BBC
بی بی سی کے انڈر کور صحافی نے برطانوی پولیس کی خفیہ فلمبندی کی جس میں یہ ظاہر ہوا کہ کس طرح اہلکار تارکین وطن کو ’گولی مارنے‘ کا حکم دے رہے ہیں، اختیارات سے تجاویز کر رہے ہیں اور ریپ کے الزام کو رد کر دیتے ہیں۔
سارہ ایوارڈ کے ایک حاضر سروس پولیس افسر کے ہاتھوں قتل کے بعد پولیس نے اپنے ’زہریلے رویوں‘ پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم یہ نئے شواہد اس کی نفی کرتے ہیں۔
بی بی سی پینوراما کی خفیہ فلم بندی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس افسران اپنے ساتھیوں سے جنسی نوعیت کے تبصرے کر رہے ہیں۔ وہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے بارے میں نسل پرستانہ خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ان نئے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ پولیس سے اس طرح کے نسل پرستانہ اور خواتین سے نفرت انگیزی پر مبنی رویے ختم ہونے کے بجائے محض نظروں سے اوجھل ہوئے ہیں۔
ایک افسر نے کہا کہ ’کوئی نیا جب پولیس میں آتا ہے تو پھر سے ایسے واقعات سر اٹھانا شروع ہوتے ہیں۔ آپ کو اس کا حل نکالنا ہوگا۔‘
بی بی سی نے میٹرو پولیٹن پولیس کو الزامات کی تفصیلی فہرست بھیجی تو انتظامیہ نے ویڈیو میں نظر آنے والے آٹھ پولیس افسران اور عملے کے ایک رکن کو معطل کر دیا اور مزید دو افسران کو ’فرنٹ لائن‘ ڈیوٹی سے ہٹا دیا۔
کمشنر سر مارک راؤلی نے کہا کہ پینوراما کی طرف سے سامنے لائے جانے والا پولیس کا رویہ ’شرمناک، مکمل طور پر ناقابل قبول اور فورس کی اقدار اور معیارات کے منافی‘ ہے۔
انتباہ: اس تحریر میں انتہائی جارحانہ اور نسل پرستانہ زبان کا بار بار استعمال شامل ہے
ہمارے انڈر کور رپورٹر کے ذریعے جن پولیس والوں کی ویڈیو سامنے آئی ہے ان میں سارجنٹ جو میک ایلوینی شامل ہیں جو دو دہائیوں سے اس محکمے میں ہیں۔
وہ اس ویڈیو میں ایک حاملہ خاتون کی طرف سے عائد کردہ ریپ اور گھریلو تشدد کے الزامات سے انکاری ہیں۔ جب ایک ساتھی نے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے فیصلے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’وہ یہی کہتی ہے۔‘
پولیس کانسٹیبل (پی سی) مارٹن بورگ نے فخریہ انداز میں بتایا کہ کس طرح انھوں نے ایک اور افسر سارجنٹ سٹیو سٹیمپ کو ایک مشتبہ شخص کی ٹانگ پر لات مارتے ہوئے دیکھا۔ پی سی بورگ نے ہنسنے ہوئے بتایا کہ انھوں نے کس طرح (اعترافی) بیان دینے کے لیے کہا تو مشتبہ شخص نے پہلے سارجنٹ کو لات مارنے کی کوشش کی تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دعویٰ سچ ہے یا نہیں۔
پولیس کانسٹیبل فل نیلسن نے پب میں ہمارے رپورٹر کو بتایا کہ ایک ایسے قیدی جنھوں نے اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ میں قیام کیا انھیں ’سر پر گولی ماری دینی چاہیے‘ اور ’وہ جو خواتین کا ریپ کرتے ہیں‘ انھیں ’تڑپ تڑپ کر مرنے دینا چاہیے۔‘
BBCبی بی سی نے انڈر کور رپورٹر کو لندن پولیس کی ویڈیو بنانے کے لیے کیوں بھیجا؟
بی بی سی پینوراما کے خفیہ رپورٹر روری بب نے رواں سال جنوری تک وسطی لندن کے چیئرنگ کراس پولیس سٹیشن کے حراست میں نامزد حراستی افسر کی حیثیت سے سات ماہ گزارے۔
یہ ایک سویلین کردار ہے جس میں سارجنٹ اور کانسٹیبلز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ اس کردار میں حراستی افسر کسی کو گرفتار نہیں کرتا۔
