AFPماہرین کا کہنا ہے کہ چین تیزی کے ساتھ توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے
صرف 10 برسوں میں چین توانائی کے شعبے میں دنیا میں ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرا ہے۔ یہ عالمی اقتصادیات میں سب سے اہم شعبہ ہے۔ چین کی جانب سے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کے استعمال نے اسے بہت فائدہ پہنچایا ہے۔
اس سے نہ صرف چین کا خاممال پر انحصار ختم ہوا ہے بلکہ مستقبل کی ’کلین ٹیکنالوجیز‘ میں اسے سپر پاور بنا دیا ہے۔ چین اب سولر پینل، بیٹری اور الیکٹرک گاڑیاں ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔
اس کے نتیجے میں چین نے ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی عدم مساوات کے خلاف جنگ میں مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی نے یہ کیسے حاصل کیا اور تیل اور گیس کی طاقتوں، خاص طور پر روس اور امریکہ کو چین سے کیا خطرہ ہے؟
’بڑا سرپرائز‘
چینکے ’سبز انقلاب‘ کی رفتار حیران کن ہے۔ چین اس وقت اجتماعی طور پر پوری دنیا کے مقابلے دگنے سولر پینل نصب کر رہا ہے۔
قابل تجدید ٹیکنالوجی میں تمام عالمی سرمایہ کاری کا ایک تہائی حصہ چین کا ہے - صرف 2024 میں چین نے اس شعبے میں 600 ارب ڈالرز خرچ کیے۔
اس کے نتیجے میں، چین نہ صرف قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو تیزی سے نافذ کر رہا ہے بلکہ اپنی ٹرانسپورٹ کو بھی تیزی سے بجلی پر منتقل کر رہا ہے۔ یہ دنیا میں گرین انرجی ایکسپورٹ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی بن گیا ہے۔
سنہ 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق چین دنیا بھر میں فروخت ہونے والے 90 فیصد سولر پینلز اور 80 فیصد ونڈ ٹربائنز تیار کرتا ہے۔
صرف 10 سال پہلے چین کاریں درآمد کرتا تھا، لیکن اب وہ کاریں برآمد کرنے والا دُنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔
پچھلے پانچ سالوں میں اس نے اس شعبے میں بڑے ایکسپورٹرز جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
چین کی الیکٹرک کار ’بی وائے ڈی‘ گذشتہ برس ’ٹیسلا‘ کو بھی پیچھے چھوڑ کر الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں سرفہرست تھی۔
چین کی معیشت کا ایک تہائی اب توانائی کے جددید ذرائع پر چل رہا ہے جبکہ امریکہ اور یورپی یونین ایک چوتھائی کی سطح پر ہیں۔
حالیہ جائزوں کے مطابق باقی دُنیا کو اس معاملے میں چین کی سطح تک پہنچنے میں 25 برس لگ سکتے ہیں۔
تبدیلی کی رفتار ان لوگوں کو بھی حیران کر رہی ہے جو مستقبل قریب کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔
برطانوی تیل کمپنی بی پی کے چیف اکنامسٹ سپینسر ڈیل گذشتہ 11 برسوں سے عالمی توانائی میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے اُنھوں نے ریٹائرمنٹ سے قبل اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔ ایک پریس کانفرنس میں، ڈیل سے پوچھا گیا کہ بی پی کے چیف اکانومسٹ کے طور پر اس دہائی کے دوران انھیں کس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے سب سے بڑا سرپرائز وہ ناقابل یقین رفتار ہے جس کے ساتھ چین میں چیزیں بدلتی ہیں۔‘
’چین اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 60 فیصد الیکٹرک گاڑیاں، 65 فیصد سولر پینلز، 65 فیصد ونڈ ٹربائنز اور 30 فیصد نیوکلیئر ری ایکٹر فروخت کرتا ہے۔‘
اُن کے بقول ’اگلے ایک یا دو سال میں چین گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا شروع کر دے گا۔ ہم 11 سال پہلے ایسا کچھ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‘
ڈیل نے اعتراف کیا کہ چین کے ہر دورے پر وہ توانائی میں ’سبز انقلاب‘ سے منسلک پالیسیاں دیکھ کر متاثر ہوئے۔
کمیونسٹ پارٹی نے نئی ٹیکنالوجیز اور پورےملک کی ’الیکٹری فکیشن‘ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟
AFPچین کے اندرونی منگولیا کے صحرا میں ایک سولر فارم’ماحولیاتی تہذیب‘
چین کے سبز انقلاب پر تحقیق کرنے والے ایمبر سینٹر کے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چین سمجھ چکا ہے کہ ایندھن کے ذریعے ترقی کا پرانا ماڈل اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں چینی حکومت نے ’ماحولیاتی تہذیب‘ کی جانب سفر شروع کیا جس کا مقصد ماحولیات، معاشی ترقی اور سماجی ڈھانچے کو ترقی دینا ہے۔
