ٹیولپ صدیق: شیخ حسینہ کی بھانجی جنھیں بنگلہ دیش میں ’پلاٹ حاصل کرنے‘ کے الزام پر دو سال قید کی سزا سنائی گئی

بی بی سی اردو  |  Dec 01, 2025

PA Mediaٹیولپ صدیق سنہ 2015 سے لیبر پارٹی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہو رہی ہیں

برطانیہ میں لیبر پارٹی کی رکن اور سابق وزیر ٹیولپ صدیق کو بنگلہ دیش میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں غیر حاضری کے باوجود انھیں اور دیگر 16 افراد کو بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا تھا۔

انھیں اس الزام میں قصوروار قرار دیا گیا کہ انھوں نے اپنی خالہ اور بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کر کے دارالحکومت ڈھاکہ کے نواح میں اپنی فیملی کے لیے پلاٹ حاصل کیا۔ لندن میں مقیم صدیق اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں کبھی یہ سزا نہیں کاٹیں گی۔

ہیمپسٹڈ اور ہائی گیٹ سے منتخب رکنِ پارلیمنٹ اب بھی بنگلہ دیش میں کئی زیر التوا مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں پراسیکیوٹرز نے سابق رہنما، ان کے ساتھیوں اور اہلِ خانہ کے خلاف کئی وسیع قانونی کارروائیاں شروع کی ہیں۔

صدیق سے متعلق مقدمہ اگست سے ڈھاکا میں چل رہا تھا۔ انھوں نے جنوری میں اپنی خالہ سے تعلقات پر تنازع کے باعث وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔

عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ صدیق نے 'اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنی خالہ اور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو متاثر کیا تاکہ اپنی والدہ ریحانہ صدیق، بہن عظمیٰ صدیق اور بھائی ردوان صدیق کے لیے زمین کا پلاٹ حاصل کر سکیں۔'

ذوالفقار علی بھٹو کا دورہِ بنگلہ دیش اور اثاثوں کی تقسیم کا تنازع: جب ڈھاکہ میں ’بھٹو ہمیں پاکستان لے چلیں‘ کے نعرے گونجے17 دسمبر 1971: جب ڈھاکہ سے شائع ہونے والے اخبارات نے اپنے ناموں سے ’پاکستان‘ کا لفظ ہٹایا

بنگلہ دیش کے اینٹی کرپشن کمیشن (اے سی سی) کے ایک پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ صدیق کو بنگلہ دیشی شہری کے طور پر اس لیے مقدمے میں شامل کیا گیا کیونکہ حکام نے ان کا بنگلہ دیشی پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ٹیکس نمبر حاصل کر لیا تھا۔

صدیق کے وکلا نے اس کی تردید کرتے ہوئے اخبار فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ان کے پاس 'کبھی شناختی کارڈ یا ووٹر آئی ڈی نہیں رہا' اور 'بچپن کے بعد سے پاسپورٹ نہیں رکھا۔'

جج ربیع الاسلام نے انھیں دو سال قید اور ایک لاکھ بنگلہ دیشی ٹکا (تقریباً 821 امریکی ڈالر) جرمانے کی سزا سنائی۔ اگر وہ ادائیگی میں ناکام رہیں تو مزید چھ ماہ سزا میں شامل کیے جائیں گے۔

مقدمے کے آغاز پر رکنِ پارلیمنٹ نے کہا تھا کہ پراسیکیوٹرز نے 'جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات پھیلائے ہیں جو میڈیا کو دیے گئے لیکن کبھی باضابطہ طور پر مجھے نہیں بتائے گئے۔'

ان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: 'میں ابتدا سے واضح رہی ہوں کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور میرے سامنے پیش کیے گئے کسی بھی قابلِ اعتبار ثبوت کا جواب دوں گی۔ سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے میرا نام خراب کرنا بے بنیاد اور نقصان دہ ہے۔'

فیصلہ سنائے جانے کے بعد انھوں نے عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

لیبر پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ پارٹی اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ ترجمان نے کہا کہ 'جیسا کہ رپورٹ کیا گیا ہے، معتبر سینئر قانونی ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ٹیولپ صدیق کو اس مقدمے میں منصفانہ قانونی عمل تک رسائی نہیں ملی اور انہیں کبھی الزامات کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔'

'یہ اس کے باوجود ہے کہ ان کی قانونی ٹیم نے بار بار بنگلہ دیشی حکام سے درخواستیں کی ہیں۔ کسی بھی الزام کا سامنا کرنے والے کو ہمیشہ قانونی نمائندگی کا حق دیا جانا چاہیے۔'

یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدیق کسی تحقیقات یا پارٹی کی تادیبی کارروائی کا سامنا نہیں کر رہیں اور وہ لیبر پارٹی کی رکنیت اور ہاؤس آف کامنز میں لیبر پارٹی کی حمایت برقرار رکھتی ہیں۔

گذشتہ ہفتے سینیئر وکلا کے ایک گروپ نے برطانیہ میں بنگلہ دیشی نمائندے کے ساتھ مقدمے کے طریقہ کار پر تشویش ظاہر کی۔

اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں سابق جسٹس سیکریٹری رابرٹ بکلینڈ، سابق اٹارنی جنرل ڈومینک گریو، اور لیڈی شیری بلئیر شامل تھیں، جو انسانی حقوق کی وکیل اور سابق وزیرِاعظم سر ٹونی بلئیر کی اہلیہ ہیں۔

