Office of Ethiopia's Prime Ministerیہ ڈیم سوڈان کی سرحد کے قریب واقع ہے
ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک مصر کو سفارتی میدان میں شکست دینے کے بعد ایتھوپیا دریائے نیل پر دنیا کے سب سے بڑے ڈیمز میں سے ایک کا افتتاح کرنے جا رہا ہے۔
یہ ڈیم اس نوآبادیاتی دور کے اس معاہدے کو ختم کر دے گا جس کے تحت برطانیہ نے مصر کو دریائے نیل کے پانی کا بڑا حصہ دیا تھا۔
یہ ڈیم ایتھوپیا کی جھیل ’بلیو نیل‘ پر بنایا گیا ہے جس پر تقریباً پانچ ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ اس میں ایک اندازے کے مطابق گریٹر لندن جتنا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ نسلی اعتبار سے بٹی ہوئی ایتھوپین قوم کو اس ڈیم کے ذریعے متحد ہونے کا موقع ملا ہے۔
جنوبی افریقہ میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف سکیورٹی سٹڈیز سے منسلک تجزیہ کار موزس کرسپس اوکیلو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایتھوپیا کے لوگ روٹی کھانے پر اختلاف کر سکتے ہیں مگر سب ڈیم کی تعمیر نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اسے دریا کے بیچ میں کنکریٹ کے ڈھانچے کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ ڈیم کی تعمیر کے لیے ملک کے اندر اور باہر سے امداد جمع کی گئی تھی۔ جب 2011 میں اس کی تعمیر شروع ہوئی تو امداد کے لیے بارہا اپیلیں کی گئں تھیں۔‘
’حکومت نے بانڈز کا بھی اجرا کیا جو کمپنیوں اور ملازمین نے خریدے۔ ایتھوپیا کے عوام اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اس کا افتتاح قوم کے لیے باعث فخر ہے۔‘
اسے گرینڈ ایتھوپین ریناسانس ڈیم (گرڈ) کا نام دیا گیا ہے۔ تجزیہ کار کے مطابق یہ افریقہ کا سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ ہے جس سے توقع ہے کہ نہ صرف ساڑھے 13 کروڑ آبادی کی توانائی کی ضرورت پوری ہو گی بلکہ غیر ملکی زرمبادلہ بھی حاصل ہو گا۔
ایتھوپیا اپنے پڑوسیوں کینیا اور جبوتی کو بجلی فروخت کرنا چاہتا ہے۔ تجزیہ کار کے مطابق اس کا ارادہ ہے کہ بحیرہ احمر پر ٹرانسمیشن نیٹ ورک بنایا جائے گا اور بجلی مشرق وسطیٰ کی ریاستوں جیسے سعودی عرب کو بھی فروخت کی جائے گی۔
AFP/Getty Imagesمبصرین کے مطابق ایتھوپیا کے عوام اس ڈیم کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اس کا افتتاح قوم کے لیے باعث فخر ہے
لیکن مصر کو خدشہ ہے کہ اس ڈیم سے ملک میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا اور پانی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
مصر کی قاہرہ یونیورسٹی کے جیولوجسٹ پروفیسر عباس شراکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تقریباً 93 فیصد مصر صحرا ہے جہاں لوگ آباد نہیں ہیں۔ 10 کروڑ 80 لاکھ کی آبادی دریائے نیل پر انحصار کرتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مصر تہذیب دریائے نیل پر بنی تھی۔ یہی ہماری زندگی ہے۔‘
انھوں نے منتبہ کیا کہ ڈیم کی وجہ سے مصر ’پانی کی غربت‘ کا شکار ہو سکتا ہے۔
پروفیسر شراکی نے کہا کہ ’یہ 64 ارب کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرے گا جو مصر کی طرف بہتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بڑا نقصان دہ ہوگا۔ ہمارا سالانہ اوسط شیئر 55.5 ارب کیوبک میٹر ہے۔ ہمارے پاس نیل کے علاوہ پانی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا ڈیم، جو چین میں واقع ہے، اس کے مقابلے میں یہ گرڈ ڈیم دگنا پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔
گرڈ ڈیم پر ایتھوپیا کے سابق ثالث فقہمد نگیش نے بی بی سی کو بتایا کہ سفارتی دباؤ اور مصر کے ساتھ جنگ کے خدشے کے باوجود ایتھوپیا نے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ جاری رکھا جو کہ اس کی ضرورت ہے۔
ایتھوپیا میں 60 فیصد آبادی کو بجلی میسر نہیں جو یہ ڈیم فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ٹرانسمیشن نیٹ ورک بنانا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ملک میں پہاڑی سلسلے بھی موجود ہیں۔
سلال ڈیم: کیا انڈیا کے ڈیمز پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں؟ڈیموں کی تعمیر نے زمین کو نئی شکل کیسے دی؟’دنیا کا سب سے بڑا ڈیم‘: چین کا وہ منصوبہ جو انڈیا کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہےسوات میں سیلاب کے بعد مینگورہ بازار کیچڑ کے ڈھیر میں تبدیل: ’ملبے نے پل کے ساتھ پھنس کر ڈیم کی شکل اختیار کر لی‘EPAپانی کی قلت کی وجہ سے مصر میں چاول کی کاشت کم ہوئی ہے
