نہرو پر پتھراؤ اور جناح کا استقبال، جب قبائل نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا

بی بی سی اردو  |  Dec 01, 2025

سترہ اپریل 1948 کو شمال مغربی سرحدی علاقوں کا پاکستان سے الحاق رسمی ہی تھا کیوںکہ حمایت کے آثار اس نئے ملک کے بننے سے پہلے ہی سامنے آنے لگے تھے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اگلے روز چھپنے والی خبر تھی کہ ’آج پشاور (تب شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بعد میں خیبر پختونخوا کا دارالحکومت) میں 200 سرداروں نے گورنر جنرل محمد علی جناح سے درخواست کی کہ وہ اُن کے قبائل کو براہِ راست پاکستانی حکومت کے زیرِ انتظام لے آئیں۔‘

یہ سردار ایسے قبائل کی نمائندگی کر رہے تھے جن کی آبادی 25 لاکھ تھی اور جن کا علاقہ جنوبی وزیرستان سے چترال تک لگ بھگ ایک ہزار میل (1600 کلو میٹر) تک پھیلا ہوا تھا۔

خبر کے مطابق انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ان کے لوگوں کو پاکستانی فوج میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے اور گورنر جنرل جناح کو یقین دلایا کہ وہ انڈیا کی فوج کو کشمیر سے نکال باہر کریں گے، چاہے پاکستان کی مدد ہو یا نہ ہو۔

’گورنرجنرل جناح نے ان کی درخواست پر غور کرنے کا وعدہ کیا اور مسلم اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔‘

یہ الحاق اب یقینی ہو چکا تھا۔

اپنی کتاب ’امپیریل فرنٹیئر‘ میں ڈاکٹر ہیوبیٹی لکھتے ہیں کہ سنہ 1946 میں صوبہ سرحد کی اسمبلی کے انتخابات فرنٹیئر کانگرس پارٹی نے جیتے تاہم جوں جوں یہ واضح ہوتا گیا کہ تقسیم ایک حقیقی امکان بن چکی ہے، سیاسی قوتوں میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

’پشتون، فرنٹیئر کانگرس پارٹی سے دور ہوتے گئے کیونکہ یہ پارٹی انڈین کانگرس اور اس کی اکثریتی ہندو قیادت سے جڑی ہوئی تھی اور زیادہ تر نے مسلم لیگ کی حمایت اختیار کر لی۔‘

’خاص طور پر قبائل کے طاقتور دھڑوں، بشمول بڑے ملِکوں نےاپنا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈالنا شروع کردیا۔‘

برطانوی ہندوستان کی عبوری حکومت میں وزیر خارجہ بننے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے صدر جواہر لعل نہرو نے اکتوبر 1946 میں قبائلی علاقوں کا دورہ کیا۔

نہرو کے قافلے پر کئی مقامات پر پتھراؤ کیا گیا۔ تب صوبہ سرحد کے گورنر سر اولف کیرو کو خدشہ تھا کہ بھاری حفاظتی انتظامات کے باوجود نہرو کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

سید عبد القدوس نے اپنی کتاب ’نارتھ ویسٹ فرنٹیئر آف پاکستان‘ میں کیرو کے لارڈ ویول کو لکھے خط کا حوالہ دیا ہے۔

کیرو نے لکھا ’ہم خوش قسمت ہیں کہ اس المیے سے بچ گئے۔ میں یہ انتباہ دہراتا ہوں کہ قبائلی امور کے انچارج نہرو یا کسی اور ہندو کی رہائش انتشار کو طول دے گی اور ممکنہ طور پر قبائلی بغاوتوں کا سبب بنے گی۔‘

وہ اپنی کتاب ’دی پٹھانز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نہرو اپنے حامیوں کو منظم کرنے پشاور آئے۔ یہ ایک جرات مندانہ کوشش تھی لیکن غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔ ناکام ہونا ہی تھا اور یہ اُن سب کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی جو غیر منقسم ہندوستان کے خواب دیکھ رہے تھے۔‘

’پٹھانوں کی اکثریت کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک ناممکن چیز کو ہوتا دیکھ رہے ہوں کہ ایک برہمن کی سرپرستی کو مان لیں، گویا کوئی نیابیربل، وہ بھی حد سے زیادہ مغرور۔‘

کیرو لکھتے ہیں کہ ’وہ اس کو نہ میدانی علاقوں میں قبول کرنے پر آمادہ تھے، نہ پہاڑوں میں۔‘

