Getty Images
بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کرنے والے ماما قدیر بلوچ سنیچر کے روز انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔
وہ رواں سال عید الفطرکے بعد سے بیمار تھے جبکہ چند روز سے وہ کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر تھے۔
ان کے بیٹے بجار ریکی نے بی بی سی کو ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ماما قدیر کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین ان کے آبائی علاقے سوراب میں کی جائے گی۔
لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ قدیر بلوچ دمے کے عارضے میں مبتلا تھے جبکہ چند ہفتے قبل ان میں ٹی بی کی تشخیص کے علاوہ جگر میں مسئلے کی نشاندہی بھی ہوئی تھی۔
لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ نے ماما قدیر کی موت پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اور اس دوران کوئٹہ میں احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی بند رہے گا۔
ماما قدیر نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین لانگ مارچ بھی کیا تھا۔
ماما قدیر بلوچ کون تھے؟
ماما قدیر بلوچ کا تعلق بلوچستان کی قلات ڈویژن کے علاقے سوراب سے تھا۔ وہ چھ جون 1940 کو سوراب میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے مڈل تک تعلیم سوراب سے حاصل کی جبکہ میٹرک خضدار شہر سے کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے کیا۔
وہ تعلیم کے دوران اور اس کے بعد قوم پرستی کی سیاست سے وابستہ رہے اور نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔
سنہ 1974 میں انھوں نے کیشیئر کے طور پر یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں ملازمت اختیار کی اور 2009 میں گریڈ تھری کے افسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد عموماً لوگ آرام کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ماما قدیر بلوچ کو آرام کا موقع نہیں ملا بلکہ ان کے حصے میں پہلے سے کئی گنا زیادہ مشکل کام آ گیا۔
ماما قدیر کے جوان بیٹے کی گمشدگیBBCماما قدیر نے بیٹے کی لاش کی برآمدگی کے بعد احتجاجی کیمپ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا
2009 میں ماما قدیر کے بڑے بیٹے جلیل ریکی کوئٹہ سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ ماما قدیر کا الزام تھا کہ ان کے بیٹے کو سکیورٹی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے جس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ماما قدیر کے مطابق انھوں نے جلیل ریکی کو محنت سے پڑھایا۔ ڈبل ایم اے کرنے کے بعد ان کا بیٹا یونائیٹڈ بینک میں افسر کے طور پر تین سال تک ملازم رہا۔
بیٹے کی جبری گمشدگی کے ساتھ ہی 2009 سے ماما قدیر ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جو پہلے ہی سے اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی جبری گمشدگی کے خلاف وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہتے تھے۔
ماما قدیر نے ستمبر 2019 میں بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جلیل ریکی کو بڑھاپے میں ان کا سہارا بننا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ جبری طور پر گمشدگی کے تین سال بعد ضلع کیچ سے ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔
بلوچستان کے لاپتہ افراد: ’بھائی اور بھتیجے کی گمشدگی کا غم اتنا ہے کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘محمد حنیف کا کالم: جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کا انوکھا حللاپتہ پیاروں کی متلاشی بلوچ خواتین: ’دل سے ڈر ختم ہو چکا، بس کسی بھی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے‘’ماما قدیر طویل علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے روح رواں تھے‘
وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ ان کی تنظیم کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم علامتی بھوک ہڑتال کیمپ جدید دنیا کا طویل ترین احتجاجی کیمپ ہے۔
یہ کیمپ چھ ہزار 35 دن سے زائد کے عرصے سے قائم ہے۔ نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ ماما قدیر ہی اس کیمپ کے روح رواں تھے۔
