جمع تقسیم: ’خطرہ ہمیشہ اجنبیوں سے نہیں ہوتا بلکہ مانوس چہروں کے پیچھے چھپا ہوتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 09, 2025

’میں گھر سنبھالتی رہی، چمکاتی رہی لیکن اپنی بیٹی کو نہیں سنبھال سکی، تمہارا خیال نہیں رکھ سکی، تمہاری ڈھال نہیں بن سکی۔‘

ہم ٹی وی کی ڈرامہ سیریل ’جمع تقسیم‘ کی حال ہی میں نشر ہونے والی قسط میں ایک ماں کے اپنی بیٹی سے آنسوؤں اور ہچکیوں کے درمیان کہے ہوئے یہ جملے جیسے ناظرین کے دل پر لگے ہیں۔

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ پندرہ، سولہ برس کی سدرہ کو اس کے اپنے ہی گھر میں اس کے چچا کا بیٹا کئی سال سے ہراساں کرتا رہا اور اس وقترنگے ہاتھوں پکڑا گیا جب وہ ہر حد پار کر چکا تھا۔

ان تمام سالوں میں سدرہ نے بات کرنے کی کوشش کی تو اس کی شکایت سننے کے بجائے یہی کہا گیا کہ وہ ’بھائی‘ ہے، ’بھائیوں جیسا‘ ہے۔

اپنے ہی گھر میں کزن کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کی کہانی ڈرامے میں کیا دکھائی گئی، پاکستان میں سوشل میڈیا پر درجنوں خواتین نے خود ان کے ساتھ، یا ان کی قریبی رشتہ دار یا دوست کے ساتھ ایسے واقعات کا ذکر کیا۔

اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ جوائنٹ فیملی میں رہنے والی مائیں گھرداری کے معاملات میں اس طرح الجھ گئی ہیں کہ ان کے پاس اولاد پر توجہ دینے کے لیے وقت اور ذہنی فرصت دونوں ہی میسر نہیں۔

سدرہ کے کردار نے بھی جب بھی ماں سے بات کرنے کی کوششکی تو وہ باورچی خانے کے کسی کام ، مہمان داری یا گھریلو سیاست کے کسی معاملے میں اس قدر مصروف تھی کہ اس کی بات سن ہی نہیں سکی اور سدرہ کے مجرم ذیشان کےپکڑے جانے کے بعد ہی اسے احساس ہوا کہ وہ گھر چمکانے کی فکر میں اپنی بیٹی کے سب سے بڑے دکھ کو دیکھ ہی نہیں سکی۔

دوسری طرف یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اس گھر کے تمام بڑے، لڑکے کے جنسی مجرم ہونے پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ’گھر کا بچہ‘، ’آنکھوں کے سامنے بڑا ہوا ہے‘ جیسی باتیں کہہ کر لڑکیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اسی چھت کے نیچے اپنے مجرم کو موجودگی میں ہی زندگی گزاریں۔ یوں ان کی پناہ گاہ یعنی ان کا گھر ہی ان کے لیے غیرمحفوظ بنا دیا جاتا ہے۔

عموماً سوشل میڈیا پر کہانی یا کسی منظر پر بحث کے دوران مختلف خیالات سامنے آتے ہیں لیکن ’جمع تقسیم‘ میںہراسانی کے اس واقعے کو حقیقت کے اس قدر قریب دکھایا گیا ہے کہ اس امر سے انکار ممکن نہیں رہا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر نائلہ نامی صارف نے لکھا، ' کچھ لڑکیاں یہی سیکھ کر بڑی ہوئی ہیں کہ انھیں گھر میں خاموش رہنا ہے۔ہر بار جب گھر کے امن کی خاطر وہ خاموش کروا دی جاتی ہیں تو درد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔یہ سلسلہ تبھی رکے گا جب گھروں کو دوبارہ محفوظ بنا دیا جائے۔‘

عائشہ نامی ایک صارف نے لکھا، 'اس منظر سے سب کی یاد دہانی ہوئی ہے کہ خطرہ ہمیشہ اجنبیوں سے نہیں ہوتا بلکہ یہ آس پاس مانوس چہروں کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔‘

صحافی سعدیہمظہر نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا، 'جوائنٹ فیملی سسٹم میں لڑکیوں کی ہراسانی کے بعد کہہ دیا جاتا ہے، آپ کا بھائی ہے، آپ کے چاچو ہیں، آپ کے تایا ابو ہیں۔یہ حیلے بہانے مجرموں کو کھلی چھوٹ دیتے آئے ہیں کہ وہ نقصان کرتے جائیں۔‘

شانزے رفیق ماہر نفسیات ہیں اور کاؤنسلنگ کی سہولت فراہم کرتی ہیں ۔ بی بی سیسے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گھر میں ہی ہراساں کیے جانے کے اتنے معاملات آتے ہیںکہ وہ ان کی تعداد گن بھی نہیں سکتیں۔

’بہروپیا‘ کے مشکل کردار کی وجہ سے دماغ ہل جاتا تو تین چار سین کے بعد ڈائریکٹر سے آدھے گھنٹے کی چھٹی لیتا تھا: فیصل قریشی’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘’لازوال عشق‘: ’سچی محبت کی تلاش‘ کے لیے بنایا گیا پروگرام پاکستان میں متنازع کیوں بنا؟’پرورش‘: جین زی کا ڈرامہ جس نے والدین اور بچوں کے بیچ فاصلے کی کہانی دکھائی