جناح کے دورے

محمد علی جناح نے 1945 اور 1948 میں ان علاقوں کا دورہ کیا۔

شیر عالم شنواری نے 13 اگست 2017 کے اپنے ایک مضمون ’قبائلی عوام اب بھی جناح کے پاکستان کی تلاش میں ہیں‘ میں لکھا ہے کہ نوے سال سے زیادہ عمر کے قبائلی عمائدین آج بھی بانی پاکستان محمد علی جناح کے تاریخی خیبر پاس کے دو اہم دوروں کو بخوبی یاد رکھتے ہیں، جن میں سے ایک دورہ اکتوبر 1945 اور دوسرا اپریل 1948 میں ہوا۔

90 سالہ ملک راج محمد خان المعروف راجون نے جناح کے پہلے دورے میں لنڈی کوتل کی یادیں سناتے ہوئے کہا کہ ’قوم کے رہنما کا پورے جوش و خروش کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ جب وہ اپنی گاڑی سے اترے تو لوگوں نے نعرے لگائے، قائداعظم زندہ باد۔‘

کیروئے لکھتے ہیں کہ اسلام کے پرچم بلند ہو گئے اور جناح کی راہ ہموار ہو گئی۔

ڈاکٹر ہیوبیٹی کے مطابق سرحد کے ساتھ ساتھ کشیدگی بڑھتی گئی، اور 1947 میں مسلم لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔

’کچھ پشتون رہنماؤں، خاص کر عبدالغفار خان، نے مطالبہ کیا کہ پشتونوں کو ایک آزاد پشتون ریاست ’پشتونستان‘ کے لیے ووٹ دینے کا حق دیا جائے، مگر جولائی 1947 میں صوبے کے مستقبل پر ہونے والے ریفرنڈم میں انھیں صرف دو آپشن دیے گئے، پاکستان یا انڈیا۔ نتیجے میں 99.02 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں آئے۔‘

اپریل 1948 میں جناح کا قبائلی جرگے سے خطاب

کیروئے لکھتے ہیں کہ 15 اگست 1947 کو ریفرنڈم کے بعد سرحدی صوبہ پورے جوش و خروش کے ساتھ پاکستان کا حصہ بن گیا۔

’اور اسی سال نومبر میں اس کی پیروی کرتے ہوئے تمام قبائل نے ڈیورنڈ لائن تک پاکستان سے الحاق کر لیا اور چار سرحدی ریاستوں یعنی دیر، سوات، چترال اور امب کے حکمرانوں نے بھی۔ ان میں سے قبائلی عمائدین نے کھلے جرگے میں اپنی وفاداری کا اظہار کیا، جبکہ ریاستوں کے حکمرانوں نے ’انسٹرومنٹس آف ایکسیشن‘ کے ذریعے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔‘

محمد علی جناح نے 17 اپریل 1948 کو پشاور میں قبائلی جرگے سے خطاب کیا۔

عابد مظہر کی تحقیق ہے کہ بانی پاکستان کا وژن قبائلی علاقوں کے انتظام کے لیے واضح اور شفاف تھا اور فلسفیانہ طور پر برطانوی سکیورٹی مرکوز سرحدی پالیسی سے مختلف تھا۔

’ان کا فاٹا کے لیے وژن دو بنیادوں پر قائم تھا، قبائلی عوام کی خود مختار نوعیت اور حیثیت کا احترام، ان کی قدروں، ثقافت، رسم و رواج اور روایات کو تسلیم کرنا اور انھیں تعلیم، معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے ذریعے خودمختار اور باعزت شہری بنانا تاکہ حکومت کے امدادی نظام کو تدریجی طور پر ختم کیا جا سکے۔‘

کرائسز گروپ ایشیا کی رپورٹ ’پاکستان ٹرائبل ایریاز‘ کے مطابق انیسویں صدی میں برطانیہ نے اس تزویراتی (سٹریٹیجک) سرحدی خطے کو وسطی ایشیا سے روسی توسیع کے خلاف ایک بفر کے طور پر اور افغانستان پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ شمال مغربی سرحد کے ساتھ واقع وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں سات نیم خودمختار ایجنسیاں یا انتظامی اضلاع تھے جن میں باجوڑ، خیبر، کرم، مہمند، اورکزئی، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان شامل تھے۔

اس میں پشاور، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع سے ملحقہ قبائلی علاقے بھی شامل تھے، جو اُس وقت کے صوبہ سرحد کا حصہ تھے۔