پروفیسر شراکی کا کہنا ہے کہ بلیو نیل ایک ’بین الاقوامی دریا‘ ہے اس کے باوجود ایتھوپیا نے ڈیم بنانے کا یکطرفہ فیصلہ کیا۔ ایتھوپیا ایسا کرنے میں صرف اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ اس وقت طویل مدت کے بعد مصر کے سربراہ حسنی مبارک کی حکومت گرائی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مصر میں حالات خراب تھے۔ کوئی صدر نہیں تھا۔ فوج ملک کے اندر مصروف تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مصر اب پانی کے متبادل ذرائع تلاش کر رہا ہے۔ اس کی جانب سے دنیا کا سب سے بڑا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا جا رہا ہے جس کے لیے پانچ ہزار کنویں کھودے جائیں گے۔
ان کے مطابق مصر اب زرعی شعبے میں بھی اصلاحات لانے پر مجبور ہوا ہے۔ مثلاً چاول کی پیداوار کے لیے زمین محدود کی گئی ہے، یعنی 20 لاکھ ایکڑ کی بجائے اب 10 لاکھ ایکڑ کے رقبے پر چاول کاشت کیا جائے گا کیونکہ اس فصل کو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ ’اگر آپ مصر کی طرف بہنے والا 64 ارب کیوبک میٹر پانی روکیں گے تو کیا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا؟‘ انھوں نے ایتھوپیا کے اس دعوے کی تردید کی کہ مصر کو ڈیم کی تعمیر سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
فقہمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ایتھوپیا اس دور میں واپس نہیں جائے گا جب مصر کو پانی کی ضمانت دی گئی تھی۔ تاہم ایتھوپیا ’پانی چھوڑنے اور ڈیم کی حفاظت سے متعلق بات چیت کے لیے تیار ہے۔‘
کینیا میں قائم تھنک ٹینک ساہن ریسرچ سے منسلک راشد عابدی کہتے ہیں کہ گرڈ ڈیم کی تکمیل سے برطانوی راج کے آخر میں کیے گئے اس معاہدے کا اختتام ہوا ہے جس کے تحت دریائے نیل کے پانی کا 80 فیصد حصہ مصر کو دیا گیا تھا۔
عابدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’برطانیہ نے ایسا مصر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا تاکہ اس کے اپنے مفادات کو تحفظ مل سکے کیونکہ مصر ایک سٹریٹیجک ریاست ہے جو نہر سوئز کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ نہر یورپ کا دروازہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن ایتھوپیا نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ مصر کو نقصان ہوا ہے۔ اس نے دریائے نیل سے جڑی اپنی خاص حیثیت کھو دی ہے۔‘
White House via @realDonaldTrumpٹرمپ کی 2019 میں مصر، سوڈان اور ایتھوپیا سے بات چیت
ایتھوپیا کے اس وقت کے وزیر اعظم ملس زناوی نے 2011 میں ڈیم بنانے کا اعلان کیا تھا جسے اس وقت صرف ’پروجیکٹ ایکس‘ کہا گیا تھا۔ اوکیلو کے مطابق یہ ان کا ’سیاسی ماسٹر سٹروک‘ تھا۔
اس کے ذریعے وہ عمل شروع ہوا جس کے بعد مصر نے نیل کے پانیوں کے استعمال کی ’ویٹو پاور‘ کھو دی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مصر نے ورلڈ بینک جیسے اداروں میں لابی کی تاکہ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے فنانسنگ نہ ہو سکے۔ اس سے ایتھوپیا کی حکومت کا عزم اور بھی مضبوط ہوا۔ اس نے اپنے ہی شہریوں سے امداد جمع کرنے کی مہم شروع کر دی۔‘
اوکیلو کہتے ہیں کہ ’ایتھوپیا کو کئی مقامی ذرائع سے پیسے ملے جبکہ ایگیڈ (مشرقی افریقہ کے علاقائی اتحاد) سے بھی کچھ مدد ملی۔ اسے دیگر ذرائع سے بھی پیسے ملے مگر اس بارے میں کھل کر بات نہیں کی جاتی۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے ’احمقانہ انداز میں‘ ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کی۔ انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے امریکی اتحادی مصر میں دریائے نیل کا بہاؤ کم ہو گا۔
ایتھوپیا نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈیم کو اس نے خود فنانس کیا ہے۔
اوکیلو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ڈیم پر ثالثی کرانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد، جنھیں پڑوسی ملک ارتریا کے ساتھ دشمنی ختم کرنے پر نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا، نے منع کر دیا کیونکہ انھیں لگا کہ امریکی صدر مصر کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اوکیلو کے مطابق ’ٹرمپ نے اس کا بُرا منایا۔ انھیں نوبیل امن انعام چاہیے تھا مگر یہ نہ صرف ابی کو ملا بلکہ انھوں نے ٹرمپ کے ساتھ کوئی ڈیل بھی نہیں کی۔‘