ان کے اندازوں کے مطابق سنہ 1978 سے 2010 تک چین کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کے دوران کوئلے کی کھپت میں چھ گنا جبکہ تیل کی کھپت میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔
ماہرین کے مطابق صرف ایندھن پر انحصار کرتے ہوئے اس طرح کی تیز رفتاری ترقی چین کے لیے مسائل کی وجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ چین اپنی ضرورت کا 70 فیصد تیل اور 40 فیصد گیس درآمد کرتا ہے جس کا بڑا حصہ وہروس سے درآمد کرتا ہے۔
اسی لیے کلین انرجیز چین کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک طرح سے ’الیکٹرک موٹر‘ کا کام کر رہی ہیں۔
’ایمبر‘ کے مطابق سنہ 2024 میں کلین انرجیز کیپیداوار اور سرمایہ کاری میں چین نے 1٫9 ٹریلین ڈالرز خرچ کیے جو اس کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ سیکٹر چین کی معاشی ترقی سے بھی تین گنا زیادہ رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔
امریکہ کی کیپٹل مارکیت کمپنی ’ایس اینڈ پی‘ گلوبل کے ماہرین کے مطابق کلین انرجیز میں چین کی کامیابیاں ناقابل تردید ہیں۔ لیکن یہ راتوں رات نہیں ہوا۔
گذشتہ 10 برس کے دوران چین نے ایک ہزار گیگا واٹ کی سولر پینل صلاحیت، 600 گیگا واٹ کی ونڈ ٹربائن اور 2500 گیگا واٹ آورز (جی ڈبلیو ایچ) کی بیٹریاں بنانے میں 300 ارب ڈالرز خرچ کیے۔
Reutersچین کو مزدوروں کی دستیابی اور نئی صنعتوں کے لیے حکومتی تعاون دونوں میں مغرب پر برتری حاصل ہے چین نے کس طرح مغرب سے قیادت چھین لی
توانائی میں سبز انقلاب کا آغاز مغرب سے تین اہم وجوہات کی بنا پر ہوا تھا جس میں موسمیاتی تبدیلیاں سرفہرست تھیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ فوسل فیول یعنی تیل، گیس اور کوئلہ جلانے کے نتیجے میں فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
دوم، مغرب خام مال کے لیے مشرق وسطیٰ، روس، وینزویلا اور دیگر مطلق العنان ممالک پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا تھا۔ اور تیسرا، یورپ اور امریکہ نے توانائی کی ٹیکنالوجیز میں اپنی قیادت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
تاہم، ’سبز انقلاب‘ مہنگا ثابت ہوا کیونکہ سنہ 2009-2008 کے مالیاتی بحران کے بعد سرمایے کی کمی تھی۔ مغربی ممالک میں جمہوری طور پر منتخب حکومتوں نے آہستہ آہستہ سبسڈی ختم کرنا اور گیسز کے اخراج میں کمی کے اہداف پر نظر ثانی کرنا شروع کر دی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اس میں خاصا کامیاب رہا ہے۔ اُنھوں نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں اپنائے گئے ’سبز‘ اقتصادی تنظیم نو کے منصوبے کو پلٹ دیا، اور گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں، اُنھوں نے موسمیاتی تبدیلی کو ’تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ‘ قرار دیا۔
ماہرین کے مطابق چین نے مستقبل کی توانائی کی ٹیکنالوجیز اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں عالمی رہنما کی خالی جگہ سنبھال لی ہے۔
ٹرمپ کی تقریر کے اگلے دن، چینی صدر شی جن پنگ نے اقوام متحدہ میں اعلان کیا کہ تاریخ میں پہلی بار ان کا ملک گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے کا عہد کر رہا ہے۔
AFP
ماہرین کا خیال ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی فطرت کی محبت سے نہیں بلکہ عالمی معاشی غلبہ کی خواہش سے چلتی ہے۔ لیکن یورپی سیاست دان ’سبز‘ ایجنڈے پر ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
چین کے ماہر بائیفورڈ سانگ کہتے ہیں کہ چین نے مستقل طور پر موسمیاتی تبدیلی کو صنعتی پالیسی کے معاملے کے طور پر دیکھا ہے۔
شی جن پنگ کے دور میں ابھرتی ہوئی صنعتوں کی مدد کے لیے کئی پروگرام متعارف کرائے گئے۔ مغرب کا خیال ہے کہ چین اس طرح کھیل کے اصولوں کو توڑ رہا ہے، اور اسی لیے امریکہ اور یورپ نے اپنی منڈیوں کو سستی چینی الیکٹرک کاروں اور سولر پینلز کی آمد سے بچانا شروع کر دیا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟بحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟چین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟تجارتی جنگ: کیا صدر ٹرمپ کے ٹیرف منصوبے کا واحد مقصد چین کو نشانہ بنانا تھا؟
