ایک نوجوان خاتون کا کہنا ہے کہ یہ کہانی کسی ڈیٹ پر سنانے کے لیے دلچسپ ہے کہ کیسے اُن کے بازو پر موجود ایک ٹیٹو کینسر کے علاج اور ایک سرجری کے بعد زبان تک جا پہنچا۔
21 سالہ ہیریئٹ ٹریوہٹ کو اس سال کے آغاز میں یہ پتا چلا کے اُن کی زبان پر ایک تکلیف دہ السر کا زخم بن رہا ہے۔
ابتدا میں تو اداکاری کی تعلیم حاصل کرنے والی اس طالبہ کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید یہ زخم مرگی کے دورے کے دوران زبان کے دانتوں کے نیچے آجانے کی وجہ سے بنا ہے۔
تاہم ڈاکٹرز نے اُن کی زبان کے اس حصے کی بایوپسی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں سٹیج ٹو سکواومس سیل کارسنوما پایا۔ (سکواومس سیل کارسنوما جلد کے کینسر کی سب سے عام اقسام میں سے ایک ہے۔)
’نتائج چونکا دینے والے تھے‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹروں نے میری آدھی زبان ایک سرجری کے بعد کاٹ کر نکال دی اور پھر میرے بازو کی جلد اور بازو کی ہی خون کی نالیاں لے کر اس کی دوبارہ سرجری کی۔‘
’یہ سب ناقابلِ یقین اور انتہائی تکلیف دہ بھی تھا، جب میں نے یہ سب دیکھا تو میں بہت حیران بھی ہوئی اور بے ساختہ اپنی اس عجیب و غریب حالت پر ہنس بھی پڑی۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’جب میں نے اپنے بازو کی حالت دیکھی جہاں سے گوشت کا کُچھ حصہ لیا گیا تھا تو میں مزید ہنسنا بھول گئی۔‘
نارتھ یارکشائر کے نارتھ ایلرٹن سے تعلق رکھنے والی ہیریئٹ کہتی ہیں کہ بایوپسی کے ایک ماہ بعد آنے والے نتائج چونکا دینے والے تھے۔
خود کو سنبھالتے ہوئے انھوں نے میڈیکل ٹیم سے پوچھا کہ کیا وہ علاج شروع ہونے سے پہلے 10 دن انتظار کر سکتی ہیں تاکہ وہ ایل ایم اے ڈرامہ سکول میں اپنا ڈرامہ کورس مکمل کر سکیں اور سال دوبارہ نہ دہرانا پڑے۔
وہ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’خوش قسمتی سے انھوں نے مجھے ڈرامہ سکول میں اپنا تعلیمی سال مکمل کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ جمعرات 22 مئی کا دن تھا اور میرا پہلا آپریشن منگل 27 مئی کو تھا، لیکن ان دنوں کے دوران وہ کئی ٹیسٹ کر رہے تھے، ایم آر آئی، سی ٹی سکینز اور دیگر ٹیسٹ تاکہ یقین ہو جائے کہ میں اتنی دیر بے ہوش رکھنے کے قابل ہوں بھی کہ نہیں۔‘
سیمی کولن والا ٹیٹو بازو سے زبان پر کیسے پہنچا؟
ہیریئٹ نے یونیورسٹی کالج لندن ہسپتال میں چھ گھنٹے کا ایک آپریشن کروایا تاکہ ان کے منھ سے کینسر کو ختم کیا جا سکے اور اسے جڑ سے نکالا جا سکے۔ جس میں ان کی آدھی زبان کو کاٹ کر نکال دیا گیا اور اسی دوبارہ مکمل شکل دینے کے لیے اس کی جگہ ان کے بازو کی جلد کا وہ حصہکاٹ کر لگا دیا گیا کہ جس پر اُن کا ٹیٹو بنا ہوا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹرز نے بازو پر سے گوشت نکالنے کے بعد بس بازو کی جلد کو کھینچ کر اکٹھا کیا اور پھر اسے سی دیا۔‘
’میرے بازو پر میرا ایک چھوٹا سا سیمی کولن (;) والا ٹیٹو تھا اور جب ڈاکٹرز نے جلد اُتاری تو وہ بھی اُسی کے ساتھ میرے منّھ میں جا پہنچا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ بس مزاحیہ لگا۔ میں نے اس مشکل وقت کے دوران بہت مثبت رہنے کی کوشش کی کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے میں اس مُشکل کا مقابلہ کر سکتی ہوں اور بس اس ٹیٹو کے بازو سے منھ تک پہنچنے کے دلچسپ واقعے کے ساتھ میں اپنے آپ کو سنبھال سکتی ہوں اور بس اُس وقت لگا کہ یہی بہترین راستہ ہے۔‘
دو دن بعد سرجنز نے چیک اپ کے دوران یہ دیکھا کہ سرجری کامیاب نہیں ہوئی اور اس لیے ہیریئٹ کو دوبارہ علاج کے لیے لے جایا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری ایمرجنسی سرجری ہوئی کیونکہ خون کی نالیوں نے ٹھیک طرح سے جڑ نہیں پکڑی تھی۔‘