چیئرنگ کراس پولیس کے 22 حراستی مراکز میں سے ایک ہے جہاں لوگوں کو گرفتاری کے بعد اور ان پر الزام عائد کرنے یا رہا کرنے سے پہلے رکھا جاتا ہے۔
یہاں صورتحال کشیدہ رہتی ہے، جہاں افسران پرتشدد افراد اور کمزور افراد سے نمٹتے ہیں جن میں نوجوان اور ذہنی صحت کے مسائل کے شکار افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔
BBC
اس سٹیشن کے بارے میں تقریباً چار سال قبل بھی ’پولیس واچ ڈاگ‘ کی طرف سے تحقیقات کی گئی تھیں۔ یہ ایک آزاد ادارہ ہے جو پولیس کے کنڈکٹ پر نظر رکھتا ہے۔ اس ادارے کو انڈیپنڈنٹ آفس فار پولیس کنڈکٹ (آئی او پی سی) کہا جاتا ہے۔ اس سٹیشن کے بارے میں جو ہراساں کرنے اور امتیازی سلوک کے بارے میں شکایات پر تحقیقات کی گئی تھیں۔
ان تحققیات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کچھ پولیس افسران نے اپنی گرل فرینڈ کو مارنے اور ان کے بارے میں جارحانہ اور امتیازی تبصرے کیے اور ایک نجی گروپ چیٹس میں ریپ سے متعلق تمسخر اڑایا۔
وسل بلور نے پینوراما کو بتایا کہ نسل پرستانہ اور خواتین کے خلاف نفرت انگیز رویوں کے حامل افسران اب بھی اس سٹیشن پر کام کرتے ہیں حالانکہ لندن پولیس نے ’جارح مزاج افسران‘ اور ثقافتی اقدار کا خیال نہ رکھنے والے افسران کو ادارے سے باہر کرنے کے اعلانات کر رکھے ہیں۔
خواتین کے خلاف نفرت انگیز رویہ
سارجنٹ حراستی مرکز میں پولیس کی اقدار اور اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
چیئرنگ کراس میں ان میں سے ایک سارجنٹ میک ایلوینی تھے، جن کی دوران ڈیوٹی متعدد بار ویڈیو بنائی گئی اور ان کے غلط رویے کو سامنے لایا گیا ہے۔
انھوں نے ساتھیوں سے سیکس سے متعلق اپنے تجربے بہت ہی واہیات انداز میں شیئر کیے۔ خفیہ رپورٹر اور ایک خاتون ساتھی کو ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتایا جس سے انھوں نے آن لائن رابطہ قائم کیا: ’وہ دروازے جتنی موٹی اور بہت پھیلی ہوئی تھیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’اتنی موٹی تھیں کہ اس کی دو اندام نہانیاں تھیں۔ ایک تو حقیقت والی جبکہ دوسری اس کے گرد موٹائی کی صورت میں بنتی ہے۔‘
کچھ ساتھی خواتین کے اعتراضات کے باوجود انھوں نے تفصیلات بتائیں کہ کیسے ان کے پستانوں سے کھیل کر انھیں جنسی تسکین حاصل ہوئی۔
حراستی سارجنٹ کے طور پر سارجنٹ میکلوینی نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آیا کسی مشتبہ کو ریمانڈ پر حراست میں رکھا جائے یا فرد جرم کے بعد اسے ضمانت پر رہائی دی جائے۔
BBC
حراستی مرکز کی انچارج ایک خاتون افسر نے ضمانت پر ایک شخص کی رہائی کے فیصلے پر سوال اٹھایا جس پر اپنی گرل فرینڈ کے ریپ کا الزام تھا۔ خاتون افسر نے کہا کہ اس ملزم نے ایک حاملہ خاتون کے پیٹ پر لات ماری تھی۔
اس پر سارجنٹ میکلوینی نے جواب دیا کہ ’جی وہ یہی کہتی ہیں۔‘ پینوراما کے پاس اس مقدمے کی مکمل تفصیلات نہیں ہیں۔
خاتون افسر نے بعد میں خفیہ رپورٹر سے سارجنٹ کے جواب پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور بتایا کہ ’جس طرح سے وہ گیا اور کہا کہ ’ہاں ، یہ وہی ہے جو وہ کہتی ہے۔‘ پولیس افسر نے بتایا کہ ’جب وہ خاتون حاملہ تھیں تو اس نے اس کے پیٹ پر لات ماری۔‘
