ریڈیو پر پروپیگنڈا مہمات، حکومتوں کی ’تبدیلی‘ اور چی گویرا کی گرفتاری سمیت سی آئی اے کی لاطینی امریکہ میں خفیہ کارروائیوں کی داستان

بی بی سی اردو  |  Oct 20, 2025

Getty Imagesورجینیا میں سی آئی اے کا ہیڈکوارٹر ان مراکز میں شامل ہے جہاں سے امریکہ نے لاطینی امریکہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی

’ہم ان فائلوں کی موجودگی کی نہتو تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ ہی تردید۔‘

یہ وہ جواب تھا جو امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) برسوں تک دیتی رہی جب اس سے لاطینی امریکہ میں اس کی ایک خفیہ آپریشن کے بارے یہ سوال پوچھا جاتا: سنہ 1954 میں گوئٹے مالا میں صدرجاکوبو آربینز کی حکومت کا تختہ پلٹنے میں اس کا کیا کردار تھا؟

کئی دہائیوں بعد سنہ 1997 میں سی آئی اے نے گوئٹے مالا میں اپنے آپریشنز سے متعلق کچھ دستاویزات کو صرف جزوی طور پر ڈی کلاسیفائی کیا تھا جنھیں بی پی فورچیون اور بی ایس فورچیون کہا جاتا ہے۔

مگر اب ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں اتنی رازداری نہیں برتی جا سکے گی۔

امریکی صدر نے اس بدھ یعنی 15 اکتوبر کو نیویارک ٹائمز کی جانب سے ابتدائی طور پر شائع ہونے والی معلومات کی تصدیق کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ انھوں نے سی آئی اے کو وینزویلا کے اندر خفیہ کارروائیاں کرنے کا اختیار دیا تھا۔

اس بیان کے منظرِ عام پر آنے سے اُس دور کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں کہ جب واشنگٹن نے خفیہ کارروائیوں کے ذریعے لاطینی امریکہ کی تقدیر کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔

سنہ 1947 میں اپنے قیام کے بعد سے امریکی قومی سلامتی سے متعلق دنیا بھر سے معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے علاوہ سی آئی اے نے دوسرے ممالک میں خفیہ کارروائیاں بھی کی ہیں، جنھوں نے تاریخ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

سرد جنگ کے دور میں سی آئی اے نے سوشل ازم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت محنت کی اور ایسے سیاسی نظام کے قیام کو ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں کیں جو اس وقت سابقہ ​​سوویت یونین میں قائم حکومت سے مماثلت رکھتا تھا۔

لاطینی امریکہ ان خطوں میں سے ایک تھا جہاں سی آئی اے کی سرگرمیاں سب سے زیادہ اور سب سے متنازع رہی ہیں۔

برازیل کے سینٹر فار اینالیسز اینڈ پلاننگ (سیبریپ) کے محقق انریک نتالینو نے بی بی سی نیوز برازیل کو بتایا کہ ’سرد جنگ کے دوران اس خطے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی مقصد کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔‘

سی آئی اے کی لاطینی امریکہ میں مداخلت کی تمام کوششوں کو تحریری شکل میں لانا ممکن نہیں، تاہم کچھ واقعات اب بھی دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔

عموماً امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات ایک مخصوص مدت کے بعد عوام کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔

اب یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ سی آئی اے نے کبھی سینٹر فار سپیشل ایکٹویٹیز کے تحت، کبھی تربیت فراہم کرکے اور کبھی تکنیکی مدد کے ذریعے مختلف سیاسی گروہوں اور غیر ملکی حکومتوں کو معاونت فراہم کی ہے۔

اس تحریر میں لاطینی امریکہ میں سی آئی اے کی چند نمایاں خفیہ کارروائیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

گوئٹے مالا1954Getty Imagesبائیں طرف سے دوسرے نمبر پر گوئٹے مالا کے صدر جکوبو آربینز سی آئی اے کی خفیہ کارروائی کا ہدف تھے

مئی سنہ 1997 میں سی آئی اے نے ایک رپورٹ جاری کی جو تقریباً 1400 صفحات پر مشتمل تھی اس میں جس منصوبے کا ذکر کیا گیا اُسے گوئٹے مالا کو غیر مستحکم کرنے کا نام دیا گیا۔

سنہ 1950 میں فوج اور بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت سے منتخب جاکوبو آربینز ایک ترقی پسند ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔

ان کے اصلاحاتی منصوبے کا مرکزی نکتہ زرعی اصلاحات تھا، جس کے تحت ان کے اور یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے درمیان تنازع کھڑا ہو گیا۔ انھوں نے غیر استعمال شدہ زمینیں ضبط کرنے اوراس کثیر الاقوامی کارپوریشن سے ٹیکس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ لاطینی امریکہ میں ٹروپیکل پھلوں یعنی ساحلی علاقوں میں پیدا ہونے والے پھلوں کی پیداوار اور فروخت سے وابستہ ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی تھی۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے دعویٰ کیا گیا کہ گوئٹے مالا میں سوویت اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے حالانکہ اُس وقت ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تک موجود نہیں تھے۔

امریکی صحافی ولیم بلم نے ’سی آئی اے: اے فارگوٹن ہسٹری‘ سمیت کئی کتابیں لکھی ہیں۔ اُن کے مطابق گوئٹے مالا میں امریکی مداخلت کی اصل وجہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کا دباؤ تھا جو آربینز کی زرعی اصلاحات سے شدید متاثر ہوئی تھی کیونکہ ان اصلاحات کے نتیجے میں ان کی زمین کا ایک حصہ ضبط کر لیا گیا تھا۔

ولیم بلم کے مطابق یہ آپریشن بعد میں لاطینی امریکہ میں دیگر خفیہ امریکی مداخلتوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ اس میں استعمال ہونے والے حربوں میں مقامی فوجی افسروں کو رشوت دینا، ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے حکومت مخالف مہمات اور سفارتی دباؤ اور اثر و رسوخ کا استعمال شامل تھا۔

مثال کے طور پر نام نہاد آپریشن شیرووڈ میں ’ریڈیو لیبریسیون‘ کی نشریات شامل تھیں، ایک ایسا سٹیشن جو خود کو ’خفیہ اور محبِ وطن‘ قرار دیتا تھا۔

دراصل یہ ریڈیو سٹیشن گوئٹے مالا کے باہر سے چلایا جاتا تھا اور اس پر جنوبی فلوریڈا میں ریکارڈ کیے گئے پروگرام بھی نشر ہوتے تھے۔

ان پروگراموں میںکمیونسٹ مخالف نظریات پر مبنی پروپیگنڈا کو موسیقی اور مزاح کے ساتھ ملا کر نشر کیا جاتا تھا۔

سی آئی اے کی دستاویزات کے مطابق آربینز کے قتل کے منصوبے اُس دن تک جاری رہے جب تک کہ اُنھوں نے استعفیٰ نہیں دے دیا اور جلاوطنی نہیں اختیار کرلی۔

خفیہ ریکارڈ کے مطابق گوئٹے مالا میں سی آئی اے کی کارروائیاں صدر ہیری ایس ٹرومین کے دور میں شروع ہوئی تھیں اور صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کے دور میں بھی جاری رہیں۔ نفسیاتی جنگ، سیاسی اقدامات اور تخریب کاری پر مبنی ان خفیہ کارروائیوں پر 27لاکھ امریکی ڈالر کا بجٹ خرچ کیا گیا تھا۔

کیوباGetty Imagesاپریل سنہ 1961 میں جنوب مغربی کیوبا میں 'بے آف پگز' پر حملے کی ناکام کوشش کی گئی

سی آئی اے نے سنہ 1959 کے انقلاب کے بعد سے کیوبا پر خصوصی توجہ دی ہے جب اس کیریبین جزیرے کو ایک سوشلسٹ ملک میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

مصنف بلم کے مطابق امریکی ایجنسی نے فیڈل کاسترو کی حکومت کو کامیاب ہونے سے روکنے کے لیے ’اپنے اختیار میں ہر ممکن کوشش‘ کی۔

الزامات کے مطابق سی آئی اے نے کیوبا کے لیے بھیجی جانے والی اشیا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اس پر عائد تجارتی پابندیوں کو منظم کیا گیا اور یہاں تک کہ مبینہ طور پر کاسترو اور دیگر اعلیٰ کیوبن حکام کے قتل کی سازشیں بھی تیار کیں۔

سب سے نمایاں اور علامتی واقعہ اپریل سنہ 1961 میں پیش آیا جب جنوب مغربی کیوبا میں ’بے آف پگز‘ پر حملے کی ناکام کوشش کی گئی۔

