خواتین اور شراب کا شوق، کامیابی کی خواہش اور پاکستان سے آنے والا مہاجر: گاندھی کے قتل میں ملوث لوگ کون تھے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 18, 2025

Getty Images

مہاتما گاندھی کو 30 جنوری 1948 کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جب ہم گاندھی کے قتل کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلا نام جو ذہن میں آتا ہے وہ ہے ناتھورام گوڈسے۔

ناتھورام گوڈسے نے خود عدالت میں اعتراف کیا کہ وہ اس قتل کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں تاہم گاندھی قتل کیس میں کل نو لوگوں پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

ان کے نام نارائن دتاترے آپٹے، ناتھورام ونائک گوڈسے، وشنو رام چندر کرکرے، ونائک دامودر ساورکر، دگمبر رامچندر بیگ، شنکر کسدایا، مدن لال کشمیر لال پاہوا، گوپال ونائک گوڈسے اور ڈاکٹر دتاترے سداشیو پرچورے تھے۔

ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مہاتما گاندھی کے قتل کی منصوبہ بندی کس نے کی؟ اس قتل میں شامل لوگوں کا پس منظر کیا تھا؟ وہ ایک دوسرے سے کیسے ملے؟

Getty Imagesنارائن آپٹے ان دو افراد میں سے ایک تھے جنھیں گاندھی کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی1:نارائن آپٹے

نارائن آپٹے ان دو افراد میں سے ایک تھے جنھیں گاندھی کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ گوڈسے کی طرح وہ بھی ایک اہم شخصیت تھے۔

دراصل، آپٹے نے گاندھی کے قتل تک اس گروہ کی تمام کوششوں کی قیادت کی تاہم 20 جنوری کو گاندھی کے قتل کی کوشش ناکام ہو گئی۔

مہاتما گاندھی کے پڑپوتے اور نارائن آپٹے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والی کتاب ’لیٹس کِل گاندھی‘ کے مصنف تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ’نارائن آپٹے اس دور میں اس گینگ کا لیڈر تھا۔ گاندھی پر آخری حملہ کرنے والا ناتھورام گوڈسے اس گینگ کا وفادار رکن تھا۔ ان دونوں کے آپس میں گہرے تعلقات تھے۔‘

احمد نگر میں رہتے ہوئے نارائن نے ایک شوٹنگ کلب قائم کیا۔ 1939 میں انھوں نے ہندو مہاسبھا کی احمد نگر شاخ میں شمولیت اختیار کی۔ اسی دوران ان کی ملاقات ناتھورام گوڈسے سے ہوئی۔

تشار گاندھی نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ ’نارائن آپٹے بہت پر اعتماد تھے۔ وہ خواتین اور شراب کی طرف بہت راغب تھے۔ برہمنوں کے برعکس، وہ سگریٹ نوشی کرتے تھے، شراب پیتے تھے اور یہاں تک کہ گوشت بھی کھاتے تھے۔‘

نارائن آپٹے کو گاندھی کے قتل کا قصوروار ٹھہرایا گیا اور انھیں موت کی سزا سنائی گئی۔

Courtesy: Nana Godseگاندھی قتل کی عدالت میں سماعت 2: وشنو رام چندر کرکرے

وشنو رام چندر کرکرے ایک ہوٹل کے مالک والے تھے اور ہندو مہاسبھا کی احمد نگر شاخ کے صدر تھے۔

وشنو کرکرے، جنھوں نے چھوٹی عمر میں اپنے والد کو کھو دیا، ممبئی کے ایک یتیم خانے میں پلے بڑھے۔

تشار گاندھی نے ان کے بارے میں کہا کہ ’ایک شخص جو سڑکوں پر ایک بے بس بچے کے طور پر بڑا ہوا، اس کے اندر اپنی زندگی سے سخت نفرت پیدا ہوئی ہو گی۔ جوانی میں معاشرے نے اس کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا ہوگا۔ وہ بعد میں ایک تلخ انسان بن گیا۔ اس کے غصے کا اصل نشانہ مسلمان تھے۔‘