برطانوی ہندوستان میں وہ علاقہ جو پاکستان کا صوبہ سرحد بنا، ابتدا میں صوبہ پنجاب کا حصہ ہوتے ہوئے ایک چیف کمشنر کے تحت چلایا جاتا تھا۔

سرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر پہنچنے والے پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کو خالی ہاتھ واپس کیوں لوٹنا پڑا؟’پاپا ہمارے کتنے اور ان کے کتنے لوگ مارے گئے‘: فرقہ وارانہ لڑائی میں گھِرے کرم میں حکومت رٹ قائم کرنے میں ناکام کیوں؟’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزمجب قبائلی جنگجوؤں نے کشمیر پر دھاوا بولا

سنہ 1901 میں صوبہ سرحد کو ایک الگ صوبے کا درجہ دیا گیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، مستقل آباد علاقے (اضلاع) اور قبائلی علاقے (ایجنسیاں)۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی قبائلی پٹی کے بارے میں پالیسی رغبت، دباؤ اور مسلح مداخلت کے امتزاج پر مبنی تھی۔

کنٹرول قائم رکھنے کے لیے یہاں فوج تعینات کی لیکن ساتھ ہی قبائلی علاقوں کو نیم خود مختاری بھی دی جبکہ بدلے میں قبائل سے نوآبادیاتی اقتدار کی قبولیت کی توقع رکھی۔

’یہ خصوصی حیثیت مختلف معاہدوں میں درج تھی جن کے تحت ملِک (قبائلی عمائدین) پابند تھے کہ وہ تجارت اور تزویراتی مقاصد کے لیے سرحدی راستے کھلے رکھیں اور بدلے میں انھیں الاؤنسز اور سبسڈیز (مالی امداد) دی جاتی تھیں جو وہ اپنے قبائل میں تقسیم کرتے تھے۔‘

تین جون 1947 کے انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ نے یہ خصوصی معاہدے ختم کر دیے۔

'ہندوستان کے گورنر جنرل کے ماتحت، صوبہ سرحد کا گورنر دونوں علاقوں (مستقل آباد اور قبائلی) کے انتظام کی نگرانی کرتا تھا۔ پاکستان نے آزادی کے بعد یہی انتظامی ڈھانچا برقرار رکھا اور صوبہ سرحد کا گورنر فاٹا کا انتظام پہلے گورنر جنرل اور بعد میں صدرِ پاکستان کے نمائندے کے طور پر چلاتا رہا۔

’حکومت نے خطے کی نیم خود مختار حیثیت بھی برقرار رکھی اور گورنر جنرل نے براہِ راست انتظامی اختیار سنبھال لیا۔ نوآبادیاتی دور کے انتظامی اور قانونی ڈھانچے برقرار رکھے گئے جوفرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز 1901 کی صورت میں ضابطہ بند تھے۔‘

بیٹی لکھتے ہیں کہ ’نئی حکومت نے قبائلی علاقوں سے فوجیں واپس بلا لیں۔ قبائل کو ان کی آزادی برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی وہ بھی اس شرط پر کہ وہ وفاداری کا اعلان کریں اور بدلے میں اپنے وظائف جاری رکھ سکیں۔ 1947 کے خزاں میں کئی محسود اور وزیر قبائل نے کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا۔‘

’پاکستان زندہ باد‘ اور ’قائدِ اعظم زندہ باد‘ کے نعرے

دانشور اور مصنف اکبر ایس احمد لکھتے ہیں کہ قبائل نے بانی پاکستان کے اقدامات کا مثبت جواب دیا۔

’فاٹا کے باشندے پاکستان کے سب سے پُرجوش اور وفادار حمایتی بن گئے۔ مثال کے طور پر وہ کشمیر میں مقامی عوام کے ساتھ لڑائی میں شامل ہوئے۔ اس وقت پاکستان کے مشرقی سرحدوں پر حالات انتہائی نازک تھے اور اگر یہ قبائلی علاقے بغاوت پر اُتر آتے تو نئی ریاست کے لیے صورت حال ناقابل برداشت ہو جاتی۔‘

سنہ 1949 میں روزنامہ ڈان کے مطابق بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح نے 15روزہ قیام کے بعد پاڑہ چنار سے پشاور واپسی پر کہا کہ وہ قبائل کی پاکستان کے لیے ’بے پناہ محبت اور جذبے‘ سے بے حد متاثر ہوئیں۔