تاہم یورپی تحقیقی مرکز Bruegel کے ماہرین کے مطابق مغربی محصولات اور تحفظ پسندی نے صرف چین کی اپنی بجلی بنانے کی مہم کو ہوا دی ہے۔ وہ سولر پینلز کی مثال دیتے ہیں جن کی پیداوار میں چین کی اجارہ داری ہے۔
گرتی ہوئی قیمتوں اور مغربی ٹیرف کے ممنوع ہونے کے باوجود، چین نے گذشتہ دو سالوں میں اپنے سولر پینلز کی پیداوار میں کمی کے بجائے اضافہ کیا ہے۔
چین کی بجلی سے امریکہ اور روس کو کیسے نقصان پہنچے گا؟
یہ سب دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ اور روس کے لیے بھی بری خبر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن دونوں نے اپنے ممالک کے مستقبل کو تیل اور گیس کی پیداوار اور برآمدات میں اضافے سے جوڑ دیا ہے۔
چین نے اپنی قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں تیزی سے اضافے کے باوجود خریداری میں اضافہ کیا، کیونکہ اقتصادی ترقی اور بڑھتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے توانائی کی مجموعی طلب میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔
ایمبر کے مطابق، پچھلے سال، صاف توانائی نے نئی توانائی کی طلب کا 84 فیصد احاطہ کیا، باقی ماندہ اضافی تیل، کوئلہ اور گیس جلا کر پورا کرنا پڑا۔
لیکن اس موسم گرما میں، سب کچھ بدل گیا. چین ایک ایسے مقام سے گزرا ہے جہاں توانائی کے روایتی ذرائع کی مانگ میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
سنہ 2025 کی پہلی ششماہی میں، چین میں شمسی اور ہوا سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ بجلی کی طلب میں اضافے سے بڑھ گیا۔ اس کے نتیجے میں، تیل، گیس، اور کوئلے کی کھپت میں دو فیصد کمی واقع ہوئی۔
کیا مغرب چین کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
ایس اینڈ پی گلوبل کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ ہے مغربی ممالک کو توانائی کے معاملے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
اُن کے بقول مغربی ممالک میں پیداواری لاگت زیادہ ہے اور ایسے منصوبوں کی منظوری کے لیے طویل وقت لگتا ہے۔ جبکہ مغربی ممالک نے زیادہ پیچیدہ اور مہنگی ٹیکنالوجیز جیسے ہائیڈروجن ترانسپورت اور کاربن پر زیادہ توجہ دی ہے۔
دوسری طرف چین بڑے پیمانے پر اور کم قیمت پر سولر پینلز اور ونڈ ٹربائن تیار کرتا ہے، جس سے انھیں آسانی سے مارکیٹ کیا جا سکتا ہے۔
اور تیسرا، مغرب چینی ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرنا چاہتا۔
’ایس اینڈ پی‘ ٹیکنالوجیز کے مطابق امریکہ میں صاف ٹیکنالوجی کے ذریعے فی واٹ لاگت چین کے مقابلے میں دگنا ہو گی۔
لاگت صرف آدھا معاملہ ہے کیونکہ امریکہ میں اس کے لیے سماجی اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق چین کی طرز پر اپنی معیشت کی ’الیکٹری فکیشن‘ کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسری طرف کمیونسٹ چین میں مطلق العنان حکمرانی کی وجہ سے ایسے معاملات سے نمتنا قدرے آسان ہے۔
دوسری جانب ترقی پذیر ممالک بھی چینی ماڈل کے مطابق بجلی بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ دنیا کی سب سے بڑی تیل اور گیس کی طاقتوں بشمول امریکہ اور روس کے ساتھ اسی ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
ایمبر کے مطابق، دنیا بھر میں چار میں سے ایک ترقی پذیر معیشت پہلے ہی چینی مصنوعات کی بدولت بجلی کی فراہمی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
افریقہ، ایشیا، اور لاطینی امریکہ کے غریب ممالک سستی چینی ٹیکنالوجی کی طرف جا رہے ہیں، جو آنے والی دہائیوں تک چین کے آرڈرز کی ضمانت دے رہے ہیں۔
اور بیٹریوں اور سولر پینلز کے ساتھ ساتھ چین سیاسی اثر و رسوخ برآمد کر رہا ہے۔
طاقت کا مظاہرہ، ٹرمپ کی ناراضی اور عالمی قیادت: شی جن پنگ کی تقریر اور چین کی پریڈ میں چھپا ہوا پیغامامریکہ میں ڈیزائن کردہ مگر ’میڈ اِن چائنا‘: ایپل کی طاقت سمجھی جانے والی عالمی سپلائی چین اِس کی کمزوری کیسے بنی؟سستا تیل انڈیا، چین اور روس کو کیسے قریب لا رہا ہے؟چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