بعد میں کرکرے احمد نگر میں ایک چھوٹا سا ہوٹل کھول کر مالی طور پر مضبوط ہو گئے۔

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے اس نے ہندو مہاسبھا میں پیسہ اور اثر حاصل کیا، کرکرے کی مسلم مخالف سرگرمیاں بڑھتی چلی گئیں۔‘

اشوک کمار پانڈے نے اپنی کتاب ’وائی کلڈ گاندھی‘ میں کرکرے کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔

اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ ’تقسیم کے بعد جب مہاجرین احمد نگر آنا شروع ہوئے تو کرکرے نے بڑے جوش و جذبے سے امدادی کام شروع کیے، انھوں نے وہاں تقریباً 10 ہزار مہاجرین کو سہولیات فراہم کیں، ساتھ ہی انھوں نے وہاں مسلمانوں کے خلاف مہم شروع کی، ممبئی کا ایک مہاجر مدن لال بہاوا ان کا ساتھی بن گیا۔ ان کی مدد سے انھوں نے فروٹ کا کاروبار شروع کر دیا۔ گاندھی کو مارنے کی کوشش میں ان کے گروپ کو دھماکہ خیز مواد، فراہم کیا۔‘

وشنو کرکرے کو گاندھی کے قتل کا مجرم پایا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

Getty Imagesناتھورام گوڈسے اور نارائن آپٹے3: مدن لال پاہوا

تشار گاندھی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ مدن لال پاہوا کے علاوہ گاندھی قتل کیس میں سزا پانے والے باقی سبھی مہاراشٹر سے تھے اور برہمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔

مدن لال پاہوا وہ واحد پناہ گزین تھے جو پاکستان میں مغربی پنجاب کے منٹگمری ضلع کے گاؤں سے انڈیا آئے تھے۔

جب انڈیا میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو مدن لال گوالیار آگئے۔ وہاں سے مدن لال کی ملاقات وشنو کرکرے سے ہوئی۔ کرکرے نے مدن لال کو وہاں پھلوں کا سٹال چلانے کے لیے رقم دی۔ مدن لال، جو کرکرے کی سرپرستی میں تھے، ان کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔

اشوک کمار پانڈے نے اپنی کتاب میں ان کے بارے میں لکھا، کہ ’کرکرے کے ذریعے ہی مدن لال نے دسمبر 1947 میں پونے میں گوڈسے اور آپٹے سے ملاقات کی۔ اس کے بعد وہ گاندھی کو قتل کرنے کی سازش کا حصہ بن گئے۔‘

مدن لال پاہوا کو گاندھی کے قتل کا مجرم پایا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

Getty Imagesمہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی4: دگمبر رام چندر باگے

دگمبر پونے میں ہتھیاروں کے ڈیلر تھے۔ کرکرے اکثر ان سے ہتھیار خریدتے تھے۔

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ’دگمبر ایک بہت پرجوش سیلز مین تھے، جو گاہک ان کے پاس آتے وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتے۔ ان کے کاروبار کا بنیادی راز یہ ہے کہ وہ فوری طور پر وہی چیز فراہم کرتے، جو صارفین کو پسند ہو۔‘

انھوں نے گاندھی کے قتل کی کئی کوششوں میں استعمال ہونے والے بہت سے ہتھیار فراہم کیے تھے۔

Getty Imagesشنکر غلطی سے اس سازش میں شامل ہو گیا تھا گاندھی کو کتنی بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی؟گاندھی کا قاتل گوڈسے: جس کا ہندو قوم پرست آر ایس ایس سے تعلق آج بھی ایک راز ہےگاندھی کے قتل سے پہلے ان کے قاتل کیا کرتے رہے؟مہاتما گاندھی کے بیٹے جنھوں نے باپ سے ناراض ہو کر اسلام قبول کیا اور نام عبداللہ رکھ لیا5: شنکر کسدایا

ان کے ماضی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں اور وہ اتفاقاً اس ساری سازش میں شامل ہوئے۔

