زہریلے مینڈکوں کا شکار کرنے والا سانپ موت کو چکما کیسے دیتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 01, 2025

وہ جاندار جو مہلک زہریلے مادے کھاتے ہیں، زندہ رہنے کے لیے نہایت ذہانت سے کام لیتے ہیں۔

کولمبین ایمیزون کے جنگلات سے لائے گئے 10 سانپوں کو کئی دن تک قید میں بغیر خوراک کے رکھا گیا۔ اس کے بعد انھیں تین انتہائی زہریلے مینڈک دیے گئے جن کا نام امیریگا ٹریویٹاٹا ہے۔

ان مینڈکوں کی رنگ برنگی جلد میں مہلک زہریلے مادے پائے جاتے ہیں، جیسے ہسٹریونیکوٹوکسنز، پیومیلیوٹوکسنز اور ڈیکاہائیڈروکوئنولین، جو خلیوں کے اہم پروٹینز میں مداخلت کرتے ہیں۔

چھ ’رائل گراؤنڈ سنیک‘ (جنھیں اریتھرولمپرس روجینو بھی کہا جاتا ہے) نے یہ مینڈک کھانے سے انکار کر دیا جبکہ باقی چار سانپ بہادری سے شکار پر جھپٹ پڑے۔

لیکن نگلنے سے پہلے ان سانپوں نے مینڈکوں کو زمین پر اس طرح رگڑا جیسے کچھ پرندے اپنے شکار سے زہریلے مادے نکالنے کے لیے کرتے ہیں۔ یہ تجربہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کی بائیولوجسٹ ویلیریا رامیرز کاسٹینیڈا اور ان کے ساتھیوں نے کیا۔

ان مینڈکوں کو کھانے کے بعد تین سانپ زندہ رہے مگر ایک مر گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے جسم زہریلے مادوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

زندہ مخلوقات لاکھوں سال سے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے مہلک مالیکیولز استعمال کر رہی ہیں۔ ابتدا میں مائیکروبز نے یہ کیمیکلز اپنے حریفوں کو ختم کرنے یا میزبان خلیات پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیے۔ بعد میں جانوروں نے شکار کو مارنے یا شکاریوں کو روکنے کے لیے، اور پودوں نے سبزی خور جانوروں سے بچاؤ کے لیے ایسا کیا۔

اس کے جواب میں کئی جانوروں نے ان زہریلے مادوں سے بچنے کے طریقے اپنائے، اور بعض اوقات انھیں مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ذخیرہ بھی کیا۔

سائنسدان اس ’اینٹی ٹاکسن‘ دفاعی نظام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انسانوں میں زہر کے اثرات کے بہتر علاج تلاش کیے جا سکیں۔

ارتقائی حیاتیات کی ماہر ربیکا ٹارون کا کہنا ہے: ’ہم ایک ایسی قوت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو خاموشی سے حیاتیاتی کمیونٹیز کی تشکیل میں مددگار رہی ہے۔ صرف ایک مرکب کے چند ملی گرام بھی پورے ماحولیاتی نظام کو بدل سکتا ہے۔‘

ربیکا ٹارون نے سانپوں کے اس تجربے کی نگرانی کی اور سنہ 2023 کے ’سالانہ جائزے برائے ماحولیاتیات، ارتقا اور نظامیات‘ میں ایسی حکمت عملیوں پر لکھا۔

مختلف انواع مختلف طریقوں سے زہریلی ہو جاتی ہیں۔ کچھ خود زہریلے مادے بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر بوفونڈ ٹوڈز ایسے مالیکیولز پیدا کرتے ہیں جنھیں کارڈیک گلائکوسائیڈز کہا جاتا ہے، جو سوڈیئم-پوٹاشیئم پمپ نامی پروٹین کو خلیوں میں آئنز کی ترسیل سے روکتے ہیں۔

