AFP via Getty Images
بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے دوران اب ججز، وکلا اور دیگر متعلقہ افراد کی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک خفیہ عدالتی نظام کی منظوری دی گئی ہے۔
اس نظام کے تحت ایسے مقدمات کو چلانے والے ججز، وکلا اور گواہان سمیت دیگر متعلقہ لوگوں کے ناموں کو نہ صرف خفیہ رکھا جائے گا بلکہ اس مقصد کے لیے آواز تبدیل کرنے والی ٹیکنالوجی کو بھی استعمال میں لایا جائے گا۔
بلوچستان اسمبلی نے اس سلسلے میں اپنے رواں اجلاس میں انسداد دہشت گردی بلوچستان (ترمیمی) بل 2025 کی منظوری دی جس کا مقصد ’انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں ججز، گواہوں اور وکلا سمیت دیگر متعلقہ افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘
’حق دو‘ تحریک کے رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اب فیصلے ’واٹس ایپ پر آئیں گے۔‘
تاہم بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر معمولی حالات‘ میں ’غیر معمولی فیصلے‘ کرنے پڑتے ہیں۔
آئینی اور قانونی ماہرین نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
سینیٹر کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس ترمیم سے بہتر تو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کا عدالتی نظام قائم کر کے اس سے مرضی کے فیصلے لیے جائیں۔
بلوچستان کے انسداد دہشت گردی قانون میں کیا ترامیم کی گئی ہے؟
انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترامیم اس کے سیکشن 21 (AAA) میں کی گئی ہیں۔
ان ترامیم کے مطابق جب نامزد اتھارٹی یہ قرار دے کہ کسی مقدمہ یا مقدمات کے سلسلے میں ججز، وکلا، سرکاری وکیل، گواہان، صفائی کے وکیل یا دیگر اشخاص کی غیر معمولی حفاظت ناگزیر ہے تو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تین ججوں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیں گے۔ اس کی فہرست نامزد اتھارٹی کو ارسال کی جائے گی۔ نامزد اتھارٹی ان میں سے ایک کو مقدمے کی سماعت اور کارروائی کی صدارت کے لیے مقرر کرے گی۔
نامزد اتھارٹی پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان کی مشاورت سے پانچ تک سرکاری وکلا کا پینل تشکیل دے گی جن میں سے ایک کو مقدمے کی پیروی کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
ترامیم میں کہا گیا ہے کہ ججز، سرکاری وکیل، گواہان، صفائی کے وکیل اور مقدمے سے منسلک دیگر افراد کی اصل شناخت کو ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ عدالتی ریکارڈ میں صرف عہدوں کا ذکر ہوگا۔ تمام عدالتی شناخت پوشیدہ رکھ کر دستخط کیے جائیں گے۔ گواہوں کی شناخت نامزد اتھارٹی کی جانب سے تفویض کردہ خصوصی کوڈ یا علامتی شناخت کے ذریعے کی جائے گی۔
ترامیم کے تحت ججوں اور سرکاری وکلا کی نامزدگی یا پینل کی تشکیل کو کسی بھی صورت سرکاری گزیٹ میں شائع نہیں کیا جائے گا۔ مکمل ریکارڈ سر بمہر رکھا جائے گا اور صرف چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ اور نامزد اتھارٹی کو بھیجا جائے گا۔ ایسے مقدمات کی کارروائی جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع مثلاً ویڈیو کانفرنسنگ، الیکٹرانک روابط اور آڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ کی جا سکے گی۔ مزید برآں شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لیے آواز بدلنے کی ٹیکنالوجی بھی استعمال میں لائی جائے گی۔