اشوک کمار، شنکر کسدایا کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ایک غریب گھرانے کا لڑکا، جسے دگمبر باگے سولاپور سے لائے تھے لیکن سخت محنت کرنے کے باوجود اسے تنخواہ نہیں ملی۔ اس وقت اس نے ایک بار بھاگنے کی کوشش کی لیکن باگے نے اسے پکڑ لیا اور اپنی مقبولیت کا استعمال کرتے ہوئے اسے پھنسایا۔ اس کے بعد اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

درحقیقت، شنکر کسدایا ہندی یا مراٹھی کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے تھے۔ دہلی جانے تک انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس کے قتل میں ملوث ہیں۔

انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تاہم بعد میں اسی لاعلمی کی بنیاد پر انھیں رہا کر دیا گیا۔

Getty Imagesگوپال گوڈسے 6: گوپال گوڈسے

وہ ناتھورام گوڈسے کے بھائی تھے۔ قتل کے وقت گوپال کی عمر 27 سال تھی اور وہ شادی شدہ تھے۔

میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گوپال نے فوج کے آرڈیننس ڈیپارٹمنٹ میں بطور کلرک کام کرنا شروع کر دیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران انھوں نے ایران اور عراق میں انگریزوں کے ساتھ کام کیا۔ وہ اپنے بھائی کے کہنے پر اس سازش میں شامل ہوئے۔

اشوک کمار پانڈے لکھتے ہیں کہ ’گوپال نے گاندھی کے قتل کی سازش کے لیے ملازمت سے مختصر چھٹی لی۔ بعد میں انھوں نے نوکری چھوڑ دی۔ وہ اپنے بھائی کی ذات پرستی سے متاثر ہوئے۔ ناتھورام ان سے تقریباً 10 سال بڑے تھے لیکن دونوں نے پہلے کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا تھا۔‘

گوپال گوڈسے کو قصوروار ٹھہرایا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

Getty Imagesیہ بندوق گاندھی کو مارنے کے لیے استعمال ہوتی تھی 7: دتاترے سداشیو پارتھوری

گوڈسے اور آپٹے کو گاندھی کے قتل سے دو دن پہلے تک مناسب ہتھیار نہیں ملے تھے۔ دتاترے سداشیو پارتھوری نے اس قتل میں استعمال ہونے والی بیریٹا رائفل فراہم کی۔

ان کے بارے میں اشوک کمار پانڈے کہتے ہیںکہ ’پٹانکر بازار میں ان کے گھر کو ہندو مہاسبھا کے دفتر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ انھوں نے ایک ہندو راشٹر سینا بھی بنائی اور وہ خود ساختہ کمانڈر تھے۔‘

پارتھوری کی گوڈسے سے ملاقات ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے خفیہ تربیتی کیمپ میں ہوئی تھی۔

تشار گاندھی نے ان کے بارے میں لکھا کہ ’دتاتریے بہت باتونی شخص تھے۔ جب گاندھی کے قتل کی خبر گوالیار پہنچی تو انھوں نے سازش میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ جب یہ خبر سرکاری انتظامیہ تک پہنچی تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔‘

انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور بعد میں رہا کر دیا گیا۔

SAVARKARSMARAK.COMعدالت نے ونائک دامودر ساورکر کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دیا 8: ونائک دامودر ساورکر

گاندھی کے قتل میں ونائک دامودر ساورکر کا کردار ثابت نہیں ہوا۔ عدالت نے ان کے خلاف ناکافی شواہد کی بنا پر انھیں بری کر دیا۔

ناتھورام گوڈسے کا خاندان 1929 میں ان کے گھر کے قریب آباد ہوا۔

ان کے بارے میں تشار گاندھی نے کہا کہ ’ناتھورام نے ساورکر کے گھر باقاعدگی سے جانا شروع کیا۔ ناتھورام کو گرو مل گیا۔ ان کی سیاسی تربیت بھی شروع ہوگئی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’انھیں ساورکر کی شکل میں ایک باپ کی شخصیت ملی۔ ہندو برادری کی بیداری پر ساورکر کے زور دیے جانے اور ہندوتوا کے جارحانہ کردار نے ناتھورام کے نوجوان ذہن کو متاثر کیا اور وہ ساورکر کے پرجوش عقیدت مند بن گئے۔‘