یہ عمل خلیوں کے حجم کو برقرار رکھنے، پٹھوں کو حرکت دینے اور اعصابی سگنلز کی ترسیل کے لیے نہایت اہم ہے۔ کچھ جانور اپنے جسم میں زہریلا مادہ پیدا کرنے والے بیکٹیریا رکھتے ہیں، جیسے ’پفر فش‘ جن کا گوشت ٹیٹروڈوٹوکسین کی وجہ سے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

بہت سے جانور زہریلا مادہ خوراک کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً زہریلے مینڈک، جو زہریلے کیڑے اور مائٹس کھاتے ہیں، ان ہی مینڈکوں کو سانپوں کو کھلایا گیا تھا۔

سانپ، کھٹمل اور دیگر جاندار خود کو زہر سے کیسے بچاتے ہیں؟

چونکہ کچھ جانور زہریلے ہونے کے لیے ارتقا پذیر ہوئے، انھوں نے اپنے جسم کو زہر سے بچانے کے لیے دوبارہ ترتیب دیا۔ یہی بات ان مخلوقات پر بھی لاگو ہوتی ہے جو انھیں کھاتی ہیں یا جنھیں وہ کھاتے ہیں۔ ان موافقتوں میں سب سے نمایاں پروٹینز میں تبدیلی ہے، جو عام طور پر زہریلے مادوں سے غیر فعال ہو جاتے ہیں، لیکن اب مزاحم ہو گئے ہیں۔

مثال کے طور پر وہ کیڑے جو گلائکوسائیڈ سے بھرپور ’ملک ویڈ‘ کے پودوں پر رہتے اور کھاتے ہیں، ان کے پاس ایسے سوڈیئم-پوٹاشیئم پمپ ہوتے ہیں جن سے گلائکوسائیڈ جڑ نہیں سکتا۔

جرمنی کی ہیمبرگ یونیورسٹی کی مالیکیولر بایولوجسٹ سوزین ڈوبلر کہتی ہیں: ’ایک اہم مالیکیول کو تبدیل کرنا کسی مخلوق کے لیے پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔‘

اس پودے کے بیج کھانے والے ’ملک ویڈ‘ کھٹمل پر اپنی تحقیق میں وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ جتنا زیادہ سوڈیئم-پوٹاشیئم پمپ گلائکوسائیڈ مزاحم ہوتا ہے، اتنا ہی کم موثر ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر اعصابی خلیات میں ہوتا ہے، جہاں یہ پمپ نہایت اہم ہے۔

لیکن اس کھٹمل نے اس کا حل نکال لیا۔ سنہ 2023 کی ایک تحقیق میں ڈوبلر اور ان کے ساتھیوں نے اس مخلوق کے تیار کردہ پمپ کے تین مختلف ورژنز میں زہریلے مادوں کی مزاحمت کا مطالعہ کیا۔

انھیں معلوم ہوا کہ دماغ میں سب سے زیادہ فعال پمپ زہریلے مادے کے خلاف سب سے زیادہ حساس بھی ہوتا ہے۔ ڈوبلر کے مطابق، ملک ویڈ کھٹمل نے دماغ کو گلائکوسائیڈز سے بچانے کے دوسرے طریقے بھی اپنائے ہیں۔

ڈوبلر کو شبہ ہے کہ اس میں اے بی سی ڈی ٹرانسپورٹرز نامی پروٹینز شامل ہیں، جو سیل جھلیوں میں موجود رہتے ہیں اور فضلہ اور دیگر ناپسندیدہ مادوں کو خلیوں سے باہر نکالتے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ کچھ ہاک ماتھس (پتنگے) اپنے اعصابی ٹشوز کے ارد گرد انہی پروٹینز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ خلیوں سے کارڈیک گلائکوسائیڈز نکال سکیں۔ ممکن ہے کہ ملک ویڈ کھٹمل بھی یہی طریقہ اپنا رہا ہو۔

