Getty Imagesماہرین کا کہنا ہے کہ ایران خطے میں تنہا نہیں رہنا چاہتا، لہذِا سعودی عرب اور پاکستان کے معاہدے کا خیر مقدم کر کے اس نے سمجھداری کا ثبوت دیا ہے
ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں ہونے والے دفاعی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کے اس بیان کو تہران اور ریاض کے تعلقات کی تلخ تاریخ کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی میں دوبارہ قائم ہونے والے سفارتی تعلقات کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
حال ہی میں قطر میں اسرائیل حملے کے بعد ہونے والے اسلامی ممالک کے اجلاس کے دوران بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی صدر کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاملات میں تعاون اور سلامتی سے متعلق 'باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ' ہوا تھا جس کے تحت 'کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔'
سعودی وزارت دفاع کے مطابق 'سٹریٹجک' معاہدے کا مقصدسعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ ڈیٹرنس کو بڑھانا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'کسی بھی ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں کے خلاف جارحیت ہے۔'
ایرانی صدر نے کیا کہا ہے؟
ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کا 'خیر مقدم' کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قدم 'خطے میں ایک مفصل سکیورٹی کے نظام اور مسلمان ممالک کے درمیان سیاسی، سکیورٹی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کی ابتدا ہے۔'
بدھ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ایرانی صدر نے نہ صرف اسرائیل پر کڑی تنقید کی بلکہ رواں مہینے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اسرائیلی حملے کی مذمت بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سکیورٹی کو طاقت کے استعمال سے یقینی نہیں بنایا جا سکتا' بلکہ اس کے لیے 'اعتماد کی بحالی، علاقائی رابطوں کو بڑھانا اور کثیر الجہتی اتحاد' کی ضرورت ہوتی ہے۔
صدر پزشکیان کا کہنا تھا کہ ایران نے 'کبھی جوہری ہتھیار کا حصول نہیں چاہا اور نہ کبھی چاہے گا۔'
انھوں نے اپنی تقریر میں رواں برس جون میں اسرائیل اور ایران جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: 'میرے ملک کو بد ترین جارحیت کا نشانہ بنایا گیا' اور اسرائیلی حملے 'سفارتکاری کو سنگین دھوکہ' دینے کے مترادف تھے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ اسرائیلی 'جارحیت' ایران میں 'بچوں اور سائنسدانوں کی شہادت' کے ذمہ دار ہے۔
Getty Imagesایران کے صدر مسعود پزشکیانکیا ایران بھی اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے؟
چند روز قبل لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ خطے کے مزید ممالک بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کے خواہاں ہیں۔
اسحاق ڈار نے کسی ملک کا نام نہیں لیا تھا، تاہم سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کے فوری بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'یہ ممکن ہے کہ اگر خلیج تعاون کونسل میں شامل کوئی بھی ملک کوئی اشارہ دیتا ہے تو اس سے سعودی عرب کی طرح کا باہمی معاہدہ کیا جا سکتا ہے، ہم باقی (ممالک) کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔'
دفاعی اُمور کے تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ’گریٹر اسرائیل‘ عزائم نے خطے کے مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اور انڈیا کے درمیان مئی میں ہونے والی لڑائی نے خطے میں پاکستان کی دفاعی طاقت کا لوہا منوایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران کے صدر نے ایک انٹرنیشنلفورم پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والی دفاعی معاہدے کو سراہا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’ایران سمیت مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک اس دفاعی معاہدے میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔‘
اُن کے بقول چین کی ثالثی کی وجہ سے سے دو برس قبل سعودی عرب اور ایران پہلے ہی ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں۔ لہذِا اگر ایران باضابطہ طور پر اس دفاعی معاہدے میں شامل نہیں بھی ہوتا تو بھی اسے یہ یقین دہانی کرائی جائے گی کہ دونوں ملک ایرانی مفادات کے خلاف نہیں جائیں گے۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر امریکہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔
اُن کے بقول ہو سکتا ہے کہ امریکہ کو اس معاہدے پر کوئی اعتراض نہ ہو کیونکہ سعودی عرب اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،لیکن اگر ایران کو اس میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر امریکہ اس کی مخالفت کر سکتا ہے۔
سابق سینیٹیر و سیاست دان مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ دو مسلمان ممالک کے درمیان پہلا اس نوعیت کا دفاعی معاہدہ ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر کی جانب اسے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے اہم قرار دینا اس بات کا غماز ہے کہ مصر سے لے کر ایران تک خطے کے تمام ممالک متفق ہیں کہ ’اس وقت سب سے بڑا خطرہ اسرائیل سے ہے۔‘
