Suppliedلبنان میں ہونے والے پیجر حملوں میں نایفہ کا چہرہ اور ہاتھ متاثر ہوئے
نایفہ کالا چشمہ پہنتی ہیں وہ یہ دھوپ سے بچنے کے لیے نہیں لگاتیں بلکہ وہ چاہتی ہیں کہ سامنے والے اُن کے چہرے پر اُس سوراخ کو نہ دیکھ لیں جہاں پہلے آنکھ ہوتی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’اُن کی آنکھ کا سفید حصہ ختم ہو گیا اور آنکھ کے ریٹنا اور قرنیہ کو دماغ سے منسلک کرنے والی نسیں مکمل طور پر ختم ہو گئیں ہیں۔‘
اسرائیل کی جانب سے لبنان میں کیے جانے والے پیجر حملوں کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد بی بی سی نے ان حملوں میں زخمی ہونے والے افراد اور حکومت میں شامل افراد سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُس دن ہوا کیا تھا اور اس حملے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
بعض افراد سمجھتے ہیں کہ یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
نایفہ کے گھر میں اُن کی ایک تصویر آویزاں ہے۔ جس میں اُن کے کشادہ گہری آنکھیں اور خوبصورتی سے بنی ہوئی بھنویں نمایاں ہیں۔ تصویر میں وہ مسکرا رہیں ہیں۔ اُن کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں بند ہیں جسسے انھوں نے کندھوں پر لٹکا ہوا بیگ پکڑ رکھا ہے۔
لیکن اب یہ انگلیاں غائب ہیں۔ اُن کے چہرے پر نشان ہیں اور وہ اتنا بگڑ گیا ہے کہ پہچانا نہیں جا رہا ہے۔ ہمیں اُن کی والدہ سے تصدیق کرنا پڑی کہ کیا یہ واقعی اُنھی کی تصویر ہے۔
29 سالہ نایفہ کے لیے 17 ستمبر بالکل ایک عام دن تھا۔۔ جب تک کہ اچانک لبنان کے مختلف حصوں میں لوگوں کے ہاتھوں میں پیجر پھٹنے نہ لگ گئے۔
اگلے ہی دن واکی ٹاکیز بھی دھماکے سے پھٹنے لگے۔ ان دونوں حملوں میں بچوں سمیت 37 افراد ہلاک ہوئے اور تین ہزار افراد زخمی ہوئے۔
زخمیوں میں نایفہ بھی شامل ہیں جو بیروت کے مضافات میں سینٹ جورج ہسپتال میں کام کرتی تھیں، یہ ہسپتال حزب اللہ کے طبی نیٹ ورک کا حصہ تھا۔
شیعہ مسلمانوں کی تنظیم حزب اللہ ایک سیاسی جماعت اور عسکری فورس ہے لیکن یہ تنظیم صحت اور طبی خدمات سے لے کر سماجی بہبود کے اداروں پر مشتمل وسیع نیٹ ورک چلاتی ہے۔
اسرائیل کے اس حملے کا ہدف حزب اللہ تھی۔
اس دن تقریباً سہ پہر تین بجے، نایفہ نے ہسپتال کے صفائی اور جراثیم کشی کے شعبے میں بطور نگران اپنی ڈیوٹی کا آغاز ہی کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’میرا کام کسی ایک جگہ کے بجائے ہسپتال کے تمام وارڈز میں تھا اور جب کسی کو میری ضرورت ہوتی تو وہ مجھے پیج (پیجر پر پیغام بھیجنا) کرتے۔‘
Suppliedحملے سے پہلے لی گئی نایفہ کی تصویر
نایفہ ڈیوٹی کے دوران پیجر اپنے پاس رکھتی تھیں۔اس ملازمت میں انھیں بمشکل چار ماہ ہوئے تھے اور صرف 20 دن پہلے ہی انھیں نیا متبادل پیجر دیا گیا تھا۔
وہ اپنے آفس میں ہی تھیں جب یہ سب کچھ ہونا شروع ہوا۔
نایفہ نے بتایا کہ عموماً پیجر پر نمبر ہی آتا تھا اور وہ قریبی فون لائن سے اُس نمبر پر کال کرتی تھیں ’وہ کہتے تھے کہ ہم فلاں فلاں ڈپارٹمنٹ سے بات کر رہے اور ہمیں کچھ چاہیے۔‘
نایفہ نے جب پیجر دیکھا تو سکرین غیر معمولی طور پر بہت سیاہ تھی، میسج کو پڑھنے کے لیے وہ اُسے آنکھوں کے قریب لائیں اور اچانک دھماکہ ہو گیا جس نے اُن کی زندگی برباد کر دی۔
اسی دوران لبنان اور شام کے مختلف علاقوں میں ہزاروں پیچرز دھماکوں سے پھٹنے لگے۔
یہ پیجرز حزب اللہ نے خریدے تھے۔
حزب اللہ کو امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کا شمار طاقتور ترین تنظیموں میں ہوتا ہے اور 2022 کے الیکشن میں حزب اللہ نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں تھیں۔
یہ پیجرز حزب اللہ کے جنگجؤوں اور طبی اور سماجی بہبود کے اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے خریدے گئے تھے۔
لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟لبنان میں پراسرار دھماکے، حزب اللہ اور ’خفیہ جنگ‘: ’جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی، وہ دوسری سے لڑے گا‘آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیالبنان پیجر بم دھماکوں میں مبینہ طور پر ملوث انڈین نژاد شخص کی تلاش کے لیے بین الاقوامی وارنٹ جاری
حزب اللہ طویل عرصے سے لبنان کی حکومت کی نگرانی یا اجازت نامے کے بغیر مختلف آلات اور آسلحے خریدتی رہی ہے اور ان پیجرز کا معاملہ کچھ مختلف نہیں ہے۔