خاتون افسر نے اس سارجنٹ سے کہا کہ ’میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں۔‘
سو فش نوٹنگھم شائر پولیس کی عارضی چیف کانسٹیبل رہ چکی ہیں اور اس سے قبل بدسلوکی اور خواتین کے خلاف ناروا رویے سے متعلق شکایات پر سماعتیں کرتی تھیں۔
نے پینوراما کی فوٹیج کا جائزہ لیا اور کہا کہ سارجنٹ کے جنسی تبصرے ’مکمل طور پر نامناسب اور خواتین کے خلاف انتہائی نازیبا اور نفرت پر مبنی تھے۔‘
ریپ اور گھریلو تشدد کے الزامات کے بارے میں اپنے تبصرے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایک خاتون کے ساتھ ساتھ ایک سابق پولیس افسر کی حیثیت سے ان جیسے افراد میں میری حفاظت یا دیگر خواتین کی حفاظت کے بارے میں اس طرح کے فیصلے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جو کہ خوفناک بات ہے۔‘
سو فش نے اس سے قبل اپنے ساتھیوں کے ذریعے دو بار جنسی تشدد کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کی کہ جب وہ ایک بار جونیئر افسر کی حیثیت سے اور دوسرے موقع پر جب وہ سینیئر پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہی تھیں۔
ان کی قیادت میں سنہ 2016 میں نوٹنگھم شائر پولیس پہلی فورس بنی جس نے خواتین کے خلاف نفرت انگیز رویے کو جرائم کی فہرست میں شامل کیا۔
BBC
اس سال جنوری میں جب بی بی سی کے انڈر کور رپورٹر اس سٹیشن پر کام کر رہے تھے تو سارجنٹ میکلوینی کو بتایا گیا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں کہ انھوں نے مبینہ طور پر حراست میں ایک خاتون کے ساتھ نامناسب تبصرے کیے تھے۔
عملے نے ہمارے انڈر کور رپورٹر کو بتایا کہ وہ خاتون ایشیائی تھیں اور سارجنٹ میکلوینی نے ان سے کہا تھا کہ اسے تو کہیں ’مساج کے کاروبار‘ میں ہونا چاہیے۔ عملے نے بتایا کہ برطانوی ٹرانسپورٹ پولیس کے افسران نے اس واقعے کی اطلاع دی تھی۔
گذشتہ ماہ اس سے پہلے کہ پینوراما نے پولیس کو اس تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق آگاہ کیا، سارجنٹ نے بی بی سی کے رپورٹر کو بتایا کہ وہ حراستی مرکز میں کام کرنے کے لیے واپس آ گئے تھے۔
شدید غصہ
بی بی سی کے انڈرکور رپورٹر نے بار بار افسران کی طاقت کے استعمال سے لطف اندوز ہونے کی ویڈیو بنائی، جس سے ان پولیس والوں کے ایک دوسر پر اعتماد کے کلچر کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ ان کا کوئی ساتھی اس بارے میں کسی کو نہیں بتائے گا۔
پولیس کے ضابطے کے مطابق پولیس افسران طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب یہ ان کے پیشہ ورانہ رویے کے معیار کے مطابق ہو۔
ڈیوٹی سے دور رہتے ہوئے قریبی پب میں کپی سی مارٹن بورگ نے بتایا کہ کس طرح ایک پولیس افسر کی نقالی کرنے اور اغوا کی کوشش کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے ایک شخص کو حراست میں رکھا گیا۔ یہ خدشہ تھا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔
پی سی بورگ نے کہا کہ اس شخص نے افسران پر تھوک دیا تھا اور سیل کے دروازے پر پیشاب کیا تھا۔ لہٰذا افسران نے اسے فرش پر گرا دیا۔
کانسٹیبل نے بتایا کہ جب وہ ’لات مار رہا تھا‘، سارجنٹ سٹیو سٹیمپ، جسے ’سٹیمپی‘ کا عرفی نام دیا گیا تھا، نے اپنا بوٹ اس شخص کی ٹانگ پر مارا۔