ڈوبلر اس مفروضے پر بھی تحقیق کر رہی ہیں کہ بہت سے کیڑوں کے آنتوں کی جھلیوں میں اے بی سی ڈی ٹرانسپورٹرز ہوتے ہیں، جو زہریلے مادوں کو جسم میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پیاز کی جڑیں کھانے والے کیڑوں پر بظاہر زہریلے مادوں کا اثر نہیں ہوتا اور وہ صرف انھیں خارج کر دیتے ہیں۔

ڈوبلر نے سنہ 2023 میں یہ بات سامنے لائی کہ اس سارے عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فضلہ شکاری چیونٹیوں کو دور رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

خشکی میں رہنے والے سانپوں کے لیے جگر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ’سیل کلچر‘ کے تجربات سے ربیکا ٹارون کی ٹیم کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ سانپ کے جگر کے عرق میں موجود کچھ عناصر زہریلے مینڈکوں کے مہلک مادوں سے بچاتے ہیں۔

ٹیم کا مفروضہ ہے کہ سانپوں میں ایسے انزائمز ہوتے ہیں جو مہلک مادوں کو غیر زہریلی شکل میں تبدیل کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے انسانی جسم الکوحل اور نیکوٹین کو توڑتا ہے۔ سانپ کے جگر میں ایسے پروٹین بھی ہو سکتے ہیں جو زہریلے مادوں سے چپک کر انھیں اپنے ہدف تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں، یعنی انھیں سپنج کی طرح جذب کر لیتے ہیں۔

سائنسدانوں نے کچھ زہریلے مینڈکوں کے خون میں ایسے ’زہریلے سپنج‘ پروٹینز دریافت کیے ہیں، جو انھیں اپنی خوراک سے حاصل ہونے والے مہلک سیکسیٹاکسین اور الکالوئڈ زہریلے مادوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

Getty Images

کیلیفورنیا میں پائی جانے والی گلہریاں بھی ایک خاص طریقہ استعمال کرتی ہیں تاکہ خود کو رٹل سنیک (سانپ کی ایک قسم) کے زہر سے بچا سکیں۔ یہ زہر درجنوں مہلک مادوں کا مرکب ہوتا ہے جو خون کی نالیوں کی دیواروں کو تباہ کرتا ہے، خون جمنے سے روکتا ہے اور جسم کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

گلہری کے خون میں ایسے پروٹین موجود ہوتے ہیں جو ان زہریلے مادوں کو روک دیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے رٹل سنیک کے اپنے جسم میں موجود پروٹین اس کے زہریلے غدود سے نکلنے والے زہر کو قابو میں رکھتے ہیں۔

زہر کی ترکیب سانپوں کی مختلف آبادیوں میں مختلف ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے ارتقائی بایولوجسٹ میتھیو ہولڈنگ کے مطابق، گلہریوں کا 'اینٹی وینم' یعنی زہر کے خلاف مرکب مقامی سانپوں کے مطابق تیار ہوتا ہے۔

لیکن یہ دفاعی نظام 'بلٹ پروف' نہیں ہے۔ ہولڈنگ کہتے ہیں: ’رٹل سنیک مسلسل نئے زہر تیار کر رہے ہیں تاکہ گلہریوں کی موافقت کو شکست دی جا سکے۔ اور اگر زہر کی مقدار زیادہ ہو تو رٹل سنیک بھی مر سکتا ہے۔‘

اسی لیے جانور، چاہے وہ مزاحم ہوں، پہلے دفاعی قدم کے طور پر زہریلے مادوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’انسانوں کے لیے غصہ‘ یا معلومات کی کمی: سانپ پکڑنے والے ہی اکثر اس کا شکار کیوں بنتے ہیں؟رسل وائپر: وہ خطرناک سانپ جس کا زہر انسانی اعضا کو ناکارہ کر دیتا ہےگھر کے صحن سے ملنے والے 100 سے زائد ’شرمیلے‘ سانپ جو انڈے نہیں بلکہ بچے دیتے ہیںسانپ کھانے والا ’کنگ کوبرا‘ جس کے بارے میں نئے راز افشا ہو رہے ہیں

