’خاموش رہ کر میں اُس کی اے ٹی ایم مشین بن گئی‘: شوہر اپنی شریک حیات کو نجی تصاویر کے ذریعے کیوں بلیک میل کر رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 08, 2025

Getty Imagesلیلیٰ کو اصل دھچکا یہ پہنچا تھا کہ اُن کی تصاویر اور ویڈیوز انھیں بھیجنے والا اُن ہی کا سابق شوہر تھا

لیلیٰ (فرضی نام) مصر کے ایک شہر میں رہتی ہیں۔ ایک صبح اُن کی آنکھ اپنے موبائل فون پر موصول ہونے والے نوٹیفکیشن کی آواز سے کُھلی۔

اس وقت تک انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ نوٹیفیکیشن اُن کی زندگی کو ہلا کر رکھ دینے والے ایک خوفناک سلسلے کا آغاز ثابت ہو گا۔ فون اٹھایا تو اس میں اُن کی نجی تصاویر اور گھر میں بنائی گئی ویڈیوز موجود تھیں۔۔۔ وہی گھر جسے وہ ہمیشہ اپنی پناہ گاہ سمجھتی تھیں۔

انھیں اصل دھچکا ان تصاویر یا ویڈیوز سے نہیں لگا بلکہ بھیجنے والے کی شناخت سے لگا جو اُن کا سابق شوہر تھا۔ یہ بات بی بی سی کو لیلیٰ کے وکیل یحییٰ رضوان نے بتائی جو سائبر کرائم کے قوانین کے ماہر ہیں اور مصر میں انٹرنیٹ جرائم، دھمکی اور بلیک میلنگ کے خلاف ایک مہم کے بانی ہیں۔

یحییٰ رضوان کے مطابق آغاز میں لیلیٰ نے سابق شوہر کے ہاتھوں کی جانے والی بلیک میلنگ کے آگے جھک جانا ہی بہتر سمجھا۔ دو برسوں کے دوران اُن کے سابق شوہر نے اُن سے تقریباً دو ملین مصری پاؤنڈ (قریب 40 ہزار امریکی ڈالر) بٹور لیے۔

لیکن مطالبات رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اُن کے وکیل کے مطابق لیلیٰ کو احساس ہوا کہ اُن کی اس حوالے سے خاموشی نے انھیں اُن کے سابق شوہر کی نگاہ میں ایک ’اے ٹی ایم مشین‘ بنا دیا ہے۔ اور یوں انھوں نے سمجھ لیا کہ یہ سلسلہ محض اُن کے چپ رہنے سے ختم نہیں ہو گا۔

بالآخر لیلیٰ نے ہمت کر کے حکام کے پاس اس کی شکایت درج کروائی۔ مصر کی سائبر کرائم یونٹ نے ان کے سابق شوہر کے جرم میں ملوث ہونے کے ثبوت اکٹھے کیے اور تقریباً ایک سال کی قانونی کارروائی کے بعد عدالت نے ملزم کو تین سال قید کی سزا سنائی۔

’یہ انفرادی کیس نہیں ہے‘

لیلیٰ پہلی خاتون نہیں ہیں جن کے ساتھ ایسا ہوا اور شاید آخری بھی نہ ہوں، خصوصاً اس دور میں جب خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

مصر میں سائبر کرائم کے شعبے سے وابستہ متعدد وکلا، کارکنوں اور ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس آنے والی اس نوعیت کی شکایات میں ایک تشویشناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے جن میں بلیک میل کرنے والا عموماً موجودہ شوہر یا سابق شوہر ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر بھی خواتین کے خلاف آن لائن تشدد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی 2020 کی ایک تحقیق، جس نے خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے عالمی پھیلاؤ کا ایک اشاریہ تیار کیا، کے مطابق دنیا بھر میں 38 فیصد خواتین کسی نہ کسی شکل میں ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہوئیں۔

صرف دھمکی کے ذریعے تصاویر یا ویڈیوز کے پھیلاؤ سے متعلق حملے، آن لائن تشدد کے مجموعی واقعات کا 57 فیصد تھے۔