انڈر کور رپورٹر حراستی مرکز میں سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی جانچ پڑتال کرنے میں کامیاب رہے، جس میں سارجنٹ کو دو بار لات مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
پی سی بورگ نے کہا کہ ’یہ لڑکا چیخ رہا ہے۔ اس کے پاؤں پر ایک رسولی تھی جو بعد میں ’ٹیومر‘ کی مانند نظر آتی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ اس قیدی نے احتجاج کیا تھا کہ سارجنٹ نے اس کی ٹانگ پر لات ماری تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سارجنٹ انھیں گالیاں دے رہے تھے۔
پی سی بورگ نے کہا کہ سارجنٹ نے بعد میں انھیں بتایا تھا کہ مشتبہ شخص نے انھیں لات مارنے کی کوشش کی تھی۔ پھر انھوں نے سارجنٹ کو کہا کہ ’بالکل سارجنٹ۔ اگر آپ چاہتے تو پھر میں گواہان کی فہرست میں اس کا نام درج کر دوں۔‘
سابق چیف کانسٹیبل سو فش نے کہا کہ اگر پی سی بورگ نے اس میں من گھڑت معلومات ڈالی ہیں، جو غلط ثابت ہوسکتی ہیں، تو یہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ یا سازش کے مترادف ہو گا۔‘
BBC
سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس شخص نے سارجنٹ سٹیمپ کو لات مارنے کی کوشش کی تھی۔ اس شخص کے ننگے پاؤں تھے اور اس وقت چار افسران اسے قابو کر رہے تھے۔
ایک افسر نے بتایا کہ کس طرح اگر مشتبہ افراد اپنی انگلیوں کے نشانات دینے سے انکار کرے تو وہ نس کو توڑنے کے لیے ان کی دو انگلیوں کو سختی سے کھینچ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے زبردستی فنگر پرنٹس لینا پسند ہے۔‘
ایک اور کانسٹیبل نے پہلی بار کینٹین میں انڈر کور رپورٹر سے ملاقات کی اور بتایا کہ کس طرح ایک مشتبہ شخص نے ان کے چہرے پر کہنی ماری تھی تو اس کے بعد پھر انھوں نے اس زنجیروں میں جکڑے شخص کو گاڑی میں مار مار کر اس کا پیشاب نکال دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ سب انھوں نے ’صرف پانچ یا چھ بار انھیں خوب مارا۔ یہ اچھا نظارا نہیں تھا۔ اس میں کہیں نہ کہیں غصہ بھی شامل تھا۔ مگر اس سے کچھ بھی نہیں ہوا۔‘
’وہ گندگی کے سوا کچھ نہیں‘
پب میں شراب پیتے وقت افسران اکثر نسلی تعصب، امیگریشن اور مسلمان مخالف نظریات کا اظہار کرتے تھے۔
ایک موقع پر پی سی بورگ پب میں حراست میں لیے گئے کچھ مشتبہ افراد کے بارے میں بات کر رہے تھے جن کا تعلق اقلیتوں سے تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کس گروہ نے انھیں زیادہ تنگ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا: 'مسلمان'
پی سی بورگ نے مزید کہا کہ: 'وہ نفرت کرتے ہیں، وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔'
'اسلام ایک مسئلہ ہے، ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔'
BBC
دوسری جانب پولیس کا معیار کہتا ہے کہ اس کے افسران کے رویے سے ’پولیس سروس کی بدنامی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی عوام کا اعتماد پولیس سے اٹھنا چاہیے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ ڈیوٹی پر ہیں یا نہیں۔‘
پی سی فِل نیلسن ابتدائی طور پر بی بی سی کے انڈر کور رپورٹر کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ ایک دن انھوں نے صحافی سے مذاق میں پوچھا کہ کہیں وہ میٹروپولیٹن پولیس کے ڈائریکٹوریٹ آف پرفیشنلز سٹنڈرڈز کا حصہ تو نہیں ہیں۔