اسی لیے سانپ مینڈکوں کو کھانے سے پہلے زمین پر گھسیٹتے ہیں، اور کچھ کچھوے صرف زہریلے نیوٹس کے پیٹ کی کھال اور اندرونی حصے کھاتے ہیں، مہلک پشت کی کھال نہیں کھاتے۔

یہاں تک کہ مونارک کیٹرپلرز جیسے کیڑے، جو کارڈیک گلائکوسائیڈز کے خلاف مزاحم ہوتے ہیں، 'ملک ویڈ' کے پودوں کی رگوں کو کاٹ کر زہریلا سیال نکال دیتے ہیں اس سے پہلے کہ وہ پودے کو کھائیں۔

زہریلے مادے استعمال کرنا

بہت سے جانور زہریلے کیمیکلز کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں اور انھیں اپنے دفاع کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹا زہرہلا کیڑا اپنے میزبان پودوں سے دل کے گلائکوسائیڈز حاصل کرتا ہے اور غالباً اے بی سی بی ٹرانسپورٹرز کے ذریعے انھیں اپنی پشت پر منتقل کرتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے۔

ڈوبلر کہتی ہیں: 'جب آپ ان زہریلے کیڑوں کو تنگ کرتے ہیں تو آپ ان کے ایلیٹرا، یعنی پشت کی سطح پر چھوٹے قطرے دیکھ سکتے ہیں۔' ان کے مطابق اس قسم کے زہر کے استعمال سے کچھ کیڑے اپنے میزبان پودوں پر زندہ رہنے کے لیے انحصار کرنے لگتے ہیں۔ 'مونارک تتلی' اور 'ملک ویڈ' کے پودے کے درمیان تعلق اس کی بہترین مثال ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے باہمی انحصار والے تعلقات کتنے طویل ہو سکتے ہیں۔

سنہ 2021 کی ایک تحقیق میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے ارتقائی بایولوجسٹ اور جینیاتی ماہر نوح وائٹ مین اور ان کے ساتھیوں نے چار جانوروں کی نشاندہی کی جو دل کے گلائکوسائیڈز کو برداشت کرنے کے لیے ارتقا پذیر ہو چکے ہیں، جس سے وہ مونارک پر خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔

ان میں سے ایک بلیک ہیڈڈ گروس بیک ہے، جو میکسیکو کے پہاڑی فر کے جنگلات میں مونارک پر شکار کرتا ہے، جہاں تتلیاں سردیاں گزارنے کے لیے جنوب کی طرف ہجرت کرتی ہیں۔

وائٹ مین کہتے ہیں: 'ایک زہر جو اونٹاریو کے ایک میدان میں ملک ویڈ کے پودے میں جمع ہوا تھا، اس نے ایک پرندے کی حیاتیات کو اس طرح تشکیل دیا کہ وہ ہزاروں میل دور جنگل میں محفوظ طریقے سے شکار کر سکے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ اس چھوٹے مالیکیول کا سفر اور اس کا ارتقا پر اثر۔'

سانپ پکڑنے کے ماہر کی لاپرواہی اور موت: ’کوبرا کا زہر آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے‘ایسا جزیرہ جہاں لاکھوں سانپ ’جو ملے کھا جاتے ہیں، حتیٰ کہ ایک دوسرے کو بھی‘سانپ کھانے والا ’کنگ کوبرا‘ جس کے بارے میں نئے راز افشا ہو رہے ہیںنو کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے نایاب ’کھوکھلے‘ انڈے جن کے لیے خصوصی آپریشن کیا گیا’انسانوں کے لیے غصہ‘ یا معلومات کی کمی: سانپ پکڑنے والے ہی اکثر اس کا شکار کیوں بنتے ہیں؟دنیا میں سانپوں کی دس خطرناک ترین اقسام: ’ان لینڈ پائیتھن کے منھ سے خارج ہونے والا زہر 100 لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More