عرب دنیا میں صورتحال اس سے کم سنگین نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی خواتین سے متعلق 2021 کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 60 فیصد عرب خواتین آن لائن تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔

مصر میں اگرچہ ایسی خواتین کی درست سرکاری تعداد موجود نہیں جو ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہوئیں یا جن کے ساتھ رشتے داروں نے بلیک میلنگ کی، مگر قومی خواتین کونسل کے شکایات دفتر کی 2023 کی سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی جرائم کی شرح، موصول ہونے والی مجموعی 26 ہزار سے زائد شکایات میں سے 1.6 فیصد تھیں۔

تاہم جب مصر میں ڈیجیٹل تشدد کے خلاف کام کرنے والی نجی اور سماجی تنظیموں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو صورتحال کہیں زیادہ سنگین نظر آتی ہے۔

’سپیک اپ‘ کی 2024/2025 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ہزاروں خواتین کی جانب سے دس ہزار سے زائد فوری مدد کی اپیلیں ہاٹ لائن اور سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئیں۔

ان شکایات میں متعدد مثالیں ایسی تھیں جن میں شوہر اپنی بیویوں کو ازدواجی زندگی کے دوران بنائی گئی نجی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرتے رہے، کبھی طلاق سے روکنے کے لیے اور کبھی مالی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے۔

https://twitter.com/speakup_00/status/1981045940149432598?s=46

محمد الیمانی، جو سائبر کرائم اور ڈیجیٹل تشدد کے متاثرین کی مدد کرنے والی مصری تنظیم ’قاوم‘ کے چئیرمین ہیں، بتاتے ہیں کہ اُن کے ادارے کو روزانہ موصول ہونے والی سینکڑوں شکایات اور انکوائریوں میں سے تقریباً 75 فیصد ایسے متاثرین کی ہوتی ہیں جن کا اپنے بلیک میلر کے ساتھ کوئی رومانی تعلق رہ چکا ہوتا ہے، لیکن وہ رشتہ شادی تک نہیں پہنچا ہوتا۔

وہ بی بی سی سے گفتگو میں مزید کہتے ہیں کہ مجموعی شکایات میں سے تقریباً سات فیصد میں بلیک میلر ’شوہر‘ یا ’سابق شوہر‘ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ تناسب بظاہر کم لگتا ہے مگر ان کے مطابق یہ خاندانی تحفظ اور گھریلو سلامتی کے نظام پر بہت سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔

اس کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟

لیلیٰ کے وکیل یحییٰ رضوان بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلاق یا علیحدگی کے معاملات میں اکثر بنیادی محرک مالی معاملات ہوتے ہیں۔ یعنی شوہر نجی تصاویر یا ویڈیوز کا سہارا لے کر بیوی پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اپنے شرعی اور قانونی حقوق جیسے نان و نفقہ یا جہیز کی اشیا وغیرہ سے دستبردار ہو جائے۔ بعض اوقات یہ دباؤ غیر مالی پہلوؤں تک بھی پھیل جاتا ہے جیسا کہ بچوں کی تحویل چھوڑنے پر مجبور کرنا۔

لیکن دوسرے معاملات میں محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ مصر کے سرکاری میڈیا میں سامنے آنے والی مختلف تحقیقات کے مطابق کئی موجودہ شوہروں نے بھی اپنی بیویوں کو ازدواجی جھگڑوں یا گھریلو تنازعات کے دوران بلیک میل کیا۔

خواتین کے حقوق کے لیے دو دہائیوں سے سرگرم کارکن اور ’المراة الريفية‘ کی بانی لمیا لطفی کہتی ہیں کہ آن لائن بلیک میلنگ مجموعی طور پر بہت عام ہو چکی ہے اور کم عمر لڑکیاں اس کا سب سے زیادہ شکار بنتی ہیں۔