ماما قدیر نے اپنے انٹرویو مین بتایا تھا کہ پہلے سیاسی جماعتیں بھی گمشدگیوں کے حوالے سے احتجاج کر رہی تھیں لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین نے یہ سوچا کہ وہ خود کیوں نہ اس حوالے سے تنظیم بنائیں۔
’لواحقین کا اجلاس ہوا جس کے بعد انھوں نے نصراللہ بلوچ کی سربراہی میں اس تنظیم کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا نام تجویز کیا جس کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ طور پرعلامتی بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کیا گیا۔‘
ماما قدیر بلوچ کو اس تنظیم کا وائس چیئرمین مقرر کیا گیا۔
اگرچہ اس کیمپ میں تنظیم کے عہدیداروں کے علاوہ لواحقین بھی بھوک ہڑتال میں بیھٹتے رہے ہیں لیکن ماما قدیر 2009 سے مستقل طور پر اس میں بیٹھتے رہے۔
جن لوگوں کے لاپتہ رشتہ داروں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں یا ان کے پیارے بازیاب ہوئے تو ان میں سے زیادہ تر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ میں نظر نہیں آئے۔
لیکن ماما قدیر نے بیٹے کی لاش کی برآمدگی کے بعد ایسا نہیں کیا بلکہ انھوں نے احتجاجی کیمپ کو اپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کی جبری گمشدگی کے باعث جو دکھ ان کا تھا وہی دکھ ان سب کا ہے جن کے پیارے لاپتہ ہیں، اس لیے بیٹے کی لاش کی برآمدگی کے بعد انھوں نے جدوجہد کو ترک نہیں کیا۔
کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو چار مرتبہ نذر آتش کیا گیا۔
ماما قدیر کا بی بی سی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ ان کا احتجاج پرامن تھا لیکن اس کے باوجود ان کے لیے مشکلات کھڑی کی گئیں۔
ان کے مطابق انھیں مبینہ طور پر متعدد بار بالواسطہ اور بلاواسطہ کیمپ ختم کرنے کے لیے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہکیمپ کو نذرِ آتش کرنے کے علاوہ اس میں گندگی بھی پھینکی جاتی رہی۔
انھوں نے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ گھر کے قریب موٹر سائیکل سواروں نے ٹکر ماری جس سے وہ گر کر زخمی ہو گئے۔
BBCماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ جو دکھ ان کا تھا وہی دکھ ان سب کا ہے جن کے پیارے لاپتہ ہیں، اس لیے بیٹے کی لاش کی برآمدگی کے بعد انھوں نے جدوجہد کو ترک نہیں کیاپاکستان کی تاریخ کا طویل لانگ مارچ بھی کیا
ماما قدیر نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے طویل لانگ مارچ بھی کیا جس میں لاپتہ افراد کے دیگر رشتہ بھی شامل تھے ۔
اس لانگ مارچ کا آغاز اکتوبر 2013 میں کوئٹہ سے کیا گیا۔
لانگ مارچ کے شرکا پہلے پیدل کراچی پہنچے۔ کراچی میں چند روز قیام کے بعد اسلام آباد کے لیے مارچ شروع کیا گیا۔
ماما قدیر نے بتایا تھا کہ کوئٹہ سے براستہ کراچی اسلام آباد تک ان کو لگ بھگ چار مہینے لگے تھے۔
’انھوں نے بتایا تھا کہ لانگ مارچ کے دوران بھی مختلف علاقوں میں ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم نے اس کے باوجود لانگ مارچ کو جاری رکھا۔‘
جنیوا تک لانگ مارچ کی خواہش پوری نہ ہو سکی
ماما قدیر بلوچ نے سنہ 2018 میں جنیوا کا دورہ بھی کیا اور جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے اجلاسوں میں بھی شرکت کی۔
اس کے علاوہ انھوں نے اس سلسلے میں امریکہ کا بھی دورہ کیا۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ کی پہلے صدارتی انتخابی مہم کے دوران وہ امریکہ تھے جہاں ان کی ٹرمپ سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا ماما قدیر بلوچنے ایک ڈیڑھ سال قبل لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جینوا تک بھی لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ لانگ مارچ نہیں کر سکے کیونکہ حکومت نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا۔
بلوچستان کے لاپتہ افراد: ’بھائی اور بھتیجے کی گمشدگی کا غم اتنا ہے کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘لاپتہ افراد کا معاملہ: ’اگر وزیر اعظم با اختیار نہیں تو کون بااختیار ہے؟‘محمد حنیف کا کالم: جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کا انوکھا حللاپتہ پیاروں کی متلاشی بلوچ خواتین: ’دل سے ڈر ختم ہو چکا، بس کسی بھی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے‘بلوچستان کا لاپتہ لیویز اہلکار:’ بھائی کو بازیاب کروا کر ہماری خوشیاں لوٹا دیں‘