امریکی قانون سازوں کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جوابدہ بنانے سے متعلق خط کیا امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 05, 2025

امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے 44 ارکانِ کانگریس نے امریکی وزیرِ خارجہ کے نام خط لکھ کر پاکستان میں ’انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بین الاقوامی جبر کی مہم‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ خط امریکی ایوان نمائندگان کی ارکان پرمیلا جے پال اور کریگ کاسر کی جانب سے لکھا گیا ہے جس میں اُن کے ساتھی 42 ارکان کانگریس کے دستخط بھی موجود ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب امریکی قانون سازوں نے پاکستان کی سیاسی صورتحال اور انسانی حقوق کے معاملے پر بات کی ہو۔ پاکستان کی فوج اور حکومت ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

جن ارکان کانگریس کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو خط لکھا گیا ہے، ان میں مسلمان ارکان کانگریس، الہان عمر اور راشدہ طلیب بھی شامل ہیں۔

Getty Imagesخط میں امریکی ایوان نمائندگان کی اراکین الہان عمر اور راشدہ طلیب کے دستخط بھی موجود ہیںعمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کا ذکر

خط میں پاکستان کی سول حکومت اور فوجی قیادت پر بھی تنقید کی گئی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’وزیرِ اعظم شہباز شریف کی فوجی حمایت یافتہ حکومت کے تحت پاکستان میں انسانی حقوق کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بولنے والوں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘

خط میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی فوجی قیادت کا احتساب کرے اور اُنھیں جوابدہ ٹھہرائے۔‘ خط میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سمیت فوجی قیادت پر ویزہ پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

خط میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی اور عدلیہ کی آزادی یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے جبکہ امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی اور گلوکار سلمان احمد کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔

پاکستان کی حکومت یا فوج کی جانب سے امریکی قانون سازوں کے اس خط پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں آیا۔ تاہم ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کو پاکستان کی فوج اور حکومت سختی سے رد کرتے رہے ہیں۔

’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟پاکستان کے امریکہ کے ساتھ معدنیات کے شعبے میں تعاون اور افغان سرحد پر جھڑپوں کے بارے میں چین نے کیا کہا؟پاکستان کے آرمی چیفس کے دلچسپ حقائق: وہ طیارہ حادثہ جس نے ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنا دیا

خط میں کہا گیا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بات کرنے والے امریکی شہریوں اور دیگر افراد کو دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جو پاکستانی شہری پناہ کے لیے امریکہ میں موجود ہیں، پاکستان میں اُن کے اہلخانہ کو ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔‘

خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ کارروائیاں آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی جبکہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے آرٹیکل 19 سے بھی متصادم ہیں، جس پر امریکہ اور پاکستان، دونوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی اور دیگر امور پر امریکہ اور پاکستان کی شراکت داری ہے۔ یہ معاملات امریکی قومی سلامتی کے مفادات کے لیے اہم ہیں، لہذا یہ شراکت داری باہمی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔‘

ویزہ پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کا مطالبہ

خط میں امریکی حکومت سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ ’ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف ٹارگٹڈ اقدامات کیے جائیں۔ ان کے ویزوں پر پابندی لگائی جائے اور اثاثے منجمد کیے جائیں۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ ورجینیا میں مقیم تحقیقاتی صحافی احمد نورانی، جو ’فوج میں بدعنوانی‘ سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے ہیں، انھیں مسلسل خطرے کا سامنا ہے، اس سال کے آغاز میں اُن کے بھائیوں کو اسلام آباد میں اُن کے گھر سے اغوا کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘

خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں پاکستانی صحافی احمد نورانی کے اہلخانہنے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد سے ان کے دو بھائیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

درخواست گزار کی جانب سے اس معاملے میں ان اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی اور نہ ہی تاحال اس بارے میں متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔

’بلز کا کبھی اثر نہیں ہوا، یہ تو صرف ایک خط ہے‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی قانون سازی کی جانب سے پاکستان کیصورتحال پر ماضی میں بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ معاملہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکا۔

امریکی ریاست ٹیکساس کی لیمار یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اور ان میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ افراد عرصہ دراز سے لابنگ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوعیت کے خط اور بل سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن امریکی حکومت اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دیتی۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران بھی اس کمیونٹی نے کھل کر اُن کی حمایت کی تھی۔

اویس سلیم کہتے ہیں کہ رواں برس جنوری میں پاکستان سے نان نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لینے کا بل امریکی کانگریس میں پیش کیا گیا تھا۔

اُن کے بقول اسی طرح رواں برس مارچ میں رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے 'پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ' کے عنوان سے ایک بل ایوان نمائندگان میں پیش کیا تھا۔

اُن کے بقول اس بل میں عمران خان کی رہائی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی پر زور دیتے ہوئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی امریکہ آمد پر پابندی کو بھی بِل کا ایک اہم حصہ بنایا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’وہ بل ایوان نمائندگان کے ریکارڈ تک ہی محدود ہے۔‘

اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’اسی طرح ستمبر میں اس نوعیت کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جسے دونوں جانب کے ارکان کی حمایت حاصل تھی۔‘

اُن کے بقول ’اس بل میں پاکستان کی سول اور فوجی شخصیات پر سفری پابندیوں، اثاثے منجمد کرنے سمیت دیگر اقدامات کی سفارشات کی گئی تھیں۔ لیکن اس پر بھی کچھ نہیں ہوا۔‘

ان 44 ڈیمو کریٹس ارکان کی جانب سے لکھے گئے اس خط کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اویس سلیم کا کہنا تھا کہ ’ایوان میں پیش کیے گئے بلز پر کوئی کارروائی نہیں ہوئِی تو یہ تو صرف ایک خط ہے۔‘

پروفیسر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’امریکی ایوان نمائندگان میں بل پیش کیے جانے کے بعد بحث ہوتی، یہ کمیٹیوں میں جاتا ہے، اس پر ووٹنگ ہوتی ہے اور پھر یہ صدر کو بھجوایا جاتا ہے۔‘

اُن کے بقول ’پاکستان سے متعلق جتنے بھی بلز یا قراردادیں پیش ہوتی رہی ہیں، یہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ایوان نمائندگان میں جوش و خروش نہیں ہے۔‘

Getty Images’وائٹ ہاؤس میں فیلڈ مارشل اور وزیر اعظم کی آؤ بھگت کے بعد کوئی کارروائی مشکل ہے‘

عالمی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ’رواں برس جس طرح فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف کی آؤ بھگت ہوئی، اس کے بعد امریکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں امریکہ کی سرکاری پالیسی تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں سیاسی حلقے اور انسانی حقوق کے کارکن پاکستان میں طرز حکومت سے متعلق آواز بلند کرتے رہے ہیں۔‘

اُنکےبقول ’امریکہ کی سرکاری پالیسی مختلف ہے اور وہ خطے اور مشرق وسطی سے متعلق معاملات میں پاکستان کو اہمیت دیتا ہے۔‘

امریکی رُکنِ کانگریس کا پاکستانی وفد سے شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ: ’میرا مقدمہ واپس لے لو، مجھے انصاف کی توقع نہیں‘مئی کی لڑائی میں ’پاکستان کی کامیابی‘ کا دعویٰ اور چین پر الزام: امریکی کمیشن کی رپورٹ جس کا چرچا انڈیا میں بھی ہو رہا ہے’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟پاکستان کے آرمی چیفس کے دلچسپ حقائق: وہ طیارہ حادثہ جس نے ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنا دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More