Getty Imagesناتھورام گوڈسے9: ناتھورام ونائک گوڈسے

19 مئی 1910 کو ونائک گوڈسے، جو محکمہ ڈاک میں کام کرتے تھے، بیٹے کی پیدائش پر بہت خوش تھے۔ ان کے پچھلے تینوں بچے پیدائش کے وقت ہی فوت ہو گئے تھے۔

اس بچے کا نام رام چندر رکھا گیا، لڑکے کی ناک چھیدی گئی اور پھر اس کا نام ناتھورام رکھا گیا۔

اشوک کمار پانڈے نے لکھا کہ ’اس کے والد چاہتے تھے کہ ناتھورام میٹرک کا امتحان پاس کرے، ایک سرکاری دفتر میں کلرک کے طور پر کام کرے اور گھر کا خیال رکھے لیکن ناتھورام کو پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘

اپنی کتاب ’گاندھی کے قاتل: دی میکنگ آف ناتھورام گوڈسے اینڈ ہز آئیڈیا آف انڈیا‘ میں مصنف تریندر جھا لکھتے ہیں کہ ’وقت گزرتا گیا اور امتحانات قریب آ رہے تھے۔ گوڈسے نے اس کے لیے اچھی تیاری نہیں کی۔ 1929 کے اوائل میں، وہ اپنے ہائی سکول کے امتحانات میں فیل ہو گئے، انگریزی میں اس کے نمبر بہت کم تھے۔ اس کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ایک اچانک فیصلہ کرتے ہوئے انھوں نے سکول چھوڑ دیا، اس ناکامی نے انھیں دوبارہ ایک مشکل اور غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا۔‘

اس کے بعد ناتھورام نے روزی کمانے کے لیے اپنے والد کے پاس بڑھئی کا کام سیکھا۔

والد کے ٹرانسفر ہونے کے بعد وہ رتناگیری چلے گئے۔ وہیں ان کی ملاقات ونائک دامودر ساورکر سے ہوئی۔

دو سال بعد، ان کے والد کے ریٹائر ہونے کے بعد، ان کا خاندان چنگی میں آباد ہو گیا۔

اشوک کمار پانڈے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’گوڈسے نے سلائی کا کام سیکھا اور اپنی دکان شروع کی۔ کچھ دنوں بعد، انھوں نے وہاں ایک کپڑے کی دکان بھی کھولی۔ ان کے گھر والوں نے ان سے شادی کرنے پر اصرار کیا لیکن ناتھورام کو اس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔‘

’مسترد ہونے اور ناکامی کا خوف گوڈسے کو مسلسل ستاتا رہا۔ کئی بار، خاص طور پر 20 جنوری 1948 کو گاندھی کے قتل میں ناکامی کے بعد گوڈسے نے اپنے ناقدین کو خاموش کرانا چاہا اور یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ کم از کم ایک بار کامیاب ہوں گے۔ اسی ذہنیت کے ساتھ انھوں نے گاندھی پر آخری حملہ کیا۔‘

تشار گاندھی اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ ’آخر کار 30 جنوری 1948 کو انھوں ے گاندھی کو گولی مار دی۔تب آخر کار گوڈسے کے بیٹے نے کچھ ایسا کیا جس میں وہ کامیاب ہوا۔‘

مہاتما گاندھی کے بیٹے جنھوں نے باپ سے ناراض ہو کر اسلام قبول کیا اور نام عبداللہ رکھ لیاگاندھی کو کتنی بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی؟گاندھی کا قاتل گوڈسے: جس کا ہندو قوم پرست آر ایس ایس سے تعلق آج بھی ایک راز ہےآر ایس ایس کے 100 سال: وہ ہندو تنظیم جس نے گاندھی کے قتل پر ’مٹھائی بانٹی‘ اور انڈیا کو دو وزرائے اعظم دیےگاندھی کے قتل سے پہلے ان کے قاتل کیا کرتے رہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More