Getty Images
جب چین نے اگست 2025 میں اپنے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر ملکی پیشہ ور افراد کے لیے نئے ویزے کا اعلان کیا تو اس خبر پر بڑی حد تک کسی کا دھیان نہیں گیا۔
چین میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے ویزا قوانین بدھ سے نافذ العمل ہو گئے۔
لیکن گذشتہ ہفتے یہ لوگوں کے درمیان اس وقت بحث میں آیا جب ایک انڈین میڈیا نے اسے چین کا'ایچ ون بیویزا قرار دیا۔
دراصل، امریکہ کی طرف سے H-1B ویزا کی فیس میں کئی بار اضافہ کرنے کے بعد، انڈین میڈیا میں اس پربہت بات ہوئی کیونکہ حالیہ دنوں میں، H-1Bویزا کا 70 فیصد سے زیادہ انڈینز کو دیا گیا ہے۔
انڈین میڈیا کی اس رپورٹ کو چین میں کافی توجہ مل رہی ہے اور اس نے نہ صرف تشویش بلکہ خوف بھی پیدا کر دیا ہے۔
لوگوں کو تشویش ہے کہ کیا غیر ملکیوں کو دی جانے والی سہولیات سے ملازمت کی سست مارکیٹ میں مقابلہ بڑھے گا، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جو روایتی طور پر غیر ملکی پیشہ ور افراد کے لیے زیادہ پر کشش نہیں رہا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ویزا درحقیقت غیر ملکیوں کو چین میں کام کرنے کی اجازت دے گا یا صرف ان کے لیے وہاں سفر کو آسان بنائے گا۔
Cheng Xin/Getty Imagesاس نئے ویزے سے مقامی چینی باشندے خوش نہیں انڈین پر تنقید
لیکن اس سے چینی سوشل میڈیا پر ویزا کی تنقید بند نہیں ہوئی۔ اس پر ہزاروں لوگ لکھ رہے ہیں۔
ایک تبصرے میں کہا گیا، 'ہمارے پاس بیچلر ڈگری والے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد ہے۔ اس سے بھی زیادہ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے ساتھ۔ ہمارا ملک ٹیلنٹ سے بھرا ہوا ہے۔ تو آپ غیر ملکی گریجویٹس کو کیوں لا رہے ہیں؟'
ویبو کے ایک اور صارف (چینی سوشل میڈیا) نے لکھا، 'ہماری یونیورسٹی کے طلباء کو ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے نئے پروگرام متعارف کروائے گئے ہیں، لیکن آخر کار غیر ملکی پاسپورٹ ہی غالب آ جاتا ہے۔'
کچھ نے بحث کی کہ آیا حکام واقعی اعلیٰ سطح کے ہنر کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور کیا غیر ملکی چینی طرز زندگی کو اپنانے کے قابل ہوں گے، خاص طور پر زبان کی رکاوٹ اور چین کے سخت سیاسی نظام کے پیش نظر۔
ان تبصروں میں زینو فوبک اور نسل پرستانہ تبصرے بھی شامل تھے، جن میں سے اکثر نے انڈین شہریوں کو براہ راست نشانہ بنایا تھا۔
ویزے پر عوامی ردعمل اس قدر شدید ہوا کہ حکومتی میڈیا کو صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔
پیر کو، گلوبل ٹائمز نے ایک تبصرہ شائع کیا جس میں اس منصوبے کو دنیا کو 'نئے دور میں ایک زیادہ کھلا اور پراعتماد چین' دکھانے کا موقع قرار دیا گیا ہے۔
منگل کو پیپلز ڈیلی نے ایک تبصرہ شائع کیا جس کا عنوان تھا، کے ویزے کی غلط تشریح صرف عوام کو گمراہ کرے گی۔'
چین کا ’کے‘ ویزا کیا ہے اور یہ کن افراد کو جاری کیا جائے گا؟امریکہ میں ہنر مند غیر ملکی ملازمین کی سالانہ ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر: ایچ ون بی ویزا کیا ہے اور ٹرمپ کا فیصلہ کن ممالک کو زیادہ متاثر کرے گا؟’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟ایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیںکے ویزا کیا ہے؟
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ چین اس پروگرام کے تحت کیا احاطہ کرے گا۔ تاہم، چینی حکومت نے کہا ہے کہ اس کا اطلاق STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) کے شعبوں میں کام کرنے والے لوگوں پر ہوگا۔
حکام نے اسے ویزا کے طور پر بیان کیا ہے جو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، ثقافت، کاروباری اور کاروباری سرگرمیوں سے متعلق تبادلے کے لیے ہوگا۔
اگست میں جاری ہونے والی ایک سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ جنھوں نے چین یا بیرون ملک کی معروف یونیورسٹی یا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے STEM فیلڈ میں بیچلر ڈگری یا اس سے زیادہ کی ڈگری حاصل کی ہے وہ اس ویزا کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، جیسا کہ وہ لوگ جو ایسے اداروں میں پڑھاتے ہیں یا تحقیق کرتے ہیں۔
تاہم، اس سکیم کے لیے عمر کی حد یا کون سی یونیورسٹیاں اس کے لیے اہل سمجھی جائیں گی کے بارے میں معلومات نہیں دی گئی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکی پیشہ ور افراد کو ویزا حاصل کرنے کے لیے کسی مقامی آجر کے تعاون کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مزید برآں، وہ چین میں داخلوں کی تعداد، ویزا کی میعاد اور قیام کی مدت کے لحاظ سے زیادہ لچکدار ہوں گے۔
Getty Imagesچینی حکومت STEM کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ سائنسی تحقیق کے لیے فنڈز میں کمی کر رہی ہے سرکاری میڈیا کا موقف
