پاکستانی ہنرمندوں کے لیے چین کا ’کے ویزا‘ امریکی ’ایچ ون بی‘ کا متبادل بن سکتا ہے؟

اردو نیوز  |  Sep 23, 2025

امریکہ کا ’ایچ ون بی ویزا‘ اس ملک میں داخلے کے لیے دنیا بھر کے ہنر مندوں کے لیے ایک پُرکشش ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر انڈیا کی آئی ٹی صنعت اور ترقی پذیر ممالک کے انجینیئرز، سائنسدان اور ماہرین کئی دہائیوں سے اس ویزے کے ذریعے امریکی منڈی میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں امریکی صدر کے ایک بڑے فیصلے نے اس راستے کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ اب ہر ’نئی ایچ ون بی‘ درخواست پر ایک لاکھ ڈالر کی یکمشت فیس لازمی ہوگی۔

یہ فیصلہ 19 ستمبر 2025 میں سامنے آیا جب امریکی امیگریشن سروس (یو ایس سی آئی ایس) نے ایک نئی فیس پالیسی جاری کی۔

وضاحت میں کہا گیا کہ اس بھاری رقم کا مقصد ’ویزے کے غلط استعمال کو روکنا‘ اور ’مقامی لیبر مارکیٹ کا تحفظ‘ ہے۔ یعنی امریکی حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ کم اجرت پر باہر سے آنے والے ہنرمندوں کے سیلاب کو روکنا چاہتی ہے اور صرف ان پروفیشنلز کو موقع دینا چاہتی ہے جو واقعی اعلٰی درجے کی مہارت رکھتے ہوں اور امریکی کمپنیوں کے لیے انتہائی ضروری ہوں۔

سنہ 2023 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے سب سے زیادہ ’ایچ ون بی ویزے‘ انڈین شہریوں کو دیے جو مجموعی تعداد کا 72 فیصد تھے۔ اس کے بعد چین 12 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان بھی اس فہرست میں شامل رہا اور ساتویں پوزیشن پر آیا۔

اُس سال پاکستان کے تقریباً اڑھائی ہزار شہری ’ایچ ون بی ویزے‘ کے ذریعے امریکہ میں کام کرنے کے اہل قرار پائے۔ یہ تعداد اگرچہ انڈیا یا چین کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ ایک اہم ذریعہ تھا جس سے ہنر مند افراد کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت تک رسائی ملتی رہی۔

اب ایک لاکھ ڈالر کی نئی شرط نے صورتِ حال کو یکسر بدل دیا ہے۔ چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس قدر بھاری فیس ادا کرکے بیرونِ ملک سے کسی انجینیئر یا آئی ٹی پروفیشنل کو بلائیں۔ بڑی کمپنیاں بھی اب صرف انہی امیدواروں کو ترجیح دیں گی جو اعلٰی سطح کی نوکریوں پر فٹ بیٹھیں اور جنہیں رکھنے سے کمپنی کے منافع میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔

اس کا براہِ راست اثر انڈین آئی ٹی انڈسٹری پر پڑ رہا ہے کیونکہ وہاں سے بڑی تعداد میں درمیانی سطح کے انجینیئرز امریکہ جایا کرتے تھے۔ پاکستانی امیدوار بھی اب زیادہ تر محروم رہیں گے اور صرف چند ہی خوش نصیب ہوں گے جو غیرمعمولی مہارت رکھتے ہوں گے۔ تاہم دوسری طرف چین نے اسی سے ملتے جلتے ایک ویزا پروگرام جسے ’کے ویزا‘ کہا جا رہا، لانچ کر دیا ہے۔

چین کا ’کے ویزا‘ کیا ہے؟’ایچ ون بی‘ کے برعکس چین نے بالکل اسی وقت ایک نیا ویزا پروگرام متعارف کرایا ہے جسے ’کے ویزا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ویزا یکم اکتوبر 2025 سے نافذ ہوگا۔ چین کی وزارتِ خارجہ اور سرکاری میڈیا کے مطابق اس ویزے کا مقصد ’نوجوان سائنسی اور تکنیکی ہنر مندوں‘ کو چین کی طرف راغب کرنا ہے تاکہ ملک کی معیشت اور تحقیقاتی اداروں کو عالمی ٹیلنٹ سے تقویت ملے۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیجنگ میں باضابطہ بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’کے ویزا کے تحت وہ غیرملکی شہری جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی کے میدان میں تعلیم یا تحقیق کر رہے ہیں، یا جنہوں نے کسی معتبر ملکی یا غیرملکی ادارے سے ڈگری حاصل کی ہے، وہ درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ مزید یہ کہ ابتدائی مرحلے پر اس ویزے کے لیے کسی مقامی سپانسر کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘

چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق ’کے ویزے‘ کا مقصد نوجوان سائنسی اور تکنیکی ہنر مندوں کو چین کی طرف راغب کرنا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان سائنسدان یا انجینیئر براہِ راست درخواست دے کر چین جا سکیں گے اور وہاں تحقیق، تعلیم، کاروبار یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔

یہ ویزا چین کی اُس طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ دنیا بھر سے ہُنرمند دماغوں کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شینژن، ہانگژو اور بیجنگ جیسے ٹیکنالوجی کلسٹر پہلے ہی دنیا کے بڑے تحقیقی مراکز میں شمار ہونے لگے ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ ’کے ویزا‘ کے ذریعے نوجوان ٹیلنٹ یہاں آئے اور اسے اپنا مستقبل بنانے کے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔

تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ اس ویزے کی تفصیلات ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئیں۔ یہ ویزا کتنی مدت کے لیے دیا جائے گا، کیا اس سے مستقل رہائش یا شہریت کا راستہ نکل سکتا ہے، اور اس کے لیے کیا دستاویزات درکار ہوں گی؟ یہ سب سوال ابھی باقی ہیں۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تمام تفصیلات سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے ذریعے جاری کی جائیں گی۔

پاکستانیوں کے لیے امکانات اور خدشاتتو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو بڑی عالمی طاقتوں میں ویزا سے متعلق جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس میں پاکستانی نوجوان کہاں کھڑے ہیں؟ دو دہائیوں سے ویزا کنسلٹینسی کے کاروبار سے وابستہ فرحان وڑائچ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی نوجوانوں کے لیے یہ صورت حال ملی جلی ہے۔ ایک طرف امریکہ کا دروازہ مزید تنگ ہو گیا ہے اور ابتدائی یا درمیانی سطح کی نوکریاں تقریباً ناممکن ہو گئی ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق پاکستانی نوجوان اگر امریکہ جانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنا ہو گا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)ان کا کہنا تھا کہ ’چین کا نیا ’کے ویزا‘ ایک بڑی امید کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اگر واقعی یہ ویزا سپانسر کے بغیر مل سکے اور زیادہ لچکدار شرائط پر دستیاب ہو تو پاکستانی انجینیئرز، محققین اور سٹارٹ اپ بانیوں کے لیے چین کی ابھرتی ہوئی معیشت میں نئی جگہ بنانے کا سنہری موقع ہو گا۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی ادارے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر یونیورسٹیاں اور ریسرچ سینٹرز چین کے ساتھ شراکت داری قائم کریں تو طلبہ اور محققین کے لیے شارٹ ٹرم ایکسچینج پروگرام اور مشترکہ تحقیقی منصوبے کے ویزے کھل سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کے نوجوان نہ صرف عالمی سطح پر زیادہ نمایاں ہو سکیں گے بلکہ ملک کے اندر بھی ایک نئی سوچ اور مہارت واپس لا سکیں گے۔

بدلتا ہوا عالمی منظرنامہیہ دونوں اقدامات ایک بڑے عالمی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ امریکہ نے اپنے ویزے کو انتہائی مہنگا کر کے دراصل ایک فلٹر لگا دیا ہے تاکہ صرف بہترین اور سب سے زیادہ اجرت پانے والے افراد ہی وہاں پہنچ سکیں۔ یہ دروازہ بند کرنا نہیں بلکہ اونچی چوکھٹ لگانا ہے۔ دوسری طرف چین نے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے جو بظاہر آسان اور لچکدار دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی اصل کشش اس وقت سامنے آئے گی جب اس کے عملی ضوابط اور رہائشی امکانات واضح ہوں گے۔

یہ کہنا بجا ہو گا کہ دنیا اب ’ٹیلنٹ نیشنلزم‘ کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ ہر ملک اپنے لیے بہترین دماغ چاہتا ہے اور اس کے لیے کبھی سختی تو کبھی نرمی کے راستے اختیار کرتا ہے۔

’ایچ ون بی ویزے‘ کی فیس میں اضافے کا براہِ راست اثر انڈین آئی ٹی انڈسٹری پر پڑ رہا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)ماہرین کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کے لیے اب فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر وہ امریکہ جانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنا ہوگا تاکہ وہ بڑی کمپنیوں میں اعلٰی عہدوں پر فٹ ہو سکیں۔ اور اگر وہ چین کا رخ کرنا چاہتے ہیں تو ’کے ویزا‘ کے ضوابط پر گہری نظر رکھنی ہوگی تاکہ وہ وقت ضائع کیے بغیر نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More