اکثر لوگوں کے پیچرز میں اُس وقت دھماکہ ہوا جب وہ مختلف جگہوں جیسے سپر مارکیٹ، ہسپتال یا سڑکوں پر گھوم پھر رہے تھے۔ ان دھماکوں میں ہلاکتیں ہوئیں، لوگ زخمی ہوئے اور ہزاروں معذور ہوئے۔
اگرچہ پہلے یہ شبہ تھا کہ اس کارروائی میں اسرائیل ملوث ہے لیکن پھر اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے دو ماہ کے بعد یہ تسلیم کیا کہ پیجر حملے اسرائیل نے کروائے تھے۔
اسرائیل کی حکومت نے اب تک ان حملوں کا قانون جواز پیش نہیں کیا ہے اور بی بی سی کے سوالات کا بھی جواب نہیں دیا ہے۔
اسرائیل کے دو سابق انٹیلیجنس افسران نے امریکی نیوز نیٹ ورک سی بی ایس کو بتایا کہ پیجرز کو بوبی ٹریپ کیا گیا اور انھیں شیل کمپنیوں کے ذریعے حزب اللہ کو فروخت کیا گیا، جن میں سے ایک ہنگری میں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ واکیز ٹاکیز میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کا کام دس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔
Suppliedاس حملے میں نایفہ کے ہاتھ بھی متاثر ہوئے
دھماکوں سے کچھ دیر قبل لبنان کی کابینہ کا اجلاس شروع ہونے والا تھا۔ وزار بشمول وزیراعظم نجیب میقاتی بھی ہیڈ کوارٹر میں موجود تھے کہ انھیں پیجر حملوں کے بارے میں اطلاعات آنے لگیں۔
کابینہ میں حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے وزرا بھی موجود تھے، جن میں سے ایک اس وقت کے وزیر داخلہ بسام مولوی کے قریب بیٹھے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کمرے میں یہ خوف پھیل گیا تھا کہ کہیں وہاں موجود حزب اللہ کے وزیروں میں سے کسی کے پاس پیجر نہ ہو، تو بسام مولوی نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ اس خیال کو مسترد کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں کسی نے وزیروں سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کے پاس پیجر ہیں یا نہیں۔‘
قومی امکان ہے کہ انھیں خود بھی اس کا اندازہ نہیں تھا۔
پیجر حملوں کے فوری بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر داخلہ نے کہا تھا سب کچھ بہت جلدی ہو رہا تھا۔
انھوں نے بتایا تھا کہ سکیورٹی فورسز بھی بہت خوف زدہ تھیں اور خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے واکیز ٹاکیز بھی استعمال کرنے چھوڑ دیے تھے۔
بسام مولوی نے بتایا کہ ’یقیناً ایسے لوگ جو یہ وائرلیس ڈیوائسز استعمال کرتے ہیں، ان میں کچھ الجھن ضرور پیدا ہوئی تھی، حتیٰ کہ لبنانی سرکاری سکیورٹی فورسز میں بھی جو یا تو ان ڈیوائسز کی جانچ کر رہی تھیں یا پھر کچھ وقت کے لیے ان کے استعمال میں کمی کر دی گئی تھی۔‘
’یہاں تک کہ وزارتِ داخلہ میں بھی ہمارے عملے اور افسران نے حملوں کے بعد کے دو دنوں میں کچھ احتیاطی تدابیر اور اقدامات اختیار کیے۔‘
اس سے واضح ہو گیا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین حکام کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ سکیورٹی کو کس حد خطرہ لاحق ہوا ہے۔
دنیا بھر سے ان حملوں کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے ایسے بین الاقوامی قوانین کی ’خوفناک‘ خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اب بھی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے رمزی کائس کا کہنا ہے کہ ’یہ حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔‘
وہ اس حملے کو ’غیر قانونی اور بلا امتیاز‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بوبی ٹریپ آلات کے استعمال پر پابندی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے رمزی کائس کا کہنا ہے کہ چونکہ دھماکے بیک وقت ہوئے تھے اس لیے اس بات کو یقینی بنانا ممکن نہیں تھا کہ جب یہ دھماکے ہوئے تو اُس وقت یہ پیجرز مطلوبہ ہدف کے ہاتھ میں ہی تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جیسا کہ ہم نے اس دن دیکھا ہے، وہاں ایسے بچے تھے جن کے پاس پیجرز تھے، زخمی ہونے والوں اور مرنے والوں طبی کارکن بھی شامل تھے۔‘
Houssam Shbaro/Anadolu via Getty Imagesپیچرز میں دھماکوں سے لبنان میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔
