Getty Imagesانڈیا ایران کے سیستان و بلوچستان صوبے میں خلیج عمان میں اس بندرگاہ پر ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے
ایران کو جوہری توانائی اور اس سے متعلق معاہدے کے معاملے پر امریکہ کی جانب سے مختلف نوعیت کی اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کا سامنا ہے لیکن امریکی مفادات کے تحفظ کے پیشِ نظر چابہار بندرگاہ کو ان پابندیوں سے مسثتنیٰ رکھا گیا تھا۔
تاہم اب امریکہ نے چابہار کی بندرگاہ کو بھی ایران پر عائد پابندیوں کے دائرے میں لے لیا ہے جس کے سبب انڈیا کے مفادات کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
یہ بندرگاہ انڈیا تعمیر کر رہا ہے اور ایک معاہدے کے تحت اسے چلانے کی ذمہ داری بھی ایران نے انڈیا کو ہی سونپ رکھی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ 29 ستمبر سے اس بندرگاہ کا انتظام چلانے والوں پر بھی پاندیاں عائد کی جائیں گی۔
امریکہ نے چابہار سے استثنیٰ کیوں واپس لیا اور انڈیا کا اس پر کیا ردِعمل ہے؟
جہاں ایک طرف ماہرین امریکہ کے اس غیر متوقع فیصلے کو انڈیا کے لیے ایک ’بہت بڑا سٹریٹیجک دھچکا‘ قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف انڈیا کی وزارت خارجہ نے پابندی کے اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے اس فیصلےکے ممکنہ نتائج کا جائزہ لے رہی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان ٹامس پیگاٹ نے واشنگٹن میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اس بندرگاہ سے استثنیٰ واپس لینا صدر ڈونلد ٹرمپ کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد ایران کو اقتصادی طور پر تنہا کر دینا ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’سیکریٹری خارجہ نے2018 میں ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرولیفریشن ایکٹ کے تحت افغانستان کی تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے لیے چابہار بندرگاہ کو دیا گیا استثنیٰ ختم کر دیا ہے۔‘
ٹامس پیگاٹ کے مطابق ’چابہار پر امریکی پابندی 29 ستمبر 2025 سے نافذ ہو جائے گی۔پابندیوں کےنفاذ کے بعد جو لوگ بھی اس بندرگاہ کا انتطام چلائیں گے یا متعلقہ ایکٹ کے تحت اس طرح کی دوسری سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے وہ بھی امریکی پابندیوں کے دائرے میں آئیں گے۔‘
انڈیا ماضی میں ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار رہا ہے۔ سنہ 2019 میں امریکہ کی طرف سے پابندی عائد کیے جانے کی دھمکیوں کے پیش نظر انڈیا نے ایران سے تیل لینا مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔
Getty Imagesصدر ٹرمپروس سے تیل خریدنے کی پاداش میں انڈیا پر 50 فیصدٹیرف لگا چکے ہیں
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال سے جمعے کو پریس بریفنگ کے دوران پوچھا گیا کہ کیا امریکی پابندیوں کے پیشِ نظر نئی دہلی چابہار بندرگاہ کی تعمیر اور اسے چلانے کا کام بند کردے گا؟
انھوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا چابہار سے متعلق امریکی پابندیوں کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔‘
چابہار بندرگاہ سے متعلق امریکی پابندیوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب صدر ٹرمپ نے روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں انڈیا پر 50 فیصدٹیرف لگا دیا ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات تلخیوں کے دور سے گزر رہے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو انڈیا کے لیے ’بڑا دھچکا‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟کیا انڈیا کے پاس 75 سالہ مودی کا کوئی متبادل موجود نہیں؟انڈیا کی ’200 برس پرانی‘ مسجد جس میں ہندو اذان دیتے ہیں: ’میں نے سوچا یہ اللہ کا گھر ہے اسے آباد رہنا چاہیے‘
اگرچہ انڈیا نے چابہار پر پابندی لگائے جانے پر کوئی سیدھا جواب دینے سے گریز کیا ہے لیکن ماہرین اسے نئی دہلی کے لیے ایک ’بہت بڑا دھچکا‘ سمجھتے ہیں۔
امریکہ میں مقیم جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ 'یہ انڈیا کے لیے ایک بڑا سٹریٹجک دھچکا ہے کیونکہ یہ بندرگاہ انڈیا کی کنیکٹویٹی پر مبنی سفارتکاری کا ایک بہت اہم حصہ تھی۔‘
سی این بی سی ٹی وی چینل پر ایک اور تجزیہ کار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’چابہار سے استثنیٰ ختم کیا جانا معمول کی پابندیوں سے کہیں زیاد بڑا قدم ہے۔ اس سے انڈیا کی علاقائی رسائی اور سفارتی توازن پر براہ راست اثر پڑے گا۔‘
’صدر ٹرمپ نے انڈیا پر شکنجہ مزید کس لیا ہے‘
صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت اور جو بائیڈن کی حکومت کے دوران بھی ایران پر اضافی پابندیاں عائد کیے جانے کے دوران چابہار پر پابندی لگانے کی بازگشت سنی گئی تھی لیکن اس وقت امریکہ نے افغانستان میں اپنے مفادات اور انڈیا اور ایران کے پُرانے سجھوتے کے پیش نظر اس بندرگاہ کو دیے گئے استثنی کو برقرار رکھا تھا۔
مارچ 2021 میں ایک کانفرنس میں جہاز رانی کے وزیر ڈاکٹر منسکھ منڈاویا نے کہا تھا ’چابہار بندرگاہ انڈین حکومت، ایران اور افغانستان کی مشترکہ کوششوں سے تعمیر کی جا رہی ہے۔ یہ بندرگاہ افغانستان کو کھلے سمندر تک رسائی دے گی، اس سے نہ صرف ایک قابل اعتبار اور محفوظ تجارتی کوریڈور ملے گا بلکہ تجارتی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔‘
انڈیا کے ایک سرکردہ تجزیہ کار برہم چیلانی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’صدر ٹرمپ نے انڈیا پر اپنا شکنجہ مزید کس لیا ہے۔ انڈین مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف لگانے سے بھی جب دل نہیں بھرا تو اب انڈیا کے ذریعے آپریٹ کی جانے والی چابہار بندرگاہ کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا۔‘
وہ لکھتے ہیں ’اس کامقصد خاص طور سے انڈیا کو ہدف بنانا ہے۔‘
Getty Imagesایران اور انڈیا کےدرمیان ایک معاہدے کے تحت چابہار بندرگاہ چلانے کی ذمے داری دس برس کے لیے انڈیا کو دی گئی تھی
انڈیاکی طرف سے ایران کے سیستان و بلوچستان صوبے میں خلیج عمان میں اس بندرگاہ پر ٹرمینل تعمیر کیا جا رہا ہے۔ سنہ 2024 میں دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس بندرگاہ کو چلانے کی ذمہ داری دس برس کے لیے انڈیا کو دی گئی تھی۔
اس معاہدے کے تحت انڈیا کو روس، وسطی ایشیا اور یورپ تک تجارت کا ایک متبادل راستہ مل گیا تھا۔
اس دوران انڈیا کے ذہن میں پاکستان میں چین کی مدد سے تعمیر کیےجانے والا گوادر پراجیکٹ بھی تھا۔ انڈیا نے سنہ 2003 میں ہیچابہار بندرگاہتعمیر کرنے کی تجویز ایران کو پیش کی تھی تاکہ انڈین مصنوعات پاکستان سے گزرے بغیر ’انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘ کے ذریعے ریل اور سڑک کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا پہنچ سکیں۔‘
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازع اور پابندیوں کے سبب اس پراجیکٹ میں تاخیر ہوتی رہی تھی۔
انڈین تجزیہ کار نروپما سبرامنمین کہتی ہیں امریکہ کی نئی پابندی کے فیصلے سے اگرچہ انڈیا کو فوری طور پر دھچکا لگا ہے لیکن ان کے خیال میں ’چابہار پر پابندی کا ہدف انڈیا نہیں بلکہ ایران ہے۔ امریکہ اس مرحلے پر ایران کو مزید تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس کا مقصد ایران کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانا ہے۔‘
’اس فیصلے کے سبب کنٹینرز اور کرین وغیرہ فراہم کرنے والی اور بحری جہازوں اور بندرگاہوں کا انشورنس کرنے والی بین الاقوامی کمپنیاں پابندی سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹ جائیں گی۔‘
امریکہ نے تجارتی معاہدہ طے نہ ہونےکے بعد انڈیا پر پہلے 25 فیصد ٹیرف لگایا تھا اور اس کے بعد روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں مزید 25 فیصد اضافی ٹیرف نافذ کر دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود بھی انڈیا نے روس سے تیل خریدنا بند نہیں کیا۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افئیرز سے منسلک سینیئر فیلو ڈاکٹرفضل الرحمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انڈیا کے لیے ویٹ اینڈ واچ (انتظار کرو اور دیکھو) والی صورتحال ہے اور یہ معاملہ روس سے تیل کی خریداری والے معاملے سے مختلف ہے۔‘
ان کے خیال میں ’انڈیا امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ انڈیا کو یہ معلوم ہے کہ صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی تیزی سے بدلتی رہتی ہے، وہ یہ دیکھے گا کہ یہ پالیسی کب تک قائم رہتی ہے۔‘
کیا ٹرمپ اور مودی کے درمیان خوش کلامی تعلقات میں بہتری لا سکے گی؟ٹرمپ کے ’عظیم دوست‘: انڈیا میں امریکہ کے نئے نامزد سفیر کو ’نئی دہلی کے چہرے پر طمانچہ‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟50 فیصد امریکی ٹیرف کے اطلاق کے بعد انڈین فیکٹریوں میں ’خوفناک‘ خاموشی: ’مال موجود ہے لیکن خریدار کوئی نہیں‘امریکی ’پابندیوں‘ کے بعد انڈیا کی چین سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش: کیا پوتن مودی کی مشکل کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