ہوٹل کے کمرے میں ’بڑی لڑائی‘ اور تین ماہ بعد لاش پانی کی ٹینکی سے ملی: کینیا میں خاتون کا قتل جس کا الزام برطانوی فوجی پر لگا

بی بی سی اردو  |  Sep 21, 2025

کینیا کی عدالت نے ایک خاتون کے قتل کے الزام میں ایک برطانوی شہریکے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں جس کے بعد اُس شخص کی کینیا حوالگی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے جب کسی حاضر سروس یا سابق برطانوی فوجی اہلکار کو کسی دوسرے ملک میں قتل کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

31 مارچ 2012 کو مقتولہ اگنیس وانجیرو نے اپنی دو سہیلیوں فرینڈ اے اور فرینڈ بی (شناخت چھپائی جا رہی ہے) کو اپنے ساتھ باہر جانے کے لیے آمادہ کیا۔

اکیس سالہ اگنیس اور اتنی ہی عمر کی اُن کی سہیلی فرینڈ اے دونوں نے حال ہی میں بچوں کو جنم دیا تھا اور اب وہ کچھ وقت تفریح کے لیے باہر نکلنا چاہتی تھیں۔

فرینڈ بی بھی باہر جانے کے لیے بے چین تھیں اور ان تینوں سہیلیوں نے نیروبی کے شمال میں تقریباً 124 میل دُور وسطی کینیا کے شہر نانیوکی کے لائنز کورٹ ہوٹل کی بار میں جانے کا منصوبہ بنایا۔

اس شام، فرینڈ بی کی والدہ معمولی فیس کے عوض اگنیس کی پانچ ماہ کی بیٹی کی دیکھ بھال کے لیے تیار ہو گئیں۔ اس کے بعد سہیلیوں نے منزل کی جانب سفر شروع کیا اور شارلکس نامی بار میں اپنا پڑاؤ کیا۔

فرینڈ اے کے مطابق وہاں سادہ کپڑوں اور فوجی لباس میں ملبوس سفید فام لوگ موجود تھے۔

نانیوکی میں برطانوی فوج کا ایک مستقل تربیتی اڈہ ہے جہاں کینیا کی فوج کو تربیت دی جاتی ہے اور مقامی لوگ یہاں سفید فام لوگوں اور برطانوی فوج کی موجودگی سے مانوس ہیں۔ انھیں مقامی زبان میں’جونیز‘ کہا جاتا ہے جس کا ایک ناگوار مفہوم ہے۔

فرینڈ اے کہتی ہیں کہ ’مجھے یہاں ان سفید فام افراد کی موجودگی اچھی نہیں لگ رہی تھی کیونکہ میں نے ان سے متعلق برا سن رکھا تھا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’میں نے سن رکھا تھا کہ یہ لوگ کینیا کی خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ وہ ہماری بے عزتی کرتے ہیں۔‘

اُن کے بقول اگنیس جیسی غریب لڑکیوں کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان افراد کے چنگل میں پھنس جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب خواتین مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتیں تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہیں۔‘

اُن کے بقول ’میں نہیں مانتی کہ اگنیس کوئی سیکس ورکر تھِیں کیونکہ میں نے اُنھیں ایسا کرتے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ بہت غریب تھی۔‘

’ایگنس کی موت کے بہت سے لوگ ذمے دار ہیں‘

دوستوں کے مطابق ایک اچھے دن اگنیس 300 کینیائی شلنگ (تقریباً ایک پاؤنڈ) کما لیتی تھیں، جب کام نہیں ہوتا تھا، اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آتا تھا تو وہ اپنی بڑی بہن سے پیسے مانگ کر گزارہ کرتی تھیں۔

ایگنس کو اپنے بچے کے والد کی طرف سے کوئی مالی مدد حاصل نہیں تھی۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل پیسے کمانے کی کوشش کر رہی تھیں، زیادہ تر سیلون میں کام کرتی تھیں اور لوگوں کے بالوں کی چوٹیاں بناتی تھی۔

فرینڈ اے کے مطابق بعض اوقات وہ پیسے کمانے کے عجیب و غریب طریقے استعمال کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر وہ بار میں کسی شخص سے دوستی کرتیں جو اسے مفت ڈرنک کی پیشکش کرتا اور ایگنس خاموشی سے بار والے کو وہ ڈرنک واپس کر کے اس کے عوض نقد رقم لے لیتی۔

لیکن شارلکس بار میں اُس رات کچھ مختلف تھا۔ فرینڈ اے کے مطابق وہ فیس بک پر کچھ دیکھ رہی تھیں کہ اچانک اُن کی نظر ایگنس پر پڑی جو ایک سفید فام شخص کے ساتھ اُلجھ رہی تھیں۔