گذشتہ سال اپریل میں لبنان کی کابینہ نے وزارتِ خارجہ کو ہدایت دی کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں ایک درخواست دائر کرے تاکہ اسے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے لبنانی سرزمین پر مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات اور ان کے مقدمات چلانے کا اختیار حاصل ہو۔
لبنان آئی سی سی کا رکن نہیں ہے لیکن اس درخواست کے ذریعے اُسے یہ اختیار ملا تھا کہ وہ کسی خاص مدت میں متعلقہ جرائم کی تحقیقات کرکے مقدمہ چلا سکے۔
لیکن بعد میں کوئی وجہ بتائے بغیر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت مختلف جانب سے آنے والے دباؤ کے سبب پچھے ہٹی کیونکہ بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کا دائرہ اختیار ان معاملات تک وسیع ہو سکتا ہے جہاں لبنانی حکومت تحقیقات نہیں کرنا چاہتی ہے۔
پیجر حملے اُس وقت ہوئے جب پہلے ہی 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد غزہ میں لڑائی جاری تھی اور اس دوران حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان قدرے کم شدت کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔۔
پیچر حملوں کے بعد یہ نمایاں تھا کہ کشیدگی اب مزید بڑھے گی۔
لبنان کے سابق وزیر داخلہ بسام مولوی کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح اشارہ تھا کہ لبنان میں پرتشدد جنگ شروع ہو رہی ہے۔‘
اس رات ملک بھر کے ہسپتالوں کے مناظر پریشان کن تھے۔ ڈاکٹروں نے کئی کئی گھنٹوں تک ایمرجنسی مراکز میں زخمیوں کی دیکھ بھال کی۔
ہم نے اس حملے کے اگلے ہی دن ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر الیاس وارک سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ اُس ایک رات میں انھوں نے اتنی زیادہ آنکھوں کی سرجریاں کیں جتنی انھوں نے اپنے پورے پیشہ ورانہ کیرئیر میں کی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض نوجوان تھے اور بعض کی تو دونوں آنکھیں نکالنی پڑیں۔ ’میں نے اپنے پوری زندگی میں ایسے مناظر کبھی نہیں دیکھے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق اس حملے 500 افراد کی آنکھیں متاثر ہوئی۔
نایفہ نہیں جانتی تھی کہ لبنان میں کیا ہو رہا ہے۔ اس حملے کے 10 دن بعد تک وہ ہسپتال میں زیر علاج رہیں اور جب اُن کی آنکھ کھولی گئی تو کسی حد تک اُن کی یاداشت جا چکی تھی۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والے تکلیف دہ علاج کے بعد اُن کی یاداشت واپس آ گئی ہے۔
حزب اللہ کی ایک ذیلی تنظیم نے اُن کی تھراپی، آپریشن اور علاج معالجے کے اخراجات برداشت کیے ہیں۔
نایفہ لبنان میں رہنے والے دیگر شیعوں کی طرح حزب اللہ کی حمایتی ہیں۔
انھوں نے سائیکالوجی میں گریجویٹ کیا تھا اور اُن کے پاس کمپیوٹر پروگرامنگ اور اکاؤنٹنگ کے سرٹیفکیٹ بھی تھے لیکن طویل عرصے تک روزگار نہ ملنے کے بعد انھوں ہسپتال میں نوکری کر لی تھی۔
لبنان کے معاشی مسائل کے سبب بہت سے نوجوان روزگار کی تلاش میں جدوجہد کر رہے ہیں۔
اب، وہ کئی دن تک اپنی سرجریوں کا انتظار کرتی ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت گھر میں گزارتی ہیں جہاں اُن کی والدہ دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں۔
اپنی تکلیف کے باوجود، وہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ گرمجوشی سے ملتی ہیں اور بعض اوقات بے ساختہ ہنسنے لگتی ہیں۔
جب انُ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی اس ہسپتال میں پیجرز استعمال کر رہی ہیں۔
انھوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’نہیں۔‘
ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا چیز انھیں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے؟
انھوں نے فوراً جواب دیا ’ایمان‘۔
لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟لبنان میں پراسرار دھماکے، حزب اللہ اور ’خفیہ جنگ‘: ’جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی، وہ دوسری سے لڑے گا‘آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیاحزب اللہ: ’اسرائیل کا سب سے مشکل حریف‘ ماضی کے مقابلے میں آج کتنا طاقتور ہے؟ایرانی سائنسدانوں کے قتل سے لبنان میں ’پیجر اور واکی ٹاکی بم‘ تک: موساد کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی کہانیایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