اُن کے مطابق: ’بعض اوقات اس دباؤ کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بعض لڑکیاں اپنی جان تک گنوا بیٹھتی ہیں۔‘

’کبھی ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے واقعات سامنے آتے ہیں اور کبھی لڑکیاں خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔‘

وہ مغربی صوبے میں 17 سالہ لڑکی کی خودکشی کی مثال دیتی ہیں جسے بلیک میلنگ کا سامنا تھا۔ اور اس کے فوراً بعد محض 15 سالہ لڑکی کی خودکشی کا افسوسناک واقعہ مشرقی صوبے میں پیش آیا۔دونوں ہی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے اسی ’ڈیجیٹل تشدد‘ کے نتیجے میں تھیں۔

’میری ویڈیو بنا کر مجھے مسلسل بلیک میل کیا گیا، اسی کے ڈر سے صلح کی تھی‘کیمیکل کنٹرول اور سپائکنگ: ’میرے شوہر نے کئی سال تک نشہ آور ادویات دے کر میرا ریپ کیا‘سیکس ٹارشن: ’خاتون نے کہا تین ہزار پاؤنڈ بھجوا دو ورنہ تمھاری زندگی تباہ کر دوں گی‘ڈیٹنگ ایپ، نقاب اور نائن ایم ایم پستول: برطانیہ میں پاکستانی خاندان نے بدلہ لینے کے لیے کیسے امریکی خاتون کی خدمات لیں

شوہر یا سابق شوہر کی جانب سے کی جانے والے بلیک میلنگ کے بارے میں لمیا لطفی کا کہنا ہے کہ بلیک میل کرنے والا چاہے وہ موجودہ شریکِ حیات ہو یا سابق، عام طور پر ایسی ’مردانہ ثقافت روایات‘ پر اعتماد کرتا ہے جو اس کے اس نوعیت کے رویے کو جائز سمجھتی ہے۔

لمیا لطفی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ’اگرچہ ایسے واقعات اعداد و شمار میں وسیع پیمانے پر نظر نہیں آتے لیکن شوہر یا سابق شوہر کی جانب سے بلیک میل ہونا اپنے آپ میں ایک بڑا سماجی صدمہ ہے۔ کیونکہ اس معاشرے میں شادی کو تحفظ اور پردہ داری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب یہی رشتہ خطرے کا سبب بن جائے تو پورا نظام لرز اٹھتا ہے۔‘

وہ اس امر کا بھی شکوہ کرتی ہیں کہ معاشرہ شوہر کو سماجی طور پر سزا نہیں دیتا، نہ ہی اسے سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ اکثر اس کے لیے جواز تلاش کیے جاتے ہیں۔

لمیا کہتی ہیں کہ ’ان جرائم کے مسلسل بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ مرد کے لیے کسی بدنامی یا شرمندگی کا تصور ہی پیدا نہیں کرتا۔‘

قانون میں خلا

کچھ معاملات میں صورتحال بہت سنگین ہو گئی جن میں ڈیجیٹل آلات اور جعلی مواد کا استعمال کرتے ہوئے بیوی پر زنا کا الزام تک عائد کیا گیا۔

فیملی قوانین کے ماہر وکیل عصام عطیہ ایک واقعہ بتاتے ہیں جس میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کے خلاف زنا کا مقدمہ دائر کیا اور اس ضمن میں جو ڈیجیٹل ثبوت پیش کیے جو بعد کی تحقیقات میں جعلی ثابت ہوئے۔

عطیہ کے مطابق شوہر کا مقصد یہ تھا کہ وہ ’زنا کا جھوٹا الزام‘ ثابت کرے تاکہ طلاق اور دوبارہ شادی کی اجازت حاصل کی جا سکے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے جعلی ویڈیوز اور تصاویر تیار کر کے حکام کے سامنے پیش کیں۔

کچھ دیگر کیسز میں خواتین قانون میں کمیوں کے باعث ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے دھوکے کو ثابت نہیں کر پائیں۔