فرینڈ اے کے مطابق جب ’میں نے اُس سے پوچھا کہ سب ٹھیک ہے تو اس نے مجھے نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ تم لائنز کورٹ جاؤ میں تمھیں وہاں ملتی ہوں۔‘

فرینڈ اے کے مطابق پھر وہ لائنز کورٹ ہوٹل پہنچیں، جہاں فرینڈ بی پہلے سے موجود تھیں اور سفید فام افراد کے ساتھ ناچ رہی تھیں اور وہاں سفید فام لوگوں کا ہجوم تھا۔

کچھ دیر بعد ایگنس بھی وہاں پہنچ گئیں اور بتایا کہ اُنھوں نے سفید فام شخص کا بٹوہ چرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے اُنھِیں دیکھ لیا مگر زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔

فرینڈ اے کے مطابق ایگنس پرسکون لگ رہی تھیں اور اُن کا مورال بھی بہتر تھا اور ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ آدھی رات کے قریب فرینڈ اے گھر کی جانب روانہ ہو گئیں جبکہ فرینڈ بی اور ایگنس نے وہاں دیگر افراد کے ساتھ ڈانس جاری رکھا۔

فرینڈ بی کہتی ہیں کہ وہاں سفید فام افراد ہمیں مفت ڈرنکس کی پیشکش کرتے رہے اور ایگنس پیسوں کے عوض وہ ڈرنکس واپس کرتی رہیں۔ دونوں وہاں موجود افراد کے ساتھ گھل مل گئیں۔

فرینڈ بی کے بقول کچھ دیر بعد اُنھوں نے دیکھا کہ ایگنس ایک سفید فام شخص کے ساتھ وہاں سے جا رہی ہیں۔ اُنھِیں لگا کہ ایگنس کے اُس شخص کے ساتھ رضامندی کے ساتھ ’معاملات‘ طے پا گئے ہیں۔

بعض رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایگنس کو دو افراد کے ساتھ جاتے دیکھا گیا تھا۔

اگلی صبح فرینڈ بی جب ایگنسکے گھر پہنچیں تو اُن کی پریشان حال بہن نے بتایا کہ ایگنس ابھی تک گھر نہیں پہنچیں۔ اُن کے بقول وہ فوری طور پر اپنی ماں کے گھر پہنچیں جہاں ایگنس کا بچہ اب بھی اُن کے پاس تھا۔

کئی دن تک ایگنس کے دوست اُن کی تلاش میں مصروف رہے۔ لائنز کورٹ ہوٹل کے چوکیدار کا کہنا تھا کہ اُس ویک اینڈ پر ہوٹل کے ایک کمرے میں ’بڑی لڑائی‘ ہوئی تھی اور کھڑکی کا شیشہ بھی ٹوٹا تھا۔

لگ بھگ تین ماہ بعد ایگنس کی لاش ہوٹل کے قریب ایک پانی کی ٹینکی سے ملی۔ اُن کے جسم پر چھریوں کے وار کیے گئے تھے۔ فرینڈ بی نے بتایا کہ وہ اپنی دوسری دوست کے ہمراہ ایگنس کی لاش دیکھنے گئیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ سب کچھ بہت ہولناک تھا، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ سب ہو جائے گا۔‘

اس واقعے کے کئی برسوں تک ایگنس کا کیس لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا لیکن سنہ 2019 میں ایک تفتیش کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایگنس کو ایک یا دو برطانوی فوجیوں نے قتل کیا تھا۔

’سنڈے ٹائمز‘ نے انکشاف کیا کہ برطانوی فوجی کے ہاتھوں ایگنس کی ہلاکت کا نانیوکی میں موجود دیگر فوجیوں کو بھی علم تھا۔ اخبار کے مطابق مذکورہ فوجی کو فوج سے نکال دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی برطانیہ میں آزادانہ زندگی گزار رہا ہے۔

فرینڈ اے کہتی ہیں کہ اُن کے نزدیک ایگنس کی موت کے بہت سے لوگ ذمے دار ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اس قتل کے بارے میں جانتے تھے لیکن اُنھوں نے اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کی۔

برطانوی حکومت متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے لیے پرعزم

سنہ 2024 میں انٹرنیشنل میڈیا پلیٹ فارم ’اوپن ڈیمو کریسی‘ نے رپورٹ کیا کہ برطانوی فوج بیرون ملک موجود اپنی فوج میں نظم قائمکرنے میں ناکام رہی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسی شکایات کے پیش نظر بیرون ملک برطانوی فوجیوں کو پیسے دینے کے عوض سیکس سے سنہ 2022 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے بعد ایگنس کا معاملہ بھی دوبارہ شہ سرخیوں میں آیا۔