تھنک ٹینک سٹمسن سے منسلک مصنف اسفند یار میر اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کو یہ خدشہ لاحق ہو سکتا ہے کہ کہیں ایران، پاکستان کے جوہری پروگرام سے استفادہ نہ کر لے۔
اُن کے بقول یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد اب سعودی عرب کو پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر ’جوہری تحفظ‘ حاصل ہو گا، لہذا امریکہ اور اسرائیل کو یہ خدشہ ہو گا کہ کہیں تہران بھی اس چھتری تلے نہ آ جائے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق انکشافات کے بعد بھی ان خدشات میں شدت آئی تھی۔ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ ایران نے پاکستان کے جوہری پروگرام سے فائدہ حاصل کیا ہے۔
78 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ، 917 طیارے اور 840 ٹینک: امریکی سکیورٹی ضمانت کے باوجود سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیوں کیا؟ٹرمپ کی چند اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقات میں شہباز شریف کی شرکت کیوں اہمیت کی حامل ہے؟عبدالحمید ثانی: فلسطین کی زمین کے عوض اربوں ڈالر قرض کی ادائیگی کی پیشکش ٹھکرانے والے عثمانی سلطان، جنھوں نے اسرائیل کے قیام کی پیشگوئی کیپاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟’پاکستان کو اب کیمپ کی سیاست کرنا ہو گی‘
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھیکہتے ہیں کہ پاکستان کو ایران اور ترکی کے ساتھ بھی اس نوعیت کے معاہدے کرنے چاہییں۔
اُن کے بقول ماضی میں ان تینوں ملکوں کے درمیان ’آر سی ڈی‘ معاہدہ ہوا تھا جو اقتصادی معاہدہ تھا۔ لیکن اب اسے سکیورٹی معاہدے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 1964 میں ایران، ترکی اور پاکستان نے ’ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ‘ (آر سی ڈی) معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد تینوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دینا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ وہ کسی کیمپ کا حصہ نہیں بنے گا، اب اسے یہ پالیسی ترک کر کے کیمپ کی سیاست کرنا ہو گی۔
اُن کے بقول اب عالمی سطح پر کیمپ کی سیاست ہو رہی ہے اور ملکوں کے درمیان نئی صف بندیاں اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ لہذا پاکستان نے بھی اب سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ کر کے اس کی ابتدا کر دی ہے۔
چین اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ اور پھر گرمجوشی
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی نوعیت پیچیدہ رہی ہے اور کئی دہائیوں تک دونوں ملکوں کے درمیان دُشمنی چلی آ رہی تھی۔
سنہ 2016 میں سعودی عرب نے ایران میں اپنے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کے بعد تہران سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب سعودی عرب میں شیعہ عالم نمر اللنمر کو پھانسی دینے پر ایران کی جانب سے شدید ردعمل دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سات برس تک تعلقات کشیدہ رہے تھے۔
ایران، یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے جو سعودی عرب پر حملے کرتے رہے ہیں۔ لیکن مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔
سنہ 2023 میں تعلقات کی بحالی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا تھا۔
مئی میں اسرائیل اور امریکہ کے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی بھی سعودی عرب نے کھل کر مذمت کی تھی۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
ایرانی صدر کے بیان پر سوشل میڈیا پر بھی بات ہو رہی ہے اور پاکستانی مبصرین اور تجزیہ کار اسے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
انڈیا میںپاکستان کےہائی کمشنر رہنے والے عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’ایرانی صدر کا پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے کا خیرمقدم۔ ان لوگوں کے لیے صدمہ ضرور ہے جو اب بھی ایران اور پاکستان کے درمیان دُوریاں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران اس معاہدے کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔‘
صحافی عاصمہ شیرازی نے ایکس پر لکھا کہ ایرانی صدر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کو اس معاہدے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایرانی صدر اس معاہدے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
صحافی رضا رومی نے ایرانی صدر کے بیان کو ایران کا ’حیران کن‘ اشارہ قرار دیا۔
ایک صارف مونا فاروق حمید لکھتی ہیں کہ ایسے وقت میں تنہا نہیں رہنا چاہتا جب پہلے ہی اسے مغربی پابندیوں کا سامنا ہے۔ لہذا علاقائی تعاون کے کسی سمجھوتے کا خیرمقدم کر کے ایران نے سمجھداری کا ثبوت دیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ: کیا خطے میں ’طاقت کا توازن‘ تبدیل اور اسرائیلی اہداف متاثر ہوں گے؟پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ: ’جوہری تحفظ پر ابہام بھی سعودی مقاصد پورا کر سکتا ہے‘پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ: ’جوہری تحفظ پر ابہام بھی سعودی مقاصد پورا کر سکتا ہے‘ٹرمپ اور آرمی چیف عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں ’غیر معمولی‘ ملاقات: ’اسے صرف ایران اور اسرائیل کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے‘