عوامی خدشات کو دور کرنے کی کوششوں کے باوجود، چینی سرکاری میڈیا نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ ویزا کے تحت کن سرگرمیوں کا احاطہ کیا جائے گا۔
سب سے اہم سوال لا جواب ہے: کیا یہ اہل غیر ملکیوں کو چین میں کام کرنے کی اجازت دے گا؟
اس ہفتے کے شروع میں، گلوبل ٹائمز نے لکھا تھا کہ K ویزا H-1B جیسا نہیں ہوگا۔ 'اسے سادہ ورک پرمٹ سمجھنا غلط ہوگا۔'
دریں اثنا، پیپلز ڈیلی نے کہا کہ یہ 'غیر ملکی نوجوانوں کو چین کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے اور رہنے کی اجازت دے گا۔' لیکن اس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسے امیگریشن کے ساتھ مساوی نہیں کیا جانا چاہیے۔
چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس ویزے سے متعلق مزید معلومات بیرون ملک چینی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے ذریعے جاری کی جائیں گی، تاہم کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔
اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ جب امریکہ بین الاقوامی ہنر مندوں اور مہمانوں کے لیے اہم مقام کے طور پر پیچھے ہٹ رہا ہے، چین اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ایچ ون بیویزا کا باضابطہ آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے اس پروگرام کے لیے درخواست کی فیس میں اضافہ کیا ہے۔
امریکہ کے اس اقدام پر انڈیا اور چین جیسے ممالک کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے جہاں ہنرمند کارکنوں کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ منتقل ہوتی ہے۔
یہ اقدام چین کی جانب سے غیر ملکیوں کو ملک کی طرف راغب کرنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے، چاہے وہ سیاحت، تحقیق یا کاروبار کے لیے ہو۔
جولائی تک، چین نے 75 ممالک کے ساتھ ویزا چھوٹ کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے تاکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے اپنے ممالک کا دورہ کرنا آسان ہو سکے۔
اعلیٰ ماہرین تعلیم کو راغب کرنے کی اس کی کوششوں نے پہلے ہی امریکی اداروں سے کچھ نامور سکالرز کو چینی یونیورسٹیوں کی طرف راغب کیا ہے۔
پیپلز ڈیلی نے لکھا، 'ایک ایسے وقت میں جب کچھ ممالک اندر کی طرف مڑ رہے ہیں اور بین الاقوامی صلاحیتوں کو ختم کر رہے ہیں، چین نے اس اہم موقع سے فائدہ اٹھایا اور متعلقہ پالیسیوں کو فوری طور پر نافذ کیا'۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے اس اقدام کی اپنی حدود ہیں۔
ماہرین کیا کہہ رہے ہیں؟
بزنس انٹیلی جنس پلیٹ فارم ایشیا بریفنگ کی ایڈیٹر جولیا انٹریس کا کہنا ہے کہ آن لائن مظاہرے چین میں غیر ملکیوں کے ساتھ خصوصی سلوک پر عوامی جانچ اور تنقید کے نمونے کی عکاسی کرتے ہیں۔
اگرچہ سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثیں عوامی جذبات کی پوری طرح عکاسی نہیں کر سکتی ہیں، لیکن یہ تنازع اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ 'پالیسی کا نفاذ صرف ریگولیٹری فریم ورک کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس میں عوامی گفتگو اور گھریلو اتفاق رائے کے سوالات بھی شامل ہیں۔'
چین میں زبان ایک اور رکاوٹ ہے۔ حالیہ برسوں میں، زیادہ تر محققین اور ماہرین تعلیم جو امریکہ چھوڑ کر چین گئے ہیں وہ چینی نسلی ہیں اور مینڈارن میں روانی ہیں۔
لیکن غیر ملکی ٹیلنٹ کی ایک وسیع رینج کے لیے، چینی ساتھیوں کے ساتھ بات چیت ایک چیلنج بنی ہوئی ہے جسے آجر اور ملازمین دونوں کو مل کر حل کرنا چاہیے۔
سٹیفنی کام، سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں وہ کہتی ہیں کہ 'ایک اور بڑی تشویش یہ ہے کہ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے غیر ملکی ماہرین چین کے سخت سیاسی ماحول سے مطابقت پیدا کر پائیں گے۔'
وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ 'تخلیق اور اختراع ایک کھلے اور آزادانہ ماحول میں پروان چڑھتی ہے، جیسا کہ ہم امریکہ اور بہت سے یورپی ممالک میں دیکھتے ہیں۔ لیکن چین کی موجودہ سمت کے ساتھ، ہم اس کے برعکس دیکھ رہے ہیں۔'
کیا یہ غیر ملکی پیشہ ور چین میں 'تخلیق اور اختراع کی جگہ' تلاش کر پائیں گے؟
یہ ان لوگوں کے لیے ایک اہم سوال ہے جو اس سمت میں قدم اٹھانے پر غور کر رہے ہیں۔
چین کا ’کے‘ ویزا کیا ہے اور یہ کن افراد کو جاری کیا جائے گا؟امریکہ میں ہنر مند غیر ملکی ملازمین کی سالانہ ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر: ایچ ون بی ویزا کیا ہے اور ٹرمپ کا فیصلہ کن ممالک کو زیادہ متاثر کرے گا؟ایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیں’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟کویت نے 19 سال بعد پاکستانی شہریوں کو ویزوں کا اجرا شروع کر دیا: ’تکنیکی طور پر یہ سلسلہ کبھی بند ہی نہیں ہوا تھا‘