اُس وقت کیوبن جلاوطنوں پر مشتمل ایک نیم فوجی گروہ، جسے سی آئی اے نے تربیت دی اور اسے امریکی فوج کی حمایت حاصل تھی، نے کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے مقصد سے جزیرے پر حملہ کیا۔

امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی معلومات کے مطابق امریکی حکومت نے اکتوبر 1959 میں یعنی انقلاب کے صرف دس ماہ بعد کاسترو مخالف قوتوں کی مدد کے لیے ایک پروگرام کی منظوری دی۔

دسمبر میں انٹیلی جنس سروس کے ایک میمورنڈم میں باضابطہ طور پر یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ کاسترو نے جزیرے پر ایک انتہاپسند بائیں بازو کی آمریت قائم کر دی ہے۔

اگلے مہینے ہی سی آئی اے نے کیوبا میں حکومت کو گرانے کے مقصد سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ ان دستاویزات کے مطابق پیراملٹری تربیت مارچ 1960 میں باضابطہ طور پر شروع ہوئی جس میں 300 گوریلا جنگجو ایجنسی کی جانب سے منتخب کیے گئے اور اور انھیں تربیت دی گئی۔ اسی آپریشن کے لیے ہونڈوراس کے ساحل سے متصل ایک جزیرے پر ایک طاقتور ریڈیو سٹیشن قائم کیا گیا۔

ریکارڈ کے مطابق17 مارچ کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اعلیٰ قومی سلامتی کے حکام نے سی آئی اے کی پالیسی دستاویز 'کاسترو حکومت کے خلاف خفیہ کارروائیوں کے ایک پروگرام' کی منظوری دی۔

میمورنڈم کے مطابق سی آئی اے کے منصوبے میں چار بنیادی نکات شامل تھے:

جلاوطنوں پر مشتمل ایک معتدل اپوزیشن گروہ تشکیل دینا، جس کا نعرہ ہو گا کہ 'ہم اس انقلاب کو بحال کریں گے جسے کاسترو نے روکا دیا تھا۔'ایک میڈیم ویو فریکوینسی ریڈیو سٹیشن قائم کرنا جو کیوبا کے لیے خصوصی نشریات پیش کرے۔کیوبا کے اندر ایک خفیہ انٹیلی جنس اور ایکشن آرگنائزیشن بنانا جو جلاوطن اپوزیشن رہنماؤں کے احکامات پر عمل کرے۔کیوبا سے باہر ایک نیم فوجی دستے کی تربیت شروع کرنا اور دوسرے مرحلے میں کیوبا کے اندر مزاحمتی قوتوں کو منظم، تربیت یافتہ اور قیادت فراہم کرنے کے لیے کمانڈرز کی تیاری شامل تھا۔

کُل ملا کر سی آئی اے نے 1297 گوریلا جنگجوؤں کو تربیت دی جن میں سے زیادہ تر میامی میں مقیم کیوبن باشندے تھے۔

یہ آپریشن 15 سے 20 اپریل کے درمیان ہوا لیکن کیوبا کی مسلح افواج نے حملہ آوروں کو شکست دے دی۔

’کیوبا کو کاسترو سے آزاد‘ کرانے کی امریکی کوشش جو 72 گھنٹوں میں ناکام ہو گئیامریکہ کی مدد سے انقلابی جنگجو چی گویرا کو گرفتار کرنے والے فوجی جنرل گیری پراڈو چل بسے’فلائیٹ 49‘: وہ پانچ سال جب ہر دو ہفتوں میں امریکا کا ایک طیارہ ہائی جیک ہوتا تھاجب دنیا کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھنے والے چی گویرا پاکستان اور انڈیا آئے

اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور مؤرخ مائیکل گرو اپنی کتاب ’امریکی صدور اور لاطینی امریکی مداخلتیں‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس مداخلت کو مختلف انداز میں ایک ناکامی، ایک سانحہ، ایک ذلت آمیز شکست اور ایک مکمل تباہی‘ قرار دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق امریکی حکومت کو سی آئی اے نے یہ یقین دلایا تھا کہ یہ حملہ کامیاب ہوگا اور ’چند ہفتوں کے اندر‘ ایجنسی کے تربیت یافتہ کیوبن جلاوطن فیڈل کاسترو کو ہٹا دیں گے۔

مکینزی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو وِکٹر میسیاتو کے مطابق ’کیوبا کا معاملہ اس مداخلت کی سب سے ڈرامائی مثالوں میں سے ایک تھا، جسے بڑی حد تک سی آئی اے کی سرپرستی حاصل تھی اور شاید 20ویں صدی کی امریکی فوجی حکمتِ عملی کی سب سے بڑی غلطیوں یا ناکامیوں میں سے ایک۔‘

