہی گردن کاٹتے ہیں اور چڑھتے سورج کو سلام کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے۔‘
’میں اسے مشورہ دوں گا کہ صبح نکل کر شام کو غروب ہونے والے سورج سے ہی کچھ سیکھ لو اور جتنا بھی وقت یہاں ہو، خوشیاں بانٹو۔‘
ڈرامہ ’کیسی تیری خودغرضی‘: ’ٹاکسک مرد کو امر کرنا ہے تو اُس کو مار دیں‘نعمان اعجاز: ’اگر آپ میرے مذاق کو نہیں سمجھ سکتے تو پھر یہ میرا مسئلہ نہیں‘نعمان اعجاز کا عفت عمر کے ساتھ ’پرانا‘ انٹرویو کیوں وائرل ہوا؟’پرورش‘: جین زی کا ڈرامہ جس نے والدین اور بچوں کے بیچ فاصلے کی کہانی دکھائیانڈیا میں دھورندھر کے ناقد ’منظم حملوں اور ہراسانی‘ کی زد میں: ’فلم پاکستان کو بے قابو اور وحشی معاشرے کے طور پر پیش کرتی ہے‘