دو ہفتوں بعد روری اور پی سی نیلسن پب میں ایک مرتبہ پھر ملے جہاں انھوں نے کہا کہ وہ یوکرین میں جنگ سے فرار ہو کر برطانیہ آنے والے افراد کو بُرا نہیں سمجھتے۔
لیکن مشرقِ وسطیٰ سے آنے والے لوگوں کے بارے میں ان کی رائے مختلف تھی: ان کی آمد کو انھوں نے ’حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’گندگی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔‘
اس شام کو جیسے جیسے پی سی نیلسن شراب پیتے رہے ان کی رائے مزید سخت ہوتی گئی۔
انھوں نے الجزیر کے شہریوں کو ’گندگی‘ اور صومالیہ کے شہریوں کو ’بدصورت قرار دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ: ’میرے خیال میں غیرملکیوں سے نمٹنا سب سے بُرا کام ہے۔‘
تھوڑی اور شراب پینے کے بعد انھوں اسلام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’میں نے بہت سارے مسلمان کو جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی زندگی گزارنے کا طریقہ درست نہیں ہے۔‘
’آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ جرائم مسلمان کر رہے ہیں۔‘
تاہم پولیس کے قواعد و ضوابط اہلکاروں کے لیے لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کا امتیاز نہ برتیں۔ برطانوی محکمہ داخلہ اور پولیس ایسے اعداد و شمار نہیں جاری کرتے جس سے معلوم ہو سکے کہ کسی مذہبی برادری کے کتنے افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
پی سی نیلسن نے حراست میں موجود ایک شخص کا بھی ذکر کیا جو کہ اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ میں موجود تھا: 'اس کے سر میں گولی مار دیں یا پھر اُسے بے دخل کر دیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے لیے ایک ریوالور ٹھیک رہے گا۔۔۔ اور وہ جو خواتین کا ریپ کرتے ہیں ان کا خون بہنے دیں اور انھیں مرنے دیں۔‘
سابق چیف کانسٹیبل سو فش کہتی ہیں کہ وہ یہ سن کر ’غصے‘ میں ہیں کہ پی سی نیلسن ایک 'پُر تشدد تعصبی' شخص ہیں۔
’بطور پولیس افسر مجھے ان پر ذرا بھی اعتماد نہیں ہے۔‘
برطانوی فوج میں خواتین اہلکاروں کو جنسی ہراسانی کا سامنا: ’وہ کمرے کے باہر ہاتھ میں کنڈوم لیے کھڑا تھا‘کیمیکل سے جلانا، بجلی کے جھٹکے، کُتے چھوڑنا اور جنسی عمل پر مجبور کرنا: فلسطینی قیدیوں پر بدنام اسرائیلی جیلوں میں کیا بیتی؟نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘گرومنگ گینگ کے پاکستانی نژاد سرغنہ کو 35 سال قید کی سزا: ’جنسی استحصال کرنے والے اتنے زیادہ تھے کہ اُن کی گنتی مشکل تھی‘’آپ کا اصل چہرہ سامنے آ جاتا ہے‘
متعدد افسران نے اپنے غیر پیشہ ورانہ اور امتیازی نظریات کا اظہار کیا اور ان میں سے کچھ نے یہ بات واضح کی کہ انھیں معلوم ہے کہ انھیں اپنی اصل رائے چھپانے کی ضرورت ہے۔
ایک موقع پر سارجنٹ مکلوینی نے انڈر کور رپورٹر کو خبردار کیا کہ وہ ایسے انداز میں مشتبہ افراد کے خلاف طاقت کا ذکر نہ کریں جو کہ پولیس سٹیشن میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں یا مائیک میں محفوظ ہو جائے۔
اس سارجنٹ نے ایک ایسے شخص کے پاؤں پر مُکّا رسید کیا تھا جس کی زبردستی تلاشی لی جا رہی تھی۔
کچھ منٹوں بعد سارجنٹ رپورٹر کو کیمروں اور مائیکس سے دور ایک کمرے میں لے گئے اور کہا: ’اس کمرے میں طاقت کے استعمال کی بات کرنے میں احتیاط برتیں۔‘