بولیویا اور چی گویرا کی موتGetty Imagesچی گویرا کی گرفتاری میں بھی سی آئی اے کا کردار تھا

ارجنٹائن کے مشہور گوریلا رہنما ارنستو ’چی گویرا‘ کی بولیویا میں گرفتاری اور اُس کے بعد اکتوبر سنہ1967 میں اُن کا قتل، لاطینی امریکہ میں سی آئی اے کی کارروائیوں کے سب سے زیادہ زیرِ بحث اور متنازع واقعات میں سے ایک ہے۔

سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایجنسی نے اس بولیوین بٹالین کے ساتھ تعاون کیا جس نے چی گویلارا کو گرفتار کیا اور قتل کیا۔ یہ سب اس خطے میں بائیں بازو کی انقلابی تحریکوں کی کامیابی کو روکنے کی امریکی کوششوں کا حصہ تھا۔

سنہ 1964 میں سی آئی اے نے صدر وکٹر پاز ایسٹنسورو کے خلاف فوجی بغاوت کو مالی امداد اور حمایت فراہم کی۔ ان ہی دستاویزات کے مطابق ایجنسی نے سابق دائیں بازو کے فوجی افسران رینی باریئنٹوس اورتوینو کو فنڈنگ فراہم کی جو سنہ 1964 سے سنہ 1965 اور پھر سنہ 1966 سے سنہ 1969 تک بولیویا کے صدور کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔

سی آئی اے کے ایجنٹ فیلکس روڈریگیز ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے چی گویرا کو گرفتار کیا اور ان کی موت سے قبل چند گھنٹوں قبل تک اپنی نگرانی میں رکھا۔

چی گویرا نے کیوبا چھوڑنے کے بعد دو سال تک خفیہ طور پر زندگی گزاری اور سی آئی اے کے تجزیہ کار کافی عرصے سے انھیں تلاش کرنے اور اُن کا سراغ لگانے میں لگے ہوئے تھے۔

دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن کو چی گویرا کی سرگرمیوں سے متعلق مسلسل بریفنگ دی جاتی تھی اور واشنگٹن حکومت کو تشویش تھی کہ ان کی سرگرمیاں علاقے میں بائیں بازو کی انقلابی تحریکوں کو متحرک کر سکتی ہیں۔

چی گویرا نے بولیویا میں جنرل رینی باریئنٹوس کی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان کا یہ گروپ درجن بھر جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔

یہ چھوٹی سی مزاحمتی تحریک بھی واشنگٹن کے لیے باعثِ تشویش بن گئی جس پر باریئنٹوس حکومت نے امریکہ سے فوجی مدد اور اسلحہ فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ ان باغیوں یا جنگجوؤں سے نمٹا جا سکے۔

دستاویزات میں صدر جانسن کو پیش کی جانے والی رپورٹس بھی شامل ہیں، جن میں چی گویرا کے آخری ایام اور موت کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

ان رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ سی آئی اے نے چی گویرا کی گرفتاری میں تعاون کیا مگر انھیں ہلاک کرنے کا فیصلہ بولیویا کی فوجی قیادت نے خود کیا، یہ وہ ایک حقیقت تھی کہ جس کی بعد میں فیلکس روڈریگیز اور دیگر ملوث افراد نے بھی تصدیق کی۔

چِلی اور یوراگوئےGetty Imagesصدر سلواڈور ایلینڈے فوجی بغاوت میں ہلاک ہوئے تھے

سی آئی اے کی مداخلت سے متعلق سب سے زیادہ معروف اور دستاویزی واقعات میں سے ایک وہ ہے جس میں خود کو مارکسسٹ قرار دینے والے صدر سلواڈور ایلینڈے فوجی بغاوت میں ہلاک ہوئے تھے۔

سنہ 1974 میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس واقعے میں امریکہ کی مداخلت کو بے نقاب کیا تھا۔

اخبار نے ایک آڈیو ریکارڈنگ کی نقل شائع کی جس میں اُس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر نے کہا تھا کہ 'مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ ایک ملک اپنے ہی عوام کی غیر ذمہ داری کے باعث کمیونسٹ بن جائے۔'

وِکٹر میسیاتو کے مطابق 'سب سے کامیاب مثال امریکہ کی چِلی میں مداخلت تھی جہاں ایلینڈے کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے لاجسٹک اور فوجی مدد فراہم کی گئی۔'

