انڈین سیٹ یا کموڈ، رفع حاجت کے لیے کیا بہتر ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 08, 2025

Getty Images

پاکستان اور انڈیا سمیت ایشیا کے بیشتر حصوں میں جب لوگ رفع حاجت کے لیے بیت الخلا (باتھ روم) جانے کا سوچتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ان کے لیے وہاں ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھنے کی سہولت ہو گی یا انھیں اپنی ٹانگیں موڑ کر بیٹھنا ہو گا۔

وقت کے ساتھ رفع حاجت کے مغربی انداز یعنی کموڈ کو جنوبی ایشیا میں بھی اپنایا گیا ہے مگر کچھ لوگ اب بھی انڈین سیٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔

اکثر یہ بحث ہوتی ہے کہ کون سا ٹوائلٹ صحت کے لیے بہتر ہوتا ہے، یعنی مغربی طرز کا کموڈ یا انڈین سیٹ جسے عام فہم انداز میں ڈبلیو سی بھی کہا جاتا ہے۔

رواں سال جولائی کے دوران امریکی نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق اب اس بحث کا سائنسی جواب فراہم کرتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ہی رفع حاجت کے لیے آسان طریقے ہیں اور یہ کہ انڈین ٹوائلٹ اور مغربی طرز دونوں کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔

اس مضمون میں ہم اس تحقیق کی روشنی میں بات کریں گے کہ انسانی جسم کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے رفع حاجت کا کون سا انداز بہترین انتخاب ہوگا؟

رفع حاجت کے انداز کے پیچھے سائنس

رفع حاجت کے لیے باتھ روم جانا ایک سادہ سی بات لگتی ہے لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ ’جسم کے اندر پٹھوں اور جسم کی حرکات کا ایک پیچیدہ نظام ہے جو پاخانے یا فضلے کا اخراج آسان یا مشکل بنا سکتا ہے۔‘

معدے کے سینیئر ماہر کیالویزی جیرامن کہتے ہیں کہ مقعد (وہ راستہ جس سے پاخانہ خارج ہوتا ہے) کی پوزیشن بھی اس میں ایک اہم عنصر ہے۔

ان کے مطابق ’مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب مقعد صحیح زاویے پر ہوتا ہے تو پاخانہ زیادہ آسانی سے باہر نکلتا ہے۔ کچھ لوگوں کو بیت الخلا میں کموڈ سیٹ پر بیٹھتے وقت رفع حاجت کرنے میں کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس سے اس راستے میں خم پیدا ہو جاتا ہے۔‘

رواں سال جولائی میں شائع ہونے والے تحقیقی نتائج کے مطابق رفع حاجت کے دوران مقعد کو سیدھی پوزیشن میں رکھنا ضروری ہے۔

کیالوزی جیرامن کہتے ہیں کہ انڈین ٹوائلٹ کی طرز کے بیت الخلا کے استعمال کی صورت میں مقعد کی پوزیشن میں یہی ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’جب کوئی شخص ٹانگیں موڑ کر بیٹھتا ہے تو گھٹنے مڑتے اور رانیں پیٹ میں دھنس جاتی ہیں۔ پھر جسم قدرتی طور پر آگے جھک جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پٹھے ریلیکس (آرام دہ صورتحال میں ) ہوتے ہیں اور مقعد کی پوزیشن سیدھ میں ہوتی ہے۔‘

تحقیق کے مطابق ’اس کے برعکس مغربی طرز کے بیت الخلا میں جب کوئی شخص سیدھا بیٹھتا ہے تو پٹھے تنگ یا سخت ہوتے ہیں اور بڑی آنت کا آخری حصہ (ریکٹم) خمیدہ ہوتا ہے جس سے پاخانے کے اخراج میں اضافی دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

Getty Images

تاہم ڈاکٹر کیالوزی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صرف اس کی بنیاد پر انگلش سیٹ یا کموڈ کو صحت کے لیے سازگار قرار دینا درست نہیں۔

ان کے مطابق دونوں قسم کے بیت الخلا کئی سالوں سے زیر استعمال ہیں۔ ’شاید اگر مغربی انداز میں بہت سے عملی مسائل ہوتے تو اس کا استعمال اتنا طویل نہ ہوتا۔‘

اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’مغربی طرز کے بیت الخلا بزرگوں، جسمانی معذوری میں مبتلا افراد اور بیمار افراد کے لیے مفید ہیں۔‘