’یہ باتیں جب دوبارہ آپ کو سُنائی جاتی ہیں تو اچھا نہیں لگتا۔‘
’ہمیں کسی شکایت میں مت پھنساؤ۔‘
ایک پب میں روری کی ملاقات طویل عرصے سے پولیس کی ملازمت کرنے والے افسر پی سی برائن شارکی سے ہوئی جو کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شراب پی رہے تھے اور جنسی نوعیت کا مذاق کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ: ’اگر آپ جنسی تشدد کے معاملے میں پکڑے جائیں تو پھر آپ ریپ کے معاملے میں ہی پکڑے جائیں۔‘
اس کے بعد انھوں نے انڈر کور رپورٹر کو مخاطب کر کے کہا: ’میں یہاں کس پر بھروسہ کر سکتا ہوں؟ تم نئے لڑکے ہو۔‘
ایک اور انڈر کور رپورٹر نے بتایا کہ برائن شارکی نئے ساتھیوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ’آپ کو بولتے وقت ایک ماسک لگانا پڑتا ہے اور جب آپ کی ان سے بات چیت ہو جاتی ہے تب وہ ماسک ہٹ جاتا ہے اور آپ کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔‘
میٹ پولیس کا ردعمل: ’اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں‘
بی بی سی نے میٹرو پولیٹن پولیس کو سات مہینے پر محیط تحقیقات کے ذریعے حاصل کیے گئے ثبوت فراہم کیے۔
میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر سر مارک رولے نے کہا کہ ان کی فورس نے ’فوری اور بے مثال ایکشن لیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔‘
ان الزامات پر ڈائریکٹر امانڈا روے: ’ہم اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔‘
سر مارک نے کہا کہ میٹرو پولیٹن پولیس نے ’چیئرنگ کراس کی کسٹڈی ٹیم کو تحلیل کر دیا ہے‘ اور 2022 سے اب تک 1400 سے زیادہ افسران اور سٹاف یا تو ملازمت چھوڑ چکے ہیں یا پھر انھیں پولیس کے معیار پر پورا نہ اُترنے پر برخاست کر دیا گیا ہے۔
’ایسے بہت سارے لوگوں سے نمٹنا ابھی بھی باقی ہے جن کے رویوں سے ان کے ساتھی اور لندن کے لوگ مایوس ہو رہے ہیں۔‘
’ہم ان کی شناخت کرنے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے پُرعزم ہیں۔‘
پنوراما نے ان لوگوں سے بھی رابطے کیے جن کی اس تحریر میں شناخت کی گئی ہے۔ تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔
2021 میں سارہ ایوارڈ کو ایک حاضر سروس افسر نے اغوا، ریپ اور قتل کیا تھا۔ اس وقت میٹ پولیس کے بارے میں رکن ہاؤس آف لارڈز برونیس لوئس کیسی نے لکھا تھا کہ یہاں ادارہ جاتی طور پر نسلی تعصب اور عورت سے نفرت پائی جاتی ہے۔
سر مارک رولے نے ریویو میں لکھی گئی تجاویز کو تسلیم کیا تھا لیکن یہ ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ ادارہ جاتی مسئلہ ہے۔
اس معاملے پر سابق چیف کانسٹیبل مس فش کہتی ہیں کہ: ’میں نے کافی چیزیں دیکھ لی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارے میں عورت سے نفرت، نسلی تعصب اور غیر قانونی تشدد پایا جاتا ہے۔‘
گرومنگ گینگ کے پاکستانی نژاد سرغنہ کو 35 سال قید کی سزا: ’جنسی استحصال کرنے والے اتنے زیادہ تھے کہ اُن کی گنتی مشکل تھی‘انڈین پولیس پر مظاہرین، خواتین پر تشدد کے الزاماتگرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟برطانیہ میں مسلمانوں میں خوف اور بے چینی: ’یہ احتجاج نہیں بلکہ دہشتگردی ہے‘برطانوی فوج میں خواتین اہلکاروں کو جنسی ہراسانی کا سامنا: ’وہ کمرے کے باہر ہاتھ میں کنڈوم لیے کھڑا تھا‘