’میں کیڑے نہیں کھاؤں گا‘: کیا عالمی اشرافیہ ماحولیاتی تحفظ کی آڑ میں لوگوں کو کیڑے کھانے پر مجبور کر رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2025

انسانی تاریخ میں کیڑے مکوڑے انسانی خوراک کا حصہ رہے ہیں۔

اینٹوموفیجی (کیڑے کھانے) کی قدیم ترین تصویریں 30 ہزار قبل مسیح میں شمالی سپین میں الٹامیرا کی قدیم غار کی پینٹنگز میں ملتی ہیں۔

آج لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں بہت سے لوگ کیڑے مکوڑے باقاعدگی سے کھاتے ہیں۔

مثال کے طور پر میکسیکو میں ابلی اور تلی ہوئی ٹڈیاں ایک مقبول ناشتہ ہیں اور بہت سے نفیس ہوٹلوں میں بھی اسے پیش کیا جاتا ہے۔

اگرچہ کیڑوں کو طویل عرصے سے پروٹین کے سستے، صحت مند اور پائیدار ذرائع کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن یہ امریکہ اور یورپ میں زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس ہچکچاہٹ کو سازشی نظریات نے بڑھا دیا ہے، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ’عالمی اشرافیہ‘ عوام کو کیڑے کھانے اور گوشت ترک کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

محققین نے خبردار کیا ہے کہ یہ غلط معلومات کیڑوں کو پروٹین فراہم کرنے کے ذریعے اور خوراک کے متبادل ذرائع کے طور پر استعمال کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

ڈس انفارمیشن کے خلاف کام کرنے والی تجزیہ کار سارہ اینانو کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ’میں کیڑے نہیں کھاؤں گا‘ کی سازشی تھیوری عام ہے جس میں اس کے حامیوں کا الزام ہے کہ عالمی اشرافیہ ماحولیات کی آڑ میں عام لوگوں کو کیڑے کھانے پر مجبور کرے گی۔

اینانو اس تھیوری پر کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہیں۔ اُن کے بقول یہ تھیوری ’مغربی تہذیب کے زوال‘ کے موجودہ خدشات کی درست عکاسی ہے۔ آن لائن فورمز پر طنزیہ میم کے طور پر شروع ہونے والی یہ مہم اب امریکہ اور یورپ میں سیاست کے دائرے میں آ گئی ہے۔

نیدرلینڈز میں انتہائی دائیں بازو کی فورم فار ڈیمو کریسی پارٹی کے قانون ساز تھیری باؤڈیٹ نے اس معاملے پر مارچ 2023 میں یورپی یونین مخالف تقریر کی تھی۔

اُنھوں نے اپنی جارحانہ تقریر میں تقریباً چلاتے ہوئے ایک تھیلے سے کیڑے اُنڈیلتے ہوئے کہا تھا کہ تھا کہ ’ہم یہ کیڑے نہیں کھائیں گے۔‘

سنہ 2024 میں یورپی یونین کے انتخابات سے قبل اٹلی کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے اشتہاری بل بورڈ میں ایک شخص کو ٹڈی کھاتے دکھایا گیا تھا۔ بورڈ پر لکھا تھا کہ ’آئیں یورپ کو تبدیل کریں، اسے پہلے کہ یہ ہمیں تبدیل کرے۔‘

سُنڈیاں اور جھینگے اگر ’سُپر فوڈ‘ ہیں تو انھیں کھانے میں ہچکچاہٹ کیوں؟کیا ہم کیڑے کھا کر دنیا کو بچا سکتے ہیں؟خداؤں کا کھانا: پانی کے کیڑوں کے انڈے یعنی ’خوشی کے بیج‘کیا آپ ان کراہت انگیز کھانوں میں سے کوئی چکھنا چاہیں گے؟

سنہ 2023 میں فاکس نیوز سے برطرفی سے قبل امریکی ٹاک شو کے میزبان ٹکر کارلسن نے اس معاملے پر ’اُنھیں کیڑے کھانے دو‘ کے عنوان سے ایک خصوصی پروگرام کیا تھا جس میں خوراک سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر بات کی گئی تھی۔

اس پروگرام میں اُنھوں نے نیدرلینڈز کی انتہائی دائیں بازو کی کارکن ایوا ولارڈنگربروک سے بات کی تھی، جنھوں نے کہا تھا کہ ’طاقت ور‘ لوگ عوام کی پلیٹ میں کیڑے ڈال رہے ہیں اور حکومتیں بھی اس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ اُنھوں نے لائیو سٹاک میں کٹوتی کی تجاویز کے خلاف کسانوں کی حمایت بڑھانے پر بھی زور دیا تھا۔

کارلسن کا کہنا تھا کہ ’میں کیڑے نہیں کھاؤں گا‘ پہلے ایک میم تھی، جو اب باقاعدہ طور پر ایک تحریک ہے۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کھائے جانے والے مویشیوں کے گوشت کے آدھے حصے کو اگر سنڈیوں اور جھینگوں کے گوشت سے بدل دیا جائے تو فی الوقت زراعت اور مویشیوں کی فارمنگ کے لیے استعمال ہونے والی کل زمین کے تیسرے حصے کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