’دہشتگردوں کے ساتھ سیلفی بنانا جرم ہے‘: حکومتِ بلوچستان کو یہ اشتہار دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟سکیورٹی اداروں کو ’غیر معمولی‘ حراستی اختیارات کیوں دیے جا رہے ہیں؟بلوچستان میں مشتبہ افراد کو بنا وارنٹ حراستی مراکز میں رکھنے کا متنازع قانون: ’یہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنائے گا‘خوف کے سائے میں پنجاب سے بلوچستان کا سفر: ’اگر میری بس کو بھی اسی طرح روک لیا گیا تو کیا ہو گا‘
ترامیم کے مطابق جہاں کہیں کمرۂ عدالت بالمشافہ/جسمانی سماعت کے لیے مستعمل ہو وہاں لازم ہوگا کہ وہ ایک مقفل محفوظ احاطے میں واقع ہو جس تک رسائی صرف ججز، اور استغاثہ، گواہان، وکلا صفائی اور مقدمہ سے براہ راست متعلقہ دیگر متعلقہ اشخاص تک محدود رہے۔ مذکورہ احاطہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کی سلامتی، حفاظت کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے حسب ضرورت ایسے آلات اور حفاظتی انتظامات سے آراستہ رکھا جائے گا جنھیں ضروری اور مناسب قرار دیا جائے۔
اس کے تحت اگر تحفظ کے تقاضوں یا ملزم کی ترسیل میں لاجسٹک رکاوٹیں ہوں تو سماعت جیل یا کسی دیگر محفوظ مقام سے بذریعہ ورچوئل انتظام منعقد کی جا سکے گی۔ اس کے مطابق 'عدالتی کارروائی کی سالمیت اور طریقہ کار کی حرمت کے استحکام' کے لیے ملزم کی شناخت کی نامزد اتھارٹی کے ذریعے توثیق کی جائے گی۔ مزید برآں جہاں ججز، وکلا اور وکلا استغاثہ، گواہان، وکلا صفائی اور دیگر متعلقہ اشخاص کی شناخت کی افشا کی روک تھام مقصود ہو تو وہاں کارروائی 'علیحدہ مقام سے بذریعہ ویڈیو رابطہ/ لنک منعقد کی جاسکے گی۔'
ترامیم کے مطابق اس دفعہ کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے حکومت بلوچستان ایسے دیگر اقدامات اختیار کرنے کے مجاز ہوگی جنہیں وہ مناسب اور موضوع سمجھے۔
ترامیم کے مطابق تمام دفعات ضروری تبدیلیوں کے ساتھ وہاں متعلقہ جج صاحبان، وکلا ، وکلا استغاثہ، گواہان، وکلا صفائی اور اپیل سے متعلق تمام متعلقہ اشخاص پر بھی لاگو ہوں گی۔
ترامیم شدہ دفعات کے مقاصد کی تکمیل کے لیے حکومت بلوچستان ایک نامزد اتھارٹی مقرر کرے گی جو گریڈ 21 یا اس کے مساوی درجے کا افسر ہوگا۔ اس تقرری کا مقصد 'ان دفعات کے تحت اختیارات کی ادائیگی کے ضمن میں چیف جسٹس سے مشاورت اور ہم آہنگی کرنا اور فہرست کردہ جج صاحبان کو مقدمات کی تخصیص، تفویض کرنا اور حکومت بلوچستان کے ساتھ مستقل مشاورت و روابط برقرار رکھنا ہے۔'
Getty Imagesمارچ 2025 میں کالعدم بی ایل اے نے ایک بس پر حملہ کیا تھا ’اپنے خلاف گواہوں کا پتا نہیں چلے گا‘
اس ترمیم کو جب بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا گیا تو اس وقت حزب اختلاف کے صرف دو، تین ارکان ایوان میں موجود تھے۔
ان میں شامل مولانا ہدایت الرحمان نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ترامیم کے بعد کسی کو اپنے خلاف گواہوں کا پتہ نہیں چلے گا۔ ان کی رائے میں 'قانون کی منظوری کے بعد اگر کوئی بے گناہ مارا گیا یا بے انصافی کا شکار ہوا تو ذمہ دار موجودہ حکومت ہوگی۔'
انھوں نے اس ترمیم کی بجائے عدالتی نظام میں اصلاحات اور بہتری کی تجویز دی تھی۔
جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ قانون 'کسی عام قتل، کسی سیاسی کارکن پر لاگو نہیں ہونا۔ یہ وہاں لاگو ہوگا جہاں پر دہشت گردی ہوتی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ صرف 'پاکستان یا بلوچستان میں نہیں آپ دنیا میں دیکھ لیں کہ ان ممالک میں جہاں ہم کہتے ہیں جمہوریت ہے وہاں بھی مخصوص حالات میں ایسے قوانین لائے گئے۔'
انھوں نے مثالیں دیں کہ 'امریکہ جیسے ملک میں جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو وہاں خصوصی قوانین بنائے گئے۔ فرانس میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا تو وہاں کی پارلیمنٹ نے ایک دن کے اندر قانون تبدیل کیا۔'
وزیر اعلی نے کہا کہ اس قانون میں 'کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ ملزم کو وکیل صفائی فراہم نہیں کیا جائے گا۔ وکیل صفائی کے سامنے گواہان پیش ہوں گے اور یہی ججز ہوں گے۔'
انھوں نے سوال کیا کہ 'کیا ہم نے اپنے ججز اور پراسیکوٹرز کو تحفظ فراہم نہیں کرنا؟'
آئینی اور قانونی ماہرین کے سوالات
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ 'ہم ایسے قوانین پر کیا تبصرہ کریں، بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو منظور کرنے والوں کو بس اللہ ہی سمجھائے۔'
انھوں نے کہا کہ 'آئین اور قانون میں یہ ہے کہ مقدمات کو کھلی عدالت میں چلنا چاہیے۔ اس ترمیم کے بعد کھلی عدالت کا اصول کہاں گیا؟ اس قانون کے تحت تو عدالتیں بھی خفیہ ہوں گی۔'
انھوں نے کہا کہ اگر ملزم کو اپنے خلاف پیش ہونے والے گواہ کا پتہ نہیں چلے گا تو اس کے بارے میں ان کا وکیل ان سے کیا ہدایت لے سکے گا۔
کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر عدالتوں سے 'اپنی مرضی کے' فیصلے لینے ہیں تو پھر ایسی ترامیم کی بجائے 'مصنوعی ذہانت والا جج یا عدالت بنا دیں۔'
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے منسلک حبیب طاہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قوانین 'ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ یہ تو بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'آئین میں یہ ہے کہ کسی بھی ملزم کے خلاف فیئر ٹرائل ہونا چاہیے۔۔۔ جب سب کچھ خفیہ ہوگا تو فیئر ٹرائل کہاں سے آئے گا؟'
'جب آپ کو وکیل تک رسائی نہ ہو، عدالتیں خفیہ ہوں اور پھر سکیورٹی اداروں کی مداخلت ہو تو پھر انصاف کیسے ہوسکتا ہے'
وہ سمجھتے ہیں کہ ججوں اور وکلا کی سکیورٹی 'سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن باقی چیزیں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔'
انھوں نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ اس کے لیے سول سوسائٹی اور شعبے کے ماہرین سے مشاورت نہیں کی گئی۔
بلوچستان میں مشتبہ افراد کو بنا وارنٹ حراستی مراکز میں رکھنے کا متنازع قانون: ’یہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنائے گا‘’دہشتگردوں کے ساتھ سیلفی بنانا جرم ہے‘: حکومتِ بلوچستان کو یہ اشتہار دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟خوف کے سائے میں پنجاب سے بلوچستان کا سفر: ’اگر میری بس کو بھی اسی طرح روک لیا گیا تو کیا ہو گا‘قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی انسداد دہشتگردی کا ترمیمی بل منظور: سکیورٹی اداروں کو ’غیر معمولی‘ حراستی اختیارات کیوں دیے جا رہے ہیں؟کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم حملے میں 26 افراد ہلاک: ’دھوئیں کے بادل چھٹے تو دیکھا کئی لوگ زمین پر گرے ہوئے تھے‘