کوہاٹ پاس سے پاڑہ چنار تک پھیلے قبائلی علاقے کے اپنے دورے کے تاثرات میں فاطمہ جناح نے کہا کہ برطانوی دور میں مستقل آباد اضلاع اور قبائلی علاقہ کے درمیان قائم مصنوعی حد بندیاں اب ختم ہو چکی ہیں اور دونوں علاقوں کے لوگ اب آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اور پوری دل جمعی سے پاکستان کے استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کرّم ایجنسی میں ملنے والا پرتپاک استقبال کبھی نہیں بھول سکیں گی جہاں لوگ بچوں سمیت سڑک کنارے قطاروں میں ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور’پاکستان زندہ باد‘ اور ’قائدِ اعظم زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے جبکہ فضا میں بندوقوں کی فائرنگ کی گونج سنائی دے رہی تھی۔

افغانستان نے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ڈیورنڈ لائن کی سرحدی حیثیت پر اعتراضات کرنا شروع کر دیے تھے۔

اس کے جواب میں یکم جون 1950 کو کامن ویلتھ ریلیشنز کے لیے برطانیہ کے وزیرِ مملکت نوئل بیکر نے ہاؤس آف کامنز میں تقریر میں کہا کہ برطانیہ کی حکومت کو افسوس ہےکہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان شمال مغربی سرحدی علاقوں کی حیثیت کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

’برطانیہ کی حکومت کی رائے یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق پاکستان ان حقوق اور فرائض کا وارث ہے جو سابقہ حکومتِ ہند اور برطانیہ کی حکومت کو ان علاقوں میں حاصل تھے اور یہ کہ ڈیورنڈ لائن ہی بین الاقوامی سرحد ہے۔‘

1956 کے آئین میں ’خصوصی علاقے‘ قرار

اپنے ایک مضمون میں محمد علی باباخیل نے لکھا کہ آزادی کے بعد قبائلی علاقوں میں آئینی تبدیلیاں آئیں۔

’سنہ 1956 کے آئین میں انھیں ’خصوصی علاقے‘ قرار دیا اور 1962 کے آئین نے مرکزی اور صوبائی قوانین کی عمل داری کو محدود کر دیا، جو صرف صدارتی یا گورنری ہدایت کے تحت نافذ کیے جا سکتے تھے۔ اس استثناء نے علاقوں کی انتظامی اور قانونی علیحدگی برقرار رکھی۔

’1973 کے آئین نے 37,000 ملِکوں کو ووٹ کا حق دیا۔ عام قبائلی عوام کو انتخابی عمل سے خارج رکھا۔ 1997 میں عام بالغ ووٹ دہی متعارف کرائی گئی۔‘

’سنہ 2010 میں 18ویں ترمیم کے ذریعے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام بدل کر ’خیبر پختونخوا‘ کر دیا گیا۔‘

بابا خیل لکھتے ہیں کہ پچیسویں آئینی ترمیم سے پہلے فاٹا سات ایجنسیوں اور فرنٹیئر ریجنز میں تقسیم تھا جو انضمام کے بعد اضلاع میں دوبارہ منظم کیے گئے۔

’سنہ 2022 میں جنوبی وزیرستان کو مزید دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام 70 سال بعد استثنی سے شمولیت کی جانب ایک اہم اقدام ہے جو صوبے کے قومی سیاست میں کردار کو بڑھاتا ہے۔‘

’انضمام کے نتیجے میں قبائلی فورسز کو پولیس میں شامل کیا گیا اور عدالتیں قائم کی گئیں جس کا مقصد خیبر پختونخوا میں یکساں قانون نافذ کرنے اور عدالتی نظام کو مستحکم کرنا ہے۔‘

باباخیل کے مطابق تاہم صرف آئینی ترامیم اور قانونی فریم ورک انتظامی استحکام کے لیے ناکافی ہیں۔

’موثر حکمرانی کا انحصار آمدن، عوامی خدمات، اقتصادی ترقی اور امن کے درمیان ہم آہنگی پر ہے۔‘

سرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر پہنچنے والے پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کو خالی ہاتھ واپس کیوں لوٹنا پڑا؟لداخ: وہ علاقہ جس پر خلیفہ ہارون الرشید کی بھی نظر تھی’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزمجب قبائلی جنگجوؤں نے کشمیر پر دھاوا بولا’پاپا ہمارے کتنے اور ان کے کتنے لوگ مارے گئے‘: فرقہ وارانہ لڑائی میں گھِرے کرم میں حکومت رٹ قائم کرنے میں ناکام کیوں؟ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More