فضلہ خارج کرنے کا بہترین طریقہ

جب رفع حاجت کی بات آتی ہے تو ’دنیا بھر میں عام طور پر تین طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ مکمل طور پر پیروں کے بل گھٹنے موڑ کر بیٹھنے کا انداز، کرسی پر بیٹھنے کا مغربی اندازجبکہ انگلش سیٹ پر ہی ٹانگوں کو قدرے اونچا کرکے( پیروں کے نیچے تپائی یا پٹرا) رکھ کر پاخانہ کرنا۔‘

ڈاکٹر کیالوزی کے مطابق اس سے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آتی تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مغربی انداز میں بھی لوگ اس طرح کی تبدیلیاں کرتے ہیں کیونکہ کرسی جیسی پوزیشن میں ٹانگیں اٹھا کر اور جوڑ کر بیٹھنے سے پاخانے میں آسانی ہوتی ہے۔‘

یعنی انڈین سیٹ میں رفع حاجت کرتے وقت مقعد صحیح زاویہ پر ہوتا ہے۔ اس لیے پاخانہ گزرنے میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا تاہم چونکہ کرسی کے سائز کا ٹوائلٹ استعمال کرنے میں کچھ مشکلات پیش آتی ہیں اس لیے بہت سے لوگ اس سے بچنے کے لیے سیٹ پر بیٹھتے وقت ٹانگیں اٹھانے کی عادت اپناتے ہیں۔

Getty Images

دوسری جانب تحقیق میں حصہ لینے والے رضاکاروں نے بتایا کہ ’سکواٹنگ (اکڑوں بیٹھنا) کے طریقہ کار میں رفع حاجت کرنے کے دوران کم سے کم کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مغربی انداز میں رفع حاجت کے لیے اضافی دباؤ درکار ہوتا ہے۔‘

تاہم اس مطالعے میں متنبہ کیا گیا ہے کہ جب بیرونی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے تو یہ تکلیف بواسیر، بڑی آنت کے مسائل اور مقعد میں دراڑ جیسے خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انڈین ٹوائلٹ میں سکواٹنگ کا طریقہ ایک شخص کے بیت الخلا میں گزارنے والے وقت کو بھی کم کرتا ہے کیونکہ پاخانہ بغیر کسی رکاوٹ کے آسانی سے گزر جاتا ہے۔

جرنل آف ایڈوانسڈ میڈیکل اینڈ ڈینٹل سائنسز ریسرچ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ انڈینز کے بیت الخلا کا استعمال قبض کو ہونے سے روکتا ہے اور صحیح ہاضمے کو فروغ دیتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض دیگر کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ’انڈین طرز کے بیت الخلاء بزرگوں اور جسمانی معذوری کے حامل افراد کے لیے استعمال کرنا مشکل ہے۔ دوسری جانب ہم خود بہت سے گھروں میں دیکھتے ہیں کہ وہ کموڈ کی نسبت انڈین بیت الخلاء کو استعمال کرنا زیادہ آرام دہ سمجھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر کیالوزی کے مطابق ’لہذا اس بات سے قطع نظر کہ آپ کون سا بیت الخلا استعمال کرتے ہیں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اپنی غذا میں مناسب مقدار میں غذائی اجزا کو استعمال کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آپ بغیر کسی پیچیدگی کے پاخانہ خارج کر سکیں۔‘

انڈین ڈیزائن کے ٹوائلٹ میں مغربی انداز Getty Imagesانڈین طرز کے بیت الخلا کے استعمال کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے متبادل حل استعمال کیے جا رہے ہیں

2014 میں انڈیا میں شروع کیے گئے صحت و صفائی کے ایک مشن کے تحت مرکزی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ کھلے مقامات میں رفع حاجت سے پاک کمیونٹیز بنانے کی کوششوں میں صفائی ستھرائی کو بہتر بنانے پر توجہ دے گی۔

نیشنل میڈیکل جرنل آف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق اس پروجیکٹ میں ’ٹوائلٹ کے ایسے ڈیزائنوں پر غور کیا گیا جو مختلف قسم کی معذوری کے شکار اور بزرگوں کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہوں گے۔‘

اس کے لیے ’Handbook on Accessible Home Hygiene‘ نے انڈین طرز کے سکواٹنگ سسٹم کے برعکس دو ٹوائلٹ ڈیزائن تجویز کیے ہیں۔

کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟آپ کا پاخانہ آپ کی صحت کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے اور یہ ہفتے میں کتنی بار کرنا چاہیے؟برتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے؟بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر۔۔۔ مردوں کے لیے پیشاب کرنے کا کون سا طریقہ صحیح ہے؟

تاہم مصنفین کا کہنا ہے کہ ’فیلڈ ریسرچ نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ وہ متبادل حل یعنی مغربی طرز کی کرسی نما بیت الخلا کے ڈیزائن ’سوچھ بھارت مشن‘ میں استعمال نہیں کیے گئے۔‘

اس آرٹیکل کے مطابق انڈین طرز کے بیت الخلا سب کے لیے نہیں اور معاشرے میں مغربی طرز کے بیت الخلاء کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر کیالوزی کہتے ہیں کہ ’اس مقصد کے لیے ہم بہت سے خاندانوں میں انڈین بیت الخلاء کو دوبارہ ڈیزائن کرنے اور مغربی طرز سے مشابہت رکھنے، سٹول یا پٹرا وغیرہ کا استعمال کرنے کا رواج دیکھ سکتے ہیں۔‘

Getty Imagesمغربی طرز کے بیت الخلاء میں پاؤں کے نیچے پٹرا رکھنے کا بھی رواج ہے تاکہ مقعد صحیح زاویے پر رہے

جولائی میں شائع ہونے والی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ انڈین ٹوائلٹ کی سکواٹنگ پوزیشن میں پاخانے کے اخراج کے دوران مکمل صفائی یا پیٹ خالی ہونے کا احساس مغربی ٹوائلٹ کی طرز کی پوزیشن میں ہر وقت نہیں ہوپاتا۔

یعنی ’یہ ایسا احساس ہے کہ پاخانہ مکمل طور پر نہیں نکلا ہے۔ اس کا تعلق قبض اور ہاضمہ کی تکلیف سے ہے۔ یہ احساس ان لوگوں میں زیادہ عام تھا جو مغربی بیت الخلا استعمال کرتے تھے۔‘

ڈاکٹر کیالوزی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی تکلیف سے نمٹنے کے لیے ’پاؤں کے لیے پٹرا رکھنے سے کسی حد تک مدد ملتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے پٹرے یا سٹول پر ٹانگوں کو اونچا کرنے سے اینوریکٹل اینگل بہتر ہوتا ہے جو کموڈ کے استعمال سے منسلک تکلیف کو کم کر سکتا ہے۔‘

انڈیا میں سکواٹنگ سے کرسی طرز کے بیت الخلا کے استعمال میں تبدیلی کا تعلق عالمی سطح پر بنائے گئے ڈیزائن سے ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں زیادہ تر نئے اپارٹمنٹس اور دفاتر میں کرسی کی شکل کے بیت الخلا نصب کیے گئے ہیں۔

جب ڈاکٹر کیالوزی سے پوچھا گیا کہ کیا قبض، اپھارہ اور بواسیر کے درمیان کوئی تعلق ہو سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’آپ کسی شخص کی جسمانی صحت کا فیصلہ صرف بیت الخلا کی شکلوں کی بنیاد پر نہیں کر سکتے۔ خوراک، بیٹھنے کی عادت اور تناؤ بھی اس میں ایک کردار ادا کرتے ہیں۔‘

انڈیا میں دو طرح کے بیت الخلا کے نظام کے استعمال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ

’اگر آپ فائبر سے بھرپور غذائیں کھانے اور آنتوں کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے وافر مقدار میں پانی پینے کی عادات پر عمل کرتے ہیں تو چاہے آپ کسی بھی قسم کا بیت الخلا استعمال کریں، قبض کے مسائل سے چھٹکارا پانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟برتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے؟آپ کا پاخانہ آپ کی صحت کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے اور یہ ہفتے میں کتنی بار کرنا چاہیے؟بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر۔۔۔ مردوں کے لیے پیشاب کرنے کا کون سا طریقہ صحیح ہے؟’یہ کھاد تو ہر جگہ مفت دستیاب ہے‘: دگنی پیداوار کے لیے انسانی پیشاب کا استعمال کیسے کیا جاتا ہےانسانی پاخانے سے بنی گولی جو آنتوں کا انفیکشن ختم کرنے کے لیے استعمال ہو گی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More