’تو انھیں دوبارہ جا کر اس حصے کی مرمت کرنی پڑی اور ساتھ ہی میرے لمف نوڈز کو بھی ٹھیک کرنا پڑا جو پہلی سرجری کے دوران متاثر ہوئے تھے۔‘
کینسر: ’میں کافی عرصے تک گھر سے باہر نہیں نکلی کیونکہ میں کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتی تھی‘پاکستان میں بلڈ کینسر کے علاج کی اہم دوا مریضوں کو کیوں نہیں مل پا رہی؟’اُس کی آنکھ اُبل کر باہر آ چکی تھی‘: ایک نادر بیماری کی کامیاب سرجری کی کہانینوجوانوں میں کینسر میں اضافہ: ’ہر چیز کو دیکھنے کا نظریہ بدل جاتا ہے، آپ زندگی کو سنجیدگی سے لینے لگتے ہیں‘
اس کے بعد انھیں دوبارہ بولنا اور نگلنا سیکھنا پڑا اور پھر مزید علاج کے طور پر پروٹون بیم تھراپی کرانی پڑی، جو ریڈیوتھراپی کی ایک قسم ہے جس میں ایکس ریز کے بجائے پروٹون استعمال کیے جاتے ہیں۔ جنھیں اس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے اور کمانڈ دی جاتی ہے کہ وہ بس عین رسولی کے اندر جا کر ٹھہر جائیں۔ ہیریئٹ یہ علاج مانچسٹر کے کرسٹی ہسپتال میں کروایا۔
’علاج بہت ہی اچھا، حیرت انگیز اور مؤثر تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے پاس ایک ماسک تھا جو میرے چہرے اور سینے کے مطابق ڈھالا گیا تھا، جو مجھے ہر بار پہننا پڑتا تھا اور اسے ایک تختے کے ساتھ جوڑ دیا جاتا تھا، پھر اس تھراپی کے دوران ایک مشین میرے گرد گھومتی تھی۔‘
ہیریئٹ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی گریجویشن کے لیے علاج میں تاخیر کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہ ڈگری مکمل کرنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج اور خواب تھا۔
’اگر آپ مجھے دیکھتے تو میں بالکل ٹھیک لگتی تھی، لیکن اندر سے میں شدید تکلیف میں مبتلا تھی اور بہت تھک چُکی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ مجھے بس آج کا دن گزارنا ہے، اپنے دوستوں سے ملنا ہے، تصاویر بنوانی ہیں اور ان کے ساتھ ہلا گُلا کرنا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ درد کو دیکھ نہیں سکتے، لیکن مجھے وہ درد اب بھی یاد ہے کیونکہ اُس وقت میرے لیے کھانا پینا بہت مشکل تھا اور میں بہت تکلیف میں تھی۔‘
اب ہیریئٹ گھر واپس آ گئی ہیں اور انھیں اُمید ہے کہ وہ آنے والے نئے سال یعنی 2026 میں ڈربی یونیورسٹی میں ڈرامہ تھیراپی میں ماسٹرز میں داخلہ لیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اب بہت بہتر محسوس کرتی ہوں۔ مجھے تھوڑی سی توتلاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ تھکن اب بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو مُجھے پریشان کر دیتا ہے۔‘
’لوگ یاد دلاتے ہیں کہ تمہاری سرجری کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، حالانکہ تمہیں لگتا ہے جیسے بہت زمانہ گزر گیا ہو۔‘
کینسر: ’میں کافی عرصے تک گھر سے باہر نہیں نکلی کیونکہ میں کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتی تھی‘پاکستان میں بلڈ کینسر کے علاج کی اہم دوا مریضوں کو کیوں نہیں مل پا رہی؟’اُس کی آنکھ اُبل کر باہر آ چکی تھی‘: ایک نادر بیماری کی کامیاب سرجری کی کہانینوجوانوں میں کینسر میں اضافہ: ’ہر چیز کو دیکھنے کا نظریہ بدل جاتا ہے، آپ زندگی کو سنجیدگی سے لینے لگتے ہیں‘آپ کے منھ میں موجود بیکٹیریا جو بڑی آنت کے کینسر سمیت تین دیگر بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے’کینسر کی نئی دوا کے تجربے سے مجھے نئی زندگی ملی‘: سر اور گردن کے کینسر میں مبتلا خاتون جنھیں زندہ بچنے کی امید نہیں تھی