اس معاملے پر اگست 2025 میں اندرونی تحقیقات کا آغاز کیا گیا جس سے یہ سامنے آیا کہ کینیا میں فوجی اڈے پر موجود کچھ فوجی اب بھی خواتین کے ساتھ لین دین میں ملوث تھے۔ ان میں سے بہت سی خواتین مجبور، غریب یا سیکس ورکرز کے طور پر سمگل کی گئی تھیں۔

رواں برس اپریل میں برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے کینیا میں ایگنس کے اہلخانہ سے ملاقات کی اور اُن کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت اس خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن مدد کرتی رہے گی جس کا وہ مستحق ہے۔

نام، مذہب اور حلیہ تبدیل: گھریلو ناچاقی کے بعد لاپتہ ہونے والی خاتون، جنھیں پانچ سال بعد ڈھونڈ لیا گیا’62 لاکھ روپے کا سونا‘ جس کے لیے خاتون نے اپنے شوہر اور بہن کے ساتھ مل کر اپنی سہیلی کو مبینہ طور پر قتل کر دیا’اپنی ڈیلیوری تک گاہکوں کے ساتھ سیکس کرتی رہی‘: دنیا کا پہلا ملک جہاں سیکس ورکرز کو بھی بچوں کی پیدائش پر چھٹی ملے گیہیروں سے مالامال ملک جہاں ہزاروں خواتین ’سیکس ورکر‘ بننے پر مجبور ہیں’برطانوی فوج ہماری سہیلی کے قتل کو نظرانداز نہیں کر سکتی‘

16 ستمبر کو کنینا کی ایک ہائیکورٹ نے ایک برطانوی شہری کے وارنت گرفتاری جاری کیے جس پر اگنیس کے قتل کا الزام ہے۔

اگر مذکورہ فوجی کو برطانیہ کے حوالے کیا گیا تو یہ پہلا موقع ہو گا جب کسی حاضر سروس یا سابق برطانوی فوجی کو کسی شہری کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے گا۔

افریقن سینٹر فارکریکٹیو اینڈ پریونٹیو ایکشن کے وکیل کیلون کوبائی کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی خوش آئند اور انصاف کے محور کی طرف ایک مثبت قدم ہے تاہم حوالگی کی کارروائی کی قانونی رکاوٹوں کے پیش نظر جنگ ابھی تک نہیں جیتی گئی اور ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ریاستوں کے متعلقہ سرکاری ادارے انصاف کی تکمیل کے لیے تعاون جاری رکھیں گے۔‘

اگنیس کی بھانجی نے اس معاملے پر ’گو فنڈ می‘ پیج بھی بنا رکھا ہے تاکہ اُن کے اہلخانہ کی مدد کے لیے رقم جمع کی جا سکے۔ وہ فنڈ ریزنگ کے لیے برطانیہ بھی جانا چاہتی ہیں۔

اگنیس کی بھانجی ایشتر کا کہنا ہے کہ ہمیں اگنیس کی بیٹی کا مستقبل محفوظ رکھنے کے مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ ایشتر خود بھی ابھی ٹین ایجر ہیں اور وہ برطانیہ جا کر اپنی خالہ کے قتل سے متعلق مزید آگاہی پیدا کرنا چاہتی ہیں۔

ایگنس کے دوست اس بات پر متفق ہیں کہ انصاف میں بہت تاخیر ہوئی۔

فرینڈ اے کے مطابق ’برطانوی فوج کو ہماری سہیلی کے قتل کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ہم ایگنس اور اس کی بیٹی کے لیے انصاف مانگتے ہیں۔‘

برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانیہ اس خاندان کو انصاف دینے کے لیے پرعزم ہے لیکن اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی جاری ہے اور اس مرحلے پر ہم مزید تبصرہ نہیں کریں گے۔

سہمے ہوئے ’سیکس ورکرز‘ کی روداد: ’میرے آنے سے پہلے وہ نشہ کر رہا تھا، مجھے لگا اب بچنا ناممکن ہے‘ہیروں سے مالامال ملک جہاں ہزاروں خواتین ’سیکس ورکر‘ بننے پر مجبور ہیں’مجھے دبئی سے سمگل کر کے انڈیا میں سیکس ورکر بننے پر مجبور کیا گیا۔۔۔‘ دلی کی ازبک خاتون کی کہانی’ہم چار نسلوں سے سیکس ورکر ہیں مگر میں نے بیٹی کو یونیورسٹی بھیجا‘چار سال قبل سمندر میں لاپتا ہونے والی برطانوی خاتون اور سی سی ٹی وی میں آخری منظر کا معمہنام، مذہب اور حلیہ تبدیل: گھریلو ناچاقی کے بعد لاپتہ ہونے والی خاتون، جنھیں پانچ سال بعد ڈھونڈ لیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More