برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر اپنی کابینہ میں ردوبدل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے تحت حال ہی میں کئی وزارتوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یہ ردوبدل کئی برطانوی وزرا کے استعفوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
ان وزارتوں میں سے ایک وزارتِ داخلہ بھی ہے جس کی ذمہ داری شبانہ محمود نے سنبھالی ہے۔ وہ یویٹ کوپر کی جگہ لائی گئی ہیں جنھیں وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔
شبانہ محمود برطانیہ کی وزیرِ داخلہ بننے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں۔
شبانہ محمود کون ہیں؟Getty Imagesشبانہ محمود برطانیہ کی وزیرِ داخلہ بننے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں
شبانہ کا تعلق برمنگھم لیڈی وُڈ سے ہے۔ وہ اسی شہر میں اپنے جڑواں بھائی کے ساتھ پیدا ہوئیں۔
شبانہ نے اپنے بچپن کا ایک حصہ برطانیہ اور سعودی عرب میں گزارنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ کی یونیورسٹی میں داخل لیا تھا۔
شبانہ محمود حکمران لیبر پارٹی کی رکنِ پارلیمان ہیں اور طویل عرصے سے امیگریشن پر اپنے سخت مؤقف کے لیے جانی جاتی ہیں۔
وہ برطانوی حکومت میں وزیرِ داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والی پاکستانی نژاد پہلی مسلمان خاتون بن گئی ہیں جو برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم اور تاریخی سنگِ میل تصور کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں ہوم افیئرز کمشنر کی حیثیت سے شبانہ محمود امیگریشن، قومی سلامتی اور انگلینڈ و ویلز کی پولیس فورس کی نگرانی کرتی ہیں۔
’روٹی، کپڑا اور مکان‘: نیو یارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے خواہشمند ظہران ممدانی ڈیموکریٹک امیدوار منتخباقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفرکیا ساجد جاوید برطانیہ کے وزیراعظم بن سکیں گے؟24 پاکستانی اور انڈین نژاد سیاستدان دارالعوام میں
وہ لیبر پارٹی کی نیشنل کمپین کوآرڈینیٹر رہ چکی ہیں اور انھوں نے2021 کے بیٹلی اینڈ سپین کے ضمنی انتخاب میں پارٹی کی مہم کی قیادت کی تھی۔
یہ وہ انتخاب تھا جسے کیئر سٹارمر کی قیادت بچانے والا اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے چند ماہ قبل پارٹی کو ہارٹ لی پول میں شکست ہوئی تھی۔
شیڈو جسٹس سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والی شبانہ محمود خود کو برطانوی پارلیمان کی پہلی مسلمان خاتون رکن قرار دیتی ہیں۔
اگرچہ وہ 2010 میں یاسمین قریشی اور روشَن آرا علی کے ساتھ ہی منتخب ہوئیں لیکن وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے ووٹوں کی گنتی کے دوران مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے سب سے پہلے پارلیمان میں جگہ بنائی۔
کیئر سٹارمر کی نئی کابینہ میں ردوبدل کے بعد برطانوی حکومت میں خواتین وزرا کی تعداد بڑھ کر 12 ہو گئی ہے جو ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نمایاں پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
وکیل کے پیشے سے پارلیمان اور پھر وزارتِ داخلہ تک کا سفرشبانہ محمود 1980 میں برمنگھم میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق آپاکستان کی زیرانتظام کشمیر کے علاقے میرپور سے ہے۔انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے لنکن کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں بطور وکیل اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا آغاز کیا۔ وہ پروفیشنل لائیبلیٹی کیسز میں مہارت رکھتی تھیں۔شبانہ محمود برمنگھم کے حلقہ لیڈی وُڈ سے رکنِ پارلیمان منتخب ہوئیں اور برطانوی پارلیمان کی ابتدائی مسلمان خواتین ارکان میں شامل ہو گئیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے متعدد اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔وہ شیڈو چانسلر، نیشنل کمپینز کوآرڈینیٹر اور شیڈو جسٹس سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہیں اور لیبر پارٹی کی 2024 کی انتخابی کامیابی کے بعد انھوں نے باضابطہ طور پر وزارتِ انصاف کا قلمدان سنبھالا۔Getty Imagesشیڈو جسٹس سیکریٹری کی حیثیت سے شبانہ نے جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کے لیے اصلاحات کی قیادت کی۔ اس میں قبل از وقت رہائی کے منصوبے بھی شامل تھے۔ شبانہ کے سیاسی نظریات