ایک اور شوہر نے اپنی بیوی کے طرز عمل کو چیلنج کرنے کے لیے ڈیجیٹل ثبوت پیش کیے جس کا مقصد اسے اپنے تمام حقوق ترک کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ ابتدائی طور پر عدالت نے بیوی کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی مگر بعد میں اعلیٰ عدالت میں ثبوت جعلی ثابت ہونے پر بیوی کو بری کر دیا گیا۔

عطیہ نے ایک دوسرے کیس کی تفصیلات بیان کیں جس میں صورتحال زیادہ مشکل اور پیچیدہ تھی۔ مؤکل ان کے پاس اس وقت آئیں جب ان کے خلاف قید کا حتمی فیصلہ جاری ہو چکا تھا یعنی وہ جیل جانے کے بہت قریب تھیں۔ اس معاملے میں شوہر ایک عرب ملک میں کام کر رہا تھا اور بیوی مصر میں تھیں۔

شوہر نے بیوی کو فاصلے اور سفر کے بہانے ویڈیو کالز کے ذریعے نجی تعلق قائم کرنے پر راضی کیا لیکن اس نے آواز اور تصویر کے ساتھ یہ کالیں ریکارڈ کر لیں۔ اس کے بعد شوہر نے ان کالز کو ریکارڈ کر کے جعلی طریقے سے پیش کیا تاکہ یہ لگے کہ خاتون کسی اور کے ساتھ ہیں۔

عطیہ کے مطابق اس کیس کا حقیقی محرک مالی تنازع تھا۔ بیوی اس سے پیسے مانگ رہی تھیں۔ شوہر نے رقم دینے سے انکار کیا اور دھمکی دی کہ وہ اسے پھنسائے گا اور بدنام کرے گا اور یہ دھمکی عملی شکل اختیار کر گئی۔

بعد میں تحقیقات میں شوہر کے خلاف یہ الزامات ثابت ہوئے اور اعلیٰ عدالت نے بیوی کو بری کر دیا۔ تاہم عطیہ کے مطابققانونی تنازع ختم ہونے اور عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بھی بیوی نے محسوس کیا کہ سماجی بدنامی ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔

Getty Images

وکیل عصام عطیہ نشاندہی کرتے ہیں کہ مصر کے فوجداری قانون میں زنا کے ثبوت کے حوالے سے خلا موجود ہے۔ قانون کے مطابق زنا کے جرم کے لیے صرف تین قسم کے ثبوت قبول کیے جاتے ہیں: عمل کے دوران پکڑے جانا، اعتراف، یا تحریر۔

لیکن ٹیکنالوجی کے دور میں اب الیکٹرانک گفتگو اور میسجز کو بھی تحریری خط و کتابت سمجھا جانے لگا ہے اور یہ آسانی سے اے آئی اور دیگر تکنیکی ذرائع کے ذریعے جعلی بنائے جا سکتے ہیں۔ عطیہ کے مطابق یہ صورتحال فوری قانونی مداخلت کی متقاضی ہے تاکہ قانون ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے۔

عطیہ مصر کے پارلیمنٹ اور آئینی عدالت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوجداری قانون کی دفعہ 276 میں ترمیم کی جائے جس میں زنا کے جرم کے لیے ثبوت کی شرائط بیان ہیں۔ وکیل کے مطابق جیسے جیسے ٹیکنالوجی بدلی ہے ’تحریری خط و کتابت‘ کو الیکٹرانک پیغامات سے تعبیر کیا جانے لگا ہے جنھیں تکنیکی طریقے یا اے آئی کے ذریعے جعل سازی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ان کے زیرِ نگرانی کیسز میں ہوا۔

عطیہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قانون میں ایسا نیا جُزو بھی شامل کیا جائے جو شوہر کو جعلی زنا کے الزام یا ثبوت بنانے کی صورت میں سخت قانونی سزا دے کیونکہ صرف بیوی کو بری کر دینے سے متاثرہ خاتون پر نفسیاتی اور سماجی اثرات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