گارڈین کے مطابق ایک خط میں انھوں نے کہا کہ صدیق مقدمے کے دوران مناسب قانونی نمائندگی حاصل نہیں کر سکیں، اور مزید کہا: 'ایسا عمل مقدمہ چلانے کا مصنوعی، من گھڑت اور غیر منصفانہ طریقہ ہے۔'

Getty Imagesجنوری میں برطانوی کابینہ کی رکن ٹیولپ صدیق نے بنگلہ دیش میں اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا برطانوی کابینہ سے استعفیٰ

جنوری میں برطانوی کابینہ کی رکن ٹیولپ صدیق نے بنگلہ دیش میں اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔

42 سالہ ٹیولپ صدیق برطانوی وزارت خزانہ میں اقتصادی وزیر تھیں اور وہ بنگلہ دیش میں گذشتہ برس عوامی احتجاج کے بعد حکومت چھوڑنے والی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی بھانجی ہیں۔

ٹیولپ صدیق پر الزام ہے کہ انھوں نے سنہ 2013 میں بنگلہ دیش اور روس کے درمیان ایک معاہدہ کروایا جس کے باعث بنگلہ دیش میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی کُل قیمت میں اضافہ ہوا۔

ٹیولپ صدیق کے قریبی ذرائع نے الزامات کو ’جھوٹا‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ’مکمل طور پر سیاسی‘ الزامات ہیں جن کا مقصد ان کی خالہ شیخ حسینہ واجد کو نقصان پہنچانا ہے۔

Getty Imagesرواں برس پُرتشدد مظاہروں کے دوران شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوئی تھی

ٹیولپ صدیق کا نام بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بدعنوانی کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آیا ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ان کا خاندان مبینہ طور پر تین اعشاریہ نو ارب پاؤنڈ کی خُورد بُرد میں ملوث ہے۔

برطانوی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران، ٹیولپ کا کام ملک کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے نمٹنا بھی تھا۔

بنگلہ دیشی نژاد وزیر کی جانب سے وزارت چھوڑنے کا فیصلہ بنگلہ دیش میں بدعنوانی کی ایک اور تحقیقات میں شامل کیے جانے کے بعد کیا گیا۔

ٹیولپ کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ ان کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔

ادھر برطانوی وزیر اعظم کے مشیروں سر لاؤری میگنس نے کہا ہے کہ انھیں 'بےضابطگیوں کے ثبوت' نہیں ملے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیولپ کو اپنی خالہ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اپنی ساکھ کو پہنچنے والے خطرے سے ہوشیار رہنا چاہیے تھا۔

آرمی چیف کے دفتر سے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوںبنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی: کیا وہ دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہی ہیں؟ٹیولپ صدیق کا خاندانی پسِ منظر

ٹیولپ صدیق سنہ 2015 سے لیبر پارٹی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہو رہی ہیں۔

ان کے نانا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے پہلے صدر تھے۔ 1975 میں جب ڈھاکہ میں فوجی بغاوت ہوئی تو مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد مارے گئے تاہم ٹیولپ کی والدہ ریحانہ اور ان کی بہن شیخ حسینہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئی تھیں۔

ان کی والدہ کو برطانیہ نے اس وقت سیاسی پناہ دی جب وہ بہت چھوٹی تھیں۔

ان کے والد ڈھاکہ میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور ان کی ٹیولپ کی والدہ سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جہاں انھوں نے شادی کرلی اور اپنے خاندان کو لندن منتقل کردیا۔

ٹیولپ صدیق کے مطابق ان کی پرورش بطور ایک مسلمان ہوئی تھی اور ان کے خاندان نے 'کثیرالثقافتی برطانیہ کو اپنا لیا۔'

بچپن میں انھوں نے نیلسن منڈیلا، بِل کلنٹن اور مدر ٹریسا سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور ان کے خاندان کو وائٹ ہاؤس بھی مدعو کیا گیا تھا۔

Getty Imagesبنگلہ دیش میں جاری تحقیقات بوبی حجاج کے الزامات کے بعد شروع ہوئی تھیں جو کہ شیخ حسینہ کے دیرینہ سیاسی مخالف ہیں

ٹیولپ صدیق نے 16 برس کی عمر میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سیاست میں متحرک ہونے سے قبل وہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، سیو دا چلڈرن اور دا گریٹ لندن اتھارٹی کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔

سنہ 2017 میں چینل 4 کے ایک انٹرویو کے دوران میزبان نے ٹیولپ صدیق سے پوچھا تھا کہ انھوں نے بنگلہ دیش میں کبھی اپنی خالہ کو چیلنج کیوں نہیں کیا جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔

اس بحث کے بعد پروگرام کے ایڈیٹر نے شکایت کی تھی کہ ٹیولپ صدیق کا رویہ ایک حاملہ پروڈیوسر کے ساتھ ’دھمکی آمیز‘ تھا، جس کے بعد ٹیولپ صدیق نے اپنے رویے پر معافی مانگ لی تھی۔

پاکستان، بنگلہ دیش تعلقات: شیخ حسینہ مخالف تحریک کو جنم دینے والی ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی تعلیم حاصل کر سکیں گےپاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری راستے سے تجارت کیسے بحال ہوئیکیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟کالعدم حزب التحریر جسے شیخ حسینہ کے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں منظر عام پر آنے کا موقع ملاشیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں خود کو ایک سرکاری رہائش گاہ کیسے دلائی تھی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More