شبانہ محمود لیبر پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان کا سیاسی انداز قدرے منفرد ہے۔ وہ سماجی معاملات میں نسبتاً قدامت پسند مؤقف کو اپناتی ہیں جبکہ معاشی پالیسیوں میں ترقی پسند سوچ کی حامی ہیں۔
بطور وزیرِ داخلہ وہ اپنی سیاسی فکر کو ’کامن سینس‘ یعنی عام فہم قرار دیتی ہیں اور اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ان کے کئی نظریات ان کے مذہبی پس منظر سے جڑے ہیں۔
شیڈو جسٹس سیکریٹری کی حیثیت سے شبانہ نے جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کے لیے اصلاحات کی قیادت کی۔ اس میں قبل از وقت رہائی کے منصوبے بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ انھوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور عدلیہ کی شفافیت و وقار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔
اندرونی چیلنجزGetty Imagesشبانہ نے یویٹ کوپر کی جگہ برطانوی وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا ہے اور اب وہ امیگریشن سمیت کئی مشکل معاملات سے نمٹنے کے چیلنج کا سامنا کریں گی۔
شبانہ محمود کو ایسے نازک اور پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے جو برطانیہ کے داخلی معاملات کے لیے سنگین چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ان میں پناہ گزینوں کی زیرِ التوا درخواستیں، ڈیپورٹیشن کے کیسز کا دباؤ، پولیس اصلاحات اور بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے منظم نیٹ ورکس کی تحقیقات شامل ہیں۔
وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے شبانہ محمود نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کریں گی خصوصاً فلسطین ایکشن کے خلاف، جسے جولائی 2025 میں برطانیہ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
البتہ ماضی میں ان کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں منعقدہ مظاہروں میں شرکت نے بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کو جنم دیا ہے۔ اور یہ تنقید ان کے وزارتِ داخلہ سنبھالنے کے بعد مزید نمایاں ہو گئی ہے۔
کچھ دیر قبل ایکس پر ایک بیان میں شبانہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کی حمایت اور ایک نام نہاد دہشت گرد گروپ کی حمایت میں فرق ہے۔
’شبانہ محمود صاحبہ، پورے پاکستان کو آپ پر فخر ہے‘
سوشل میڈیا پر برطانیہ اور پاکستان میں بیشتر افراد شبانہ محمود کے وزیرداخلہ بننے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
شبانہ کی الیکشن مہم کے دنوں کی ایک پرانی ویڈیو بھی ایکس پر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ میرپور کی زبان بولتی سنی جا سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ ’بہت خوشی کی بات ہے کہ برطانیہ کی نئی وزیرِ داخلہ شبانہ محمود متعدد زبانیں بولتی ہیں اور اپنی مادری زبان میں بھی روانی سے بات کرتی ہیں۔‘
کامران احسن نامی صارف نے لکھا ’وزیراعظم کے بعد یہ ایک یا دو اہم ترین پوزیشنز میں سے ایک ہے۔ شبانہ محمود صاحبہ، پورے پاکستان کو آپ پر فخر ہے۔‘
سلیمان رضا نے شبانہ کو مبارک باد دیتے ہوئے ایکس پر لکھا ’تاریخ رقم ہو گئی۔ شبانہ محمود برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیرِ داخلہ بن گئیں۔ ان کا برمنگھم لیڈی وُڈ سے لے کر برطانیہ کے اعلیٰ ترین عہدوں تک کا سفر، انصاف، مساوات اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔‘
کیا ساجد جاوید برطانیہ کے وزیراعظم بن سکیں گے؟امریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کا انتخاب صرف ایک لاکھ 60 ہزار افراد ہی کیوں کریں گے؟رشی سُونک: انڈین نژاد برطانوی وزیر خزانہ کون ہیں؟اقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفر’روٹی، کپڑا اور مکان‘: نیو یارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے خواہشمند ظہران ممدانی ڈیموکریٹک امیدوار منتخب