منگل کو گرڈ ڈیم کے افتتاح سے قبل مصر کے وزیر خارجہ بدر بدر عبدالعاطی نے ڈیم کے خلاف حکومتی موقف کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ مصر کے لیے پانی کی سلامتی ’ریڈ لائن‘ ہے اور یہ کہ یہ ڈیم مصر کی بقا کے لیے ایک خطرہ ہے۔
تاہم پروفیسر شراکی نے اس امکان کو مسترد کیا ہے کہ مصر اس معاملے پر ایتھوپیا کے خلاف جنگ چھیڑ دے گا۔
Office of Ethiopia's Prime Ministerوزیر اعظم ابی احمد کے مطابق یہ ڈیم ایتھوپیا کو عالمی ساکھ میں بہتری لائی ہے
ان کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ایک ہی پانی پیتے ہیں۔ دریائے نیل ان کی طرف سے آتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مصر مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔
فقہمد نے کہا کہ مصر گرڈ پر بمباری نہیں کرے گا کیونکہ یہ قدم ’خودکش‘ ہو گا۔ یہ سوڈان کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا جو ایتھوپیا کا پڑوسی ہے کیونکہ ڈیم سے پانی کا تیزی سے اخراج ہو گا اور اس سے دونوں ملکوں میں تباہی ہو سکتی ہے۔
مصری جیولوجسٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایتھوپیا اس ڈیم کے ذریعے ’فوجی طاقت‘ ظاہر کرے گا، خاص کر سوڈان کے خلاف جو کہ مصر کا اہم اتحادی ہے۔ بلیو نیل اور وائٹ نیل آپس میں خرطوم کے مقام پر ملتے ہیں۔
پروفیسر شراکی کا کہنا ہے کہ ’اگر ایتھوپیا اور سوڈان کے بیچ کشیدگی ہوتی ہے تو ایتھوپیا کوئی ہتھیار یا طیارے استعمال کرنے کی بجائے اس ڈیم کے ذریعے سوڈان کو تباہ کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ گرڈ ڈیم کی وجہ سے ’زلزلوں کا ایک نیا سلسلہ‘ شروع ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ 64 ارب کیوبک میٹر پانی جمع کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ وزن آتش فشاں پتھروں پر پڑے گا۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی مشرقی افریقہ کی رفٹ کا مقام ہے۔‘
ایتھوپیا نے ماضی میں کہا ہے کہ تحقیق سے پتا چلتا ہے مصر کی تشویش بے بنیاد ہے اور یہ کہ یہ ڈیم زلزلے کے خطرے سے دوچار علاقوں سے دور ہے۔
ڈیم کے افتتاح کے موقع پر ایتھوپیا کے عوام کا جذبہ مصر کی وجہ سے مانند نہیں پڑے گا بلکہ ان کی نظریں اگلے ہدف پر ہیں: بحیرہ احمر تک رسائی دوبارہ حاصل کرنا۔ 1991 میں ارتریا کی آزادی کے ساتھ یہ رسائی ایتھوپیا سے چھین لی گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے ایتھوپیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ بحیرہ احمر کو کھو دینا ’وہ غلطی تھی جس کی ہم کل تحصیح کریں گے۔‘
ابی نے کہا کہ ’سمندری بندرگاہ کا مسئلہ اب باعث شرمندگی نہیں۔ عالمی نقطہ نظر واضح ہے کہ کوئی بھی بڑا ملک ایسا نہیں جس کے پاس بندرگاہ تک رسائی نہ ہو۔ ہمیں یہ مذاکرات کے ذریعے ممکن بنانا ہے۔‘
ارتریا نے اس تبصرے کو رد کیا ہے۔ خدشہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پھر سے خراب ہو رہے ہیں۔ 90 کی دہائی کے اواخر میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اوکیلو کا کہنا ہے کہ ایتھوپیا کے عوام پر ڈیم کی وجہ سے قوم پرستی کا جنون سنوار ہے اور وہ اب بحیرہ احمر کی مہم کو بھی سنجیدہ لے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایتھوپیا نے تمام دباؤ کے باوجود ڈیم کی تکمیل ممکن بنائی۔ اب یہ سمندر تک رسائی واپس چاہتا ہے اور نیول فورس بنانا چاہتا ہے۔ یہ غیر واضح ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا۔ لیکن ایتھوپیا خود کو عظیم قوم سمجھتا ہے مگر کوئی عظیم قوم ایسی نہیں جو لینڈ لاکڈ (سمندر تک رسائی کے بغیر) ہو۔‘
سلال ڈیم: کیا انڈیا کے ڈیمز پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں؟’چین پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘: وہ ڈیم منصوبہ جسے انڈیا کے خلاف ایک ’بم‘ سمجھا جا رہا ہےسٹرکیں، سرنگیں، ڈیم اور ریلوے لائن: کیا انڈیا اور چین ہمالیہ میں نئی آفات کو دعوت دے رہے ہیں؟دیامر بھاشا ڈیم کے مقام پر ہزاروں سال قدیم پتھر کیا کہانی سناتے ہیں؟ڈیموں کی تعمیر نے زمین کو نئی شکل کیسے دی؟