ان کے مطابق ایک ایسی نوعیت کے کیس ہوتے ہیں جس میں کمسن بچوں کو اسی گھر میں رہنے والے ان سے عمر میں کچھ سال بڑے بچے جو بلوغت کے نئے تجربات سے گزر رہے ہوتے ہیں، سیکس ایجوکیشن یا بڑوں کی رہنمائی نہ ہونے کے وجہ سے ’جنسی تجربے اور دریافت‘ کے لیے استعمالکرتے ہیں

شانزے کے مطابق دوسری طرف ایسے معاملات ہوتے ہیں جہاں بالغ افراد، خالو، پھپھا وغیرہ باقاعدہ مجرمانہ ذہنیت کے تحت گھر کے کم عمر افراد سے جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ شانزے رفیق کا کہنا ہے کہ ان دونوں طرح کے معاملات میں محرم رشتے بھی شامل دکھائی دیے ہیں۔

ماہرِ نفسیات نے بتایا کہ جوائنٹ فیملی سے آنے والے معاملات میں ’کاؤنسلنگ میں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ جب کسی رشتہ دار کے متعلق شکایت ہو تو پہلے تو اس پر یقین نہیں کیا جاتا۔ اکثر مائیں بیٹیوں سے کہہ دیتی ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا ہوگا یا وہ یہ کہہ دیں گی اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔‘

جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے یہ زخم بھرنا مشکل کیوں ہے، اس سوال کے جواب میں شانزے کا کہنا ہے کہ 'سب سے مشکل بات یہ ہے کہ ایسے انسان کو روز آتے جاتے دیکھنا اور دیکھنا کہ وہ خوش ہے اپنی زندگی میں، اس کے بیوی بچے ہیں، سب اسے اچھا انسان سمجھتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دیتا رہتا ہے۔ اس سے زخم بھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

’جمع تقسیم‘ کی اس قسط کے بعد یہ بحث چھڑنے میں مصنفہ کے علاوہ ڈرامے کی کاسٹ اور عمدہ فلم بندی کا بھی ہاتھ ہے۔

پاکستانی ڈراموں کی مبصر مہوش اعجاز کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کی سب سے بڑی کشش اس کا حقیقت کے قریب ترین ہونا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ہر ہفتے اسے دیکھنے میں ایک تناؤ رہتا ہے جیسے یہ اپنی ہی کہانی ہو۔ یہ اچھے آرٹ کی نشانی ہے۔ یہ اہم اور حساسیت سے بیان کی گئی کہانی ہے جس میں نرمی اور باریکیوں کو مدنظر رکھا گیا، اسی کے بیچ جذبات کی شدت بتائی گئی اور معاملہ کی سنگینی سمجھائی گئی۔‘

دوسرے ناقدین نے بھی بطور آرٹ اس ڈرامہ میں باریکیوں کی تعریف کی ہے۔ مثلاً جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی سدرہ واقعے کے بعد رات جب سوئی تو اس کا تکیہ آنسووں سے گیلا تھا۔ گھر کے دوسرے بچوں کے چہروں پرصدمہ اور سوالات اور سدرہ کی ہم عمر کزن، ذیشان کیبہنکے تاثرات جیسے وہلڑکی ہونے کے ناطے سدرہ کا درد سمجھ رہی ہو۔

سدرہ کی کہانی انتہائی موثر انداز میں سنانے کے بعد ناظرین اس سوال کے جواب کے انتظار میں ہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام 'امیج' کی خاطر معاملے کو رفع دفع کرے گا یا مجرم کو اس کے کیے کی سزا ملے گی۔

ذیشان کا کردار ادا کرنے والے نوجوان اداکار الہی بخش ملکانی نے اپنی ایکفیس بکپوسٹ میں لکھا کہ ’مجھے بھی ذیشان کو مار پڑنے کا اتنا ہی انتظار ہے جتنا آپ سب کو۔‘

یوں تو جمع تقسیم کی پہلی ہی قسط سے جوائنٹ فیملی نظام زیر بحث ہے لیکن ا یسے نہیں کہ اسے سیدھا غلط کہہ دیا گیا ہو بلکہ ایک ایک کر کے اس کی پرتیں یوں کھولی گئیں کہ ناظرین خود اس بارے میں فیصلہ کریں۔

وہ کھانا بنانے کی باریاں ہو یا آٹومیٹک مشین لگانے کی اجازت نہ ہونا، پرائیویسی کی ناپیدگی ہو یا غریب اور امیرمیکے والی بہو کا تنازع کہیں کچھ مسائل جمع ہوتے رہے تو کہیں کچھ سہولت تقسیم ہوتی رہی لیکن اس جمع تقسیم کی جنسی ہراسانی کی یہ ایک پرت کھلی تو حساب لگا کہ کم عمر اور کمزور لڑکیوں کے لیے اس نظام میں صرف خسارہ بچا ہے۔

رومانس سے بھرپور کامیڈی ڈراموں کا رواج پاکستان میں کہاں سے آیا؟وکیل، سپر ماڈل اور اب اداکارہ ماہا طاہرانی: ’الزام لگانا، سکینڈل بنانا سوشل میڈیا پر بہت عام ہے، اس لیے دور رہتی ہوں‘عینا آصف: ’تنقید برداشت کرنا بڑا چیلنج تھا، سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں کچھ بُرا پڑھ لیتی تو رو پڑتی تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More