یوسف پٹھان کی چند تصویروں سے شروع ہونے والی بحث: ادینا مسجد یا آدیناتھ مندر؟

بی بی سی اردو  |  Oct 19, 2025

غالب کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا

بلبلیں سن کر میرے نالے غزل خواں ہو گئیں

آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ شعر کیوں اور کس سیاق و سباق میں پیش کیا جا رہا ہے۔ تو بات در اصل یہ ہے کہ انڈیا کے معروف کرکٹر اور مغربی بنگال میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس سے موجودہ رکن پارلیمان یوسف پٹھان نے مالدہ ضلع کی ایک مسجد سے اپنی چند تصویریں کیا پوسٹ کر دیں کہ اس پر سوشل میڈیا میں گرما گرم مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔

اور یہ مباحثہ انڈیا کا پسندیدہ ہندو-مسلم مباحثہ ہے۔ لیکن پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین انھیں ان کے بھائی عرفان پٹھان کے لیے ٹرول کرتے نظر آ رہے ہیں۔

یوسف پٹھان نے 16 اکتوبر یعنی آج سے تین روز قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر 14ویں صدی کی تعمیر کردہ مسجد کے صحن اور لان سے اپنی چار تصویریں پوسٹ کیں اور اس کے ساتھ انھوں مسجد کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا۔

انھوں نے لکھا: ’مغربی بنگال کے مالدہ (ضلع) میں واقع ادینا مسجد ایک تاریخی مسجد ہے جو 14ویں صدی میں الیاس شاہی خاندان کے دوسرے حکمران سلطان سکندر شاہ نے بنوائی تھی۔ یہ 1373-1375 عیسوی میں تعمیر کی گئی، اور اپنے وقت میں برصغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی مسجد تھی، جو خطے کی تعمیراتی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔‘

اس ٹویٹ کے جواب میں مغربی بنگال کے بی جے پی کے ایکس ہینڈل سے جواب دیا گیا کہ اسے درست کر لیں، یہ ’آدیناتھ مندر‘ ہے۔

اس جواب کے بعد سوشل میڈیا پر مسجد - مندر سے متعلق گرما گرم مباحثہ نظر آیا اور پھر سے متنازع تعمیرات کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

بعض صارفین نے ایلون مسک کے مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم گروک سے اس بابت پوچھا کہ کیا یہ مسجد ہے یا مندر؟ اور کیا یوسف پٹھان سچ بتا رہے ہیں؟

گروک نے کیا کہا ؟

گروک نے یوسف پٹھان کے بیان کی تصدیق کی ہے۔

بعض ایکس اکاؤنٹس نے مبینہ طور پر مسجد کی دیواروں کی تصاویر شیئر کیں جن پر مجسمے تراشے نظر آتے ہیں۔ اور ان تصاویر کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک ہندو مندر تھا جو ’مسلمحملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔‘

جب ایک صارف نے گروک سے اس دعوے کی تصدیق کرنے کے لیے کہا، تو مصنوعی ذہانت والے گروک چیٹ بوٹ نے لکھا: ’یہ وہ ادینا مسجد ہے، جسے سلطان سکندر شاہ نے 1373 عیسوی میں برصغیر کی سب سے بڑی مسجد کے طور پر بنایا تھا، جس میں فارسی اور مقامی بنگالی طرز کے ٹیراکوٹا کے نقشوں ہم آہنگ نظر آتے ہیں جو کہ ہاتھیوں اور رقاصوں کےنقش و نگار میں واضح ہے لیکن تاریخی ریکارڈ اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) اس کی درجہ بندی ایک نئے تعمیر شدہ اسلامی ڈھانچے کے طور پر کرتے ہیں۔‘

اس نے مزید لکھا کہ ’اس کے ایک تبدیل شدہ آدیناتھ مندر ہونے کے دعوے کے براہ راست شواہد نہیں ہیں۔‘

بی بی سی نے اس بابت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عہد وسطی کی تاریخ کے پروفیسر سید علی ندیم رضوی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ یہ کوئی متنازعہ ڈھانچہ نہیں بلکہ مغربی بنگال کی معروف جامع مسجد ہے۔

ان کے مطابق یہ اپنے زمانے کی جنوب ایشیا کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ بہر حال بعد میں اس سے بڑی اور پرشکوہ مساجد سامنے آئيں۔ لیکن یہ اپنے فن تعمیر کے لحاظ سے آج بھی ممتاز ہے۔

مورخ نیسم احمد بنرجی نے اس مسجد اور اس کے طرز تعمیر کے حوالے سے ایک تحقیق کی ہے جو کہ سنہ 2002 میں منظر عام پر آئی اور اس میں انھوں نے اس مسجد کو اپنے وقت کی جنوب ایشیا کی سب سے بڑی مسجد قرار دیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’اس کے طول و عرض اور اس کے قدامت پسند منصوبے کے علاوہ، اس کی تعمیراتی خصوصیات سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں اور اس کا سبب اس کی مشترکہ بدھ، ہندو اور اسلامی آرائشی خصوصیات ہیں۔ اس کی خطاطی، اور ’ایک طاق کے اندر چراغ‘ کے نقش کی موجودگی اس کے مظہر ہیں۔‘

پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا کہ بڑے شہروں کے بجائے دیہی علاقے میں اس طرح کی بڑی مسجد وہاں کی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر بنائی گئی تھی اور تعمیر میں مقامی آبادی کے عقیدوں کا خیال رکھا گيا تھا۔