خوف اور بدنامی کا ڈر

سائبر کرائم اور ڈیجیٹل تشدد کے متاثرین کی حمایت کرنے والی ’قوم‘ فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سربراہ محمد الیمانی کے مطابق جرم کی شدت کے باوجود بہت سی خواتین سرکاری رپورٹیں درج کرنے سے کتراتی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ ’سماجی بدنامی‘ اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے ردعمل کا خوف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرین اکثر خوف میں ڈوبے جملے دہراتے ہیں، جیسے ’میں نہیں چاہتی کہ میرے والد کو پتہ چل جائے‘ یا ’میرے والد کو پتہ چلا تو وہ مر سکتے ہیں‘ اور ’میرا بھائی مجھے مار ڈالے گا۔‘

’مزاحمت‘ اور ’سپیک اپ‘ جیسی تنظیمیں فحش پلیٹ فارمز یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے مواد کو سکین کر کے متاثرین کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔

https://twitter.com/SpeakUp_00/status/1945572211625980289?s=20

ماہر وکیل اور نیشنل کونسل فار ہیومن رائٹس کی رکن نہاد ابو القمسان کہتی ہیں کہ قانون نمبر 175 برائے 2018 جسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کرائمز لا کہا جاتا ہے ایک جامع قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ قانون تقریباً ہر ممکنہ جرم کا احاطہ کرتا ہے اور بعض اقدامات کے حوالے سے کافی وسیع بھی ہے، خاص طور پر دفعہ 25 میں شامل غیر واضح اصطلاحات جیسے کہ عوامی اخلاقیات یا خاندانی اقدار کی خلاف ورزی‘، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ بعض اوقات خواتین کو مقصد کے بغیر نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

مصر کے قانون کے مطابق جو بھی خاندانی اقدار یا نجی زندگی کی حرمت کی خلاف ورزی کرے یا بغیر اجازت کسی کی ذاتی تصاویر یا معلومات کو آن لائن شائع کرے، اسے کم از کم چھ ماہ قید اور 50 ہزار مصری پاؤنڈ (تقریباً 1200 امریکی ڈالر) جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

وکیل ابو القمسان کا مزید کہنا ہے کہ قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ بلیک میلنگ کے لیے تصاویر کا استعمال کرنا، چاہے عورت نے ان کلپس یا تصاویر کو پہلے رضامندی سے ریکارڈ یا شیئر کیا ہو، جرم ہے۔

یعنی سزا صرف مواد کے حصول کے طریقے پر نہیں بلکہ اسے دھمکی یا بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنے پر منحصر ہے۔ ایسی صورت میں سزا پانچ سال تک قید ہو سکتی ہے۔

تاہم نیشنل کونسل فار ہیومن رائٹس کی رکن کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ قانون کے متن میں نہیں بلکہ خواتین کی شکایت درج کروانے اور طویل قانونی کارروائی کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں ہے، جو اکثر ایک سال سے زیادہ لمبے عرصے تک چل سکتی ہے۔

اس دوران متاثرہ خاتون مسلسل ذہنی اور جذباتی دباؤ کا شکار رہتی ہے اور کئی بار یہ صورت حال انھیں مایوسی یا قانونی حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

کیمیکل کنٹرول اور سپائکنگ: ’میرے شوہر نے کئی سال تک نشہ آور ادویات دے کر میرا ریپ کیا‘’میری ویڈیو بنا کر مجھے مسلسل بلیک میل کیا گیا، اسی کے ڈر سے صلح کی تھی‘13 سال کی عمر سے لوگوں کو آن لائن بلیک میل کرنے والا لڑکا جو یورپ کا سب سے مطلوب ہیکر بناسیکس ٹارشن: ’خاتون نے کہا تین ہزار پاؤنڈ بھجوا دو ورنہ تمھاری زندگی تباہ کر دوں گی‘ڈیٹنگ ایپ، نقاب اور نائن ایم ایم پستول: برطانیہ میں پاکستانی خاندان نے بدلہ لینے کے لیے کیسے امریکی خاتون کی خدمات لیں
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More