یہ تیسرا حصہ تقریباً 1680 ملین ہیکٹر ہو گا، یعنی برطانیہ کے رقبے سے 70 گنا زیادہ۔ اور اس کی مدد سے ماحولیاتی اثرات بھی کم ہو سکتے ہیں۔

لیکن ’زبردستی‘ کیڑے کھلانے کے خوف کی وجہ کیا ہے؟

سنہ 2020 کے موسم بہار میں ورلڈ اکنامک فورم نے ڈیوس میں ہونے والے اجلاس میں ’دی گریٹ ری سیٹ‘ اقدام متعارف کرایا تھا۔ اسے عالمی سطح پر عدم مساوات کو کم کرنے اور کرونا وبا کے دوران ماحولیاتی اقدامات کو آگے بڑھانے کا راستہ قرار دیا گیا تھا۔

لیکن سازشی نظریہ سازوں نے اسے کرونا وبا کی آڑ میں آمرانہ مزاج رکھنے والی ریاستوں کی چال قرار دیا، جس کا مقصد عام لوگوں کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہے۔

اینالو کہتی ہیں کہ ’میں کیڑے نہیں کھاؤں گا‘ کا نعرہ پہلی بار اگست 2019 کے اوائل میں ایک گمنام فورم میں متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن کرونا وبا کے دوران ورلڈ اکنامک فورم کی سفارشات نے اسے مزید مقبول بنا دیا۔

سنہ 2021 میں ورلڈ اکنامک فورم نے ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا کہ کیڑے، گوشت سے زیادہ مفید ہوتے ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر اور خوراک کے عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔

اینانو کہتی ہیں کہ کیڑوں سے متعلق سازشی تھیوریز میں یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ بائیں بازو کے سیاست دانوں کو ووٹ دینا جدید معاشرے کے خاتمے کا یکطرفہ ٹکٹ ہے۔

یورپی یونین نے سنہ 2023 میں چار کیڑوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے کی منظوری دی ہے، جن میں گھروں میں پائی جانے والی ٹڈی، مئی بیٹل اور نقل مکانی کرنے والی ٹڈی بھی شامل ہے۔ اس فیصلے نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا تھا۔

فرانسیسی دائیں بازو کے سیاست دان لارینٹ ڈوپلمب نے یورپی یونین کی جانب سے خوراک کی نئی اجازت پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’ہم فرانسیسیوں کو کیڑے کھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘

سازشی نظریات کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟

جنوری 2025 میں یورپی کمیشن نے پیلے رنگ کے میل ورم پاؤذر کو ایک نئی خوراک کے طور پر منظور کیا۔ ان ضوابط کے تحت یورپی یونین نے روٹی، پنیر اور پاستا میں اس کے چار فیصد تک استعمال کی اجازت دی۔ اس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ مصنوعات کے لیبل پر اس کے اجزا واضح طور پر درج ہوں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے متعلق سازشی نظریات کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟ یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ میں پروفیسر سٹیفین لیونڈسکی کہتے ہیں کہ جذبات، سازشی تھیوری کو جگہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سازشی تھیوری کا سب سے اچھا جواب سائنسی بنیادوں پر دیا گیا جواب ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بحرانوں کے دور میں سازشی نظریات زیادہ پنپتے ہیں۔ لوگوں کے اندر مجموعی طور پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایسی طاقتیں ہیں، جو اُن کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

اینانو کا استدلال ہے کہ ’میں کیڑے نہیں کھاؤں گا‘ سازشی نظریہ ایک خوف کو ظاہر کرتا ہے کہ عالمی معیشت چلانے والے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو کنٹرول کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’میں کیڑے نہیں کھاؤں گا‘ ایک بہت پرکشش جملہ ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کیڑے کھانے کے قابل اور پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کیڑوں میں پروٹین کا مواد ان کے خشک وزن کا 60 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مئی بیٹل میں 46 سے 70 فیصد کے درمیان پروٹین ہوتا ہے۔ جبکہ پکے ہوئے گائے کے گوشت میں پروٹین کی مقدار 26 فیصد تک ہوتی ہے۔

نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے کلائمیٹ سکول میں فوڈ فار ہیومینٹی انیشی ایٹو کی ڈائریکٹر جیسیکا فانزو کہتی ہیں کہ غذائی عدم تحفظ کے مختلف حل مختلف ترجیحات اور ثقافتوں کے مطابق موجود ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جائز خدشات کو دور کرنے اور سائنسی سیاق و سباق فراہم کرنے سے ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کے بارے میں ہماری گفتگو کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہےاور’زبردستی‘ تبدیلیوں کے تصور سے گریز کرنا ضروری ہے۔

لیوینڈوسکی کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور سازشی نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے استقامت کی ضرورت ہے۔ ’یہ اس قسم کی چیز نہیں ہے کہ آپ ایک ہی رات کے کھانے پر گفتگو کر سکتے ہیں۔‘

کیڑے مکوڑے ہماری روزمرہ خوراک کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟اگر تمام کیڑے مکوڑے مر جائیں تو کیا ہو گا؟سُنڈیاں اور جھینگے اگر ’سُپر فوڈ‘ ہیں تو انھیں کھانے میں ہچکچاہٹ کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More