یہ صوفیوں کی تعلیمات کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔

’جب تاج محل پر دعوی کر سکتے ہیں تو پھر اور کیا رہ جاتا ہے‘

بی بی سی نے پروفیسر علی ندیم رضوی سے بی جے پی کے دعوے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ مسجد کبھی متنازع نہیں رہی ہے اور بعد میں اگر کسی نے اس پر قبضہ کیا ہے اور اسے بدلنے کی کوشش کی ہے تو اس سے اس کی بنیادی اہمیت ختم نہیں ہوتی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’آج کل تو تاج محل پر بھی مندر ہونے کے دعوے ہونے لگے ہیں تو پیچطے کیا رہ جاتا ہے۔‘

بی بی سی نے اس حوالے سے علی گڑھ کے تاريخ کے پروفیسر سجاد سے پوچھا تو انھوں نے کہا اس طرح کا کوئی تنازع ان کی نظر سے نہیں گزرا ہے اور یہ کہ ’آج کل ہندتوا والے کسی بھی چیز کے بارے میں اپنا بیانیہ تیار کرنے پر کمربستہ ہیں تو پھر اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے۔‘

بہرحال این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال ہندو پجاریوں کے ایک گروپ نے مسجد کے اندر پوجا پاٹ کا انعقاد کیا۔ پجاریوں میں سے ایک ورنداون میں وشوا ودیا ٹرسٹ کے صدر ہیرنموئے گوسوامی نے وہاں ہندو دیوتاؤں کی تصاویر دیکھیں تو دعویٰ کیا کہ مسجد ایک ہندو مندر پر بنائی گئی تھی۔

گوسوامی نے دیگر پجاریوں کے ساتھ مل کر پوجا پاٹ کا انعقاد کیا۔ تاہم مقامی لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی تو انھیں روک دیا گیا۔ بعد میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے گوسوامی کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔

اس واقعہ کے بعد اسے قومی اہمیت کی یادگار قرار دیا گيا اور مسجد کو بند کردیا گیا۔ جگہ جگہ سی سی ٹی وی نصب کیے گئے اور ایک پولیس چوکی بھی قائم کی گئی۔

AFPتاج محل پر بھی ہندو مندر کو توڑ کر تعمیر کا دعویٰ کیا جاتا ہےادینا جامع مسجد کا طرز تعمیر

اس مسجد کے تعمیر کی خاص بات اس میں مقامی بنگالی، عربی، فارسی اور بازنطینی طرز تعمیر کا اختلاط ہے۔ بنگال سلطنت کے دارالحکومت پنڈوا میں اسے تعمیر کرایا گیا تھا۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اسے بنگال سلطنت کی جانب سے دہلی سلطنت کو دو بار شکست دینے کے جشن کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

اس کا وسیع طرز تعمیر دمشق کے اموی دور سے مشابہت رکھتا ہے اور اس نے اسلام کی نئے خطے میں نمائندگی کی ہے۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا کیا کہنا ہے؟

کولکتہ میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی سرکاری ویب سائٹ میں اس بات کا ذکر ہرگز نہیں ہے کہ آیا مسجد کسی مندر کی بے حرمتی کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا ہے: ’یہ بہت بڑی مسجد سکندر شاہ (1390-1358) کی طرف سے 1369 میں تعمیر اور مکمل کی گئی تھی، جو اس دور کے مسلم فن تعمیر کی سب سے قابل ذکر موجودہ مثال ہے۔‘

اور پھر وہاں اس مسجد کے طول عرض کا ذکر موجود ہے۔

سوشل میڈیا پر تبصرے

پلان ايچ نمی ایک ایکس صارف نے لکھا کہ ’یوسف پٹھان آپ جس جگہ کھڑے ہیں وہ آدی ناتھ مندر ہے جسے مسلم حملہ آوروں نے تباہ و برباد کیا۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے شواہد کے طور پر چند تصاویر شیئر کیں۔

حسیب شاہد نامی ایک صارف نے طنزا محمد علی جناح کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: انڈیا میں 25 کروڑ مسلمانوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری (یا تیسرے) کی ہو گئی ہے۔ ان کے سب سے بڑے کرکٹ سٹار کی مسجد سے شئیر کی جانے والی بے ضرر پوسٹ پر جس طرح سے نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے ان کی حیثیت واضع ہے۔ تبصروں میں بہت زیادہ نفرت ہے۔ شکریہ محمد علی جناح۔‘

صدام شاہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’محمد علی جناح صد فیصد درست تھے جب انھوں نے کہا کہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمان تا حیات اپنی وفاداری ثابت کرتے رہ جائيں گے۔‘

گیان واپی مسجد کا تنازع انڈیا میں نئے مذہبی تنازعے کا آغاز ہو سکتا ہےقطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہےسنبھل کی مسجد کے نیچے مندر کا دعویٰ: ’کہیں یہ ہماری 500 برس پرانی جامع مسجد پر قبضہ تو نہیں کر رہے‘انڈیا کی ’200 برس پرانی‘ مسجد جس میں ہندو اذان دیتے ہیں: ’میں نے سوچا یہ اللہ کا گھر ہے اسے آباد رہنا چاہیے‘’انڈیا اب مسلمانوں کی تعمیرات کو ورثہ نہیں سمجھتا‘: نئی دہلی میں ایک اور تاریخی مسجد منہدم کر دی گئیبابری مسجد کی جگہ بننے والے رام مندر کا افتتاح: ’اس طرح کے واقعے کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More