جرمنی کی ڈوئسبُرگ ایسَن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ پیس سٹڈیز سے وابستہ محقق لیوناردو باندارا نے کہا کہ 'عمومی طور پر سی آئی اے کہیں سے اچانک مداخلت نہیں کرتی بلکہ کسی ملک میں پہلے سے موجود تحریک کے بارے میں معلومات جمع کر کے اس کی پشت پناہی کرتی ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'جیسے برازیل میں ہوا، وہاں پہلے سے ہی ایک فوجی بغاوت کی تحریک موجود تھی۔ سی آئی اے نے اُسے مدد دی اور مضبوط کیا۔'

ناتالینو نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 'واشنگٹن کو اپنی ان کارروائیوں میں اُس وقت کامیابیاں حاصل ہوئیں کہ جب خفیہ ایجنسیوں نے ان ممالک کے اندرونی انتشار یا عناصر کے ساتھ مل کر کارروائیاں کیں۔'

رپورٹس کے مطابق سنہ 1970 سے سنہ 1973 کے درمیان سی آئی اے نے لاکھوں ڈالر ایلینڈے کی حکومت کو بدنام کرنے اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے پر خرچ کیے۔

یہی وہ اقدامات تھے جنھوں نے جنرل آگستو پنوشے کی فوجی بغاوت کا راستہ ہموار کیا، ایک آمرانہ حکومت جو تقریباً 17 سال (1973–1990) تک برقرار رہی۔

ان کے دور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔

Getty Imagesچلی کی فوجی حکومت کے لیے واشنگٹن کی حمایت کلیدی حیثیت رکھتی تھیایکواڈور اور پیرو

سکیورٹی فرم گری ڈائنامکس کی ڈولورس گارسیا کا کہنا ہے کہ ’سی آئی اے کی کارروائیوں نے لاطینی امریکی حکومتوں کے اعلیٰ ترین سطحوں، تقریباً ہر بڑی سیاسی تنظیم اور حتیٰ کہ نشانہ بنائے جانے والے گروہوں میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے عہدوں پر بھی اپنے ایجنٹس کی شمولیت کو یقینی بنایا۔‘

’اس سے سی آئی اے کو حساس معلومات تک رسائی حاصل ہوئی، جیسے کمیونسٹ پارٹی کے ورک پروگرام یا اندرونی اجلاسوں کی تفصیلات وغیرہ۔‘

بلوم کے مطابق سی آئی اے نے سنہ 1960 سے سنہ 1963 کے درمیان ایکواڈور کی حکومت میں دراندازی کی، نیوز ایجنسیاں اور ریڈیو سٹیشن قائم کیے اور قدامت پسند تنظیموں پر حملے منظم کیے جن کا الزام بعد میں بائیں بازو کے گوریلا گروہوں پر لگا دیا گیا۔

صحافی کے مطابق اس سب کا مقصدخوسے ماریا ویلاسکو کی سوشلسٹ حکومتِ کو غیر مستحکم کرنا تھا، جو بالآخر اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔

ان کے جانشین کارلوس خولیو اروسیمینا مونرائے نے اُس وقت فوجی بغاوت کا سامنا کیا جب انھوں نے امریکہ سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے اور کیوبا میں حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔

متعدد رپورٹس کے مطابق ایکواڈور کی فوجی حکومت کو سی آئی اے کی جانب سے ملنے والی تکنیکی مدد سے تقویت حاصل ہوئی۔

اسی دوران سی آئی اے نے پیرو کی فوج کو ہتھیار فراہم کیے اور اس کے اہلکاروں کو تربیت دی تاکہ وہ ملک میں بائیں بازو کی گوریلا تحریکوں سے لڑ سکیں۔

برازیل میں فوجی حکومت

کئی مورخین نے اس بات کا مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح امریکی حکومت نے اُس فوجی بغاوت کی حمایت کی جس نے برازیل میں آمریت قائم کی۔

ایسپاچو زائیٹ گائسٹ کے انٹرنیشنل پولیٹیکس کے پروفیسر رومیلو دیاس نے بی بی سی نیوز برازیل کو بتایا کہ 'سی آئی اے کی کمیون ازم کے پھیلاؤ کے خلاف لڑائی کھلے عام نہیں تھی بلکہ 'خفیہ کارروائیوں، تخریب کاری، نفسیاتی مہمات اور مسلح گروہوں کی حمایت پر مبنی تھی۔'

دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی آئی اے نے سنہ 1961 میں ژواو گولارٹ کے صدر بننے کے بعد برازیلی سیاست پر زیادہ قریب سے نظر رکھنا شروع کی۔

امریکہ ان کی اصلاحاتی پالیسیوں سے پریشان تھے، جن میں غیر ملکی کمپنیوں کے منافع پر حد مقرر کرنا اور اداروں کی نیشنلائزیشن شامل تھی۔ گولارٹ نے کیوبا سے سفارتی تعلقات توڑنے سے بھی انکار کیا تھا۔

سی آئی اے نے ان اراکینِ پارلیمنٹ کی انتخابی مہمات کی مالی مدد کی جو گولارٹ حکومت کے مخالف تھے اور ایسی پروپیگنڈا مہمات چلائیں جن سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔

اس کے علاوہ شواہد موجود ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی نے امریکی کاروباری افراد کی مالی امداد کو 'برازیلین انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریٹک ایکشن' تک پہنچانے میں کردار ادا کیا جو سنہ 1959 سے سنہ 1963 تک ایک اینٹی کمیونسٹ تنظیم کے طور پر سرگرم تھی۔

ڈومینیکن ریپبلکGetty Imagesدستاویز کے مطابق سی آئی اے نے ڈومینیکن ریپبلک کی حکومت کو 'تبدیل کرنے' کے لیے کارروائی کی

ایک خفیہ سی آئی اے میمو کے مطابق سنہ 1973 کی ایک تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ایجنسی کے ڈومینیکن ریپبلک کے آمر رافائل تروہیلو مولینا کے قتل سے منسلک سازش کرنے والوں کے ساتھ ’وسیع‘ اور بڑے پیمانے پر تعلقات سامنے آئےجو ملک پر 31 سال تک حکمران رہے۔

اس دستاویز کے مطابق سی آئی اے نے ڈومینیکن ریپبلک کی حکومت کو ’تبدیل کرنے‘ کے لیے کارروائی کی۔

سنہ 1963 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر خوان ایمیلیو بوش گاوینو نے زرعی اصلاحات، سستی رہائش، غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندیوں اور بزنس نیشنلائزیشن کی حمایت کی۔

بلوم کے مطابق اقتدار میں صرف ایک سال کے بعد انھیں سی آئی اے کی مدد سے معزول کر دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق امریکی خفیہ ادارے نے بوش حکومت کو غیر قانونی ثابت کرنے کے لیے پروپیگنڈا مہمات میں بھی خوب پیسہ لگایا۔

گارشیا کے مطابق ’سی آئی اے نے انسدادِ کمیون ازم کے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مہمات چلائیں جن میں مختلف ذرائع استعمال کیے گئے جن میں اخبارات، ریڈیو، فلمیں، کتابچے، پوسٹر، پمفلٹ اور وال چاکنگ وغیرہ سب کُچھ شامل تھا۔‘

’ان میں خوف پھیلانے والی مہمات بھی شامل تھیں خاص طور پر عورتوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے سوویت ٹینکوں اور فائرنگ سکواڈ کی تصاویر استعمال کی گئیں۔‘

تجزیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے نے ’اپنی نیوز ایجنسیوں یا ریڈیو سٹیشنوں کے ذریعے بھی پروپیگنڈا پھیلایا۔‘

ماہرین کے مطابق ’ان مہمات کے دوران بعض اوقات جھوٹی یا گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی تھیں تاکہ پسندیدہ امیدواروں کے سیاسی مخالفین کو بدنام کیا جا سکے یا امریکہ کے حمایت یافتہ گروہوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کم کر کے دکھایا جا سکے۔‘

امریکہ کی مدد سے انقلابی جنگجو چی گویرا کو گرفتار کرنے والے فوجی جنرل گیری پراڈو چل بسے’فلائیٹ 49‘: وہ پانچ سال جب ہر دو ہفتوں میں امریکا کا ایک طیارہ ہائی جیک ہوتا تھاجب دنیا کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھنے والے چی گویرا پاکستان اور انڈیا آئے’کیوبا کو کاسترو سے آزاد‘ کرانے کی امریکی کوشش جو 72 گھنٹوں میں ناکام ہو گئی’کیوبا کی ملکہ‘: 16 برس تک امریکہ کی انتہائی حساس معلومات کیوبا پہنچانے والی جاسوس خاتون کی ناقابل یقین کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More