امریکی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کو دہرے بم دھماکوں کے کیس میں مطلوب ملزم کو آئندہ ہفتے برطانوی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ مذکورہ شخص کو ٹرائل کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ بھجوانا ہے یا نہیں۔
ایف بی آئی کا خیال ہے کہ ڈینئل آندریاس سان ڈیاگو کا تعلق جانوروں کے حقوق سے متعلقہ شدت پسند گروپس سے ہے اور یہ 2003 میں سان فرانسسکو بے ایریا میں ہونے والے بم دھماکوںکا مرکزی ملزم ہے۔
ایف بی آئی کے سابق ایجنٹس کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے 47 سالہ ڈیاگو کو گرفتار کرنے کی کئی کوششیں کیں جو کامیاب نہیں ہو سکیں تھیں۔
ایک موقع پر پولیس نے کیلیفورنیا میں تقریباً 104 کلو میٹرز تک ملزم کا پیچھا گیا، لیکن وہ اپنی گاڑی چھوڑ کر ایسا غائب ہوا کہ 21 برس تک پولیس کی نظروں سے اوجھل رہا۔
Getty Imagesڈینیئل اینڈریاس سان ڈیاگو (اوپر دائیں) کو ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں اسامہ بن لادن کے ساتھ شامل کیا گیا تھا
ایف بی آئی کے مطابق سان ڈیاگو کی جانب سے چھوڑی گئی گاڑی ایک طرح سے ’بم بنانے کی فیکٹری‘ تھی۔ سان ڈیاگو کا سراغ گذشتہ برس پانچ ہزار میل دُور نارتھ ویلز میں ملا، جہاں وہ ایک کاٹیج میں پائے گئے۔
امریکی حکام نے سان ڈیاگو کے سر کی ڈھائی لاکھ ڈالر قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ اُنھیں پیر کو لندن میں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ تاکہ یہ تعین کیا جا سکے گا کہ اُنھیں امریکہ کے حوالے کرنا ہے یا نہیں۔
ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل سان ڈیاگو پر یہ الزام ہے کہ اُنھوں نے سنہ 2003 میں دو الگ الگ حملوں میں املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
جانوروں کے حقوق کے انتہا پسند گروپ ’ریولوشنری سیلز - اینیمل لبریشن بریگیڈ‘ نے اُن فرمز پر حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ فرمز جانوروں پر نقصان دہ تجربات کرنے میں ملوث ہیں۔
ایف بی آئی کے سابق اسپیشل ایجنٹ ڈیوڈ سمتھ اس خصوصی آپریشن گروپ کا حصہ تھے جو سان ڈیاگو پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
سمتھ نے سان ڈیاگو کے حوالے سےبی بی سی کو بتایا کہ وہ ’ناقابل ذکر ہونے کی وجہ سے قابل ذکر تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سان ڈیاگو ’قدرے کم عمر اور نارمل سا نوجوان تھا، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ لڑکا پُرتشدد ہو جائے گا۔‘
چین میں سینکڑوں ’غیرملکیوں کا قتل‘ اور ’باکسر بغاوت‘ جسے دبانے کے لیے سلطنتِ برطانیہ نے ہندوستانی سکھ فوجی بھیجےابن عبداللہ الپاکستانی، ایف بی آئی اور ’بم بنانے کا تجسس‘: نارووال کا طالب علم امریکی خفیہ ادارے کی اطلاع پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیسے پہنچاچین نے ساجد میر کو عالمی دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کو پھر ویٹو کر دیا، انڈیا کا شدید ردعملکابل ایئرپورٹ حملے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کی گرفتاری: آئی ایس آئی سے کہا ٹرمپ سے اچھے تعلقات کے لیے اس معاملے کو ترجیح دیں، سی آئی اے چیف
ایف بی آئی کو محسوس ہوا کہ اس کے پاس اتنی انٹیلی جنس ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ سان ڈیاگو ان کا مرکزی ملزم ہے اور اسی نے ہی دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا جو ان فرمز کے دفاتر میں ایک ماہ کے وقفے سے دو بار پھٹا۔
ایف بی آئی کی انسداد دہشت گردی ٹیم کے سپروائزر اینڈریو بلیک کے مطابق امریکی محکمہ انصاف اور ایجنٹس اس سوچ بچار میں رہے کہ اسے گرفتار کر لیا جائے یا اس سے متعلق مزید معلومات حاصل کی جائیں۔
اُن کے بقول ہمیں اُمید تھی کہ وہ ہمیں اینیمل رائٹس گروپ کے مزید اُن ارکان تک رسائی دیں گے جو اپنے حقوق کے لیے تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں۔
28 اگست 2003 کو اوکلینڈکے قریب ایمری ویل میں ایک بائیو ٹیکنالوجی کارپوریشن میں دو بم دھماکے ہوئے۔تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ دوسرا بم رسپانس ٹیم کو نشانہ بنانے کے لیے نصب کیا گیا تھا۔
اس کے بعد 26 ستمبر 2003 کو پہلے دھماکے کے مقام سے 30 میل دُور ایک اور نیوٹریشن پروڈکٹس بنانے والی کمپنی میں کیلوں سے لدا ہوا بم پھٹ گیا۔ دونوں بم دھماکوں میں کوئی شخص بھی زخمی نہیں ہوا۔
Getty Images2003 میں سان فرانسسکو بے ایریا میں ایمری وِل میں بائیو ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر میں دو دھماکوں کے موقع پر پولیس اور ایف بی آئی کے افسران موجود ہیں
ایف بی آئی کے سابق نگرانی کے ماہرین کو بتایا گیا کہ سان ڈیاگو ایک مشتبہ شخص ہیں اور اُن کی گرفتاری کسی بھی وقت عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
سمتھ کہتے ہیں کہ ’ہم ایسے شخص کی جانب دیکھ رہے تھے جس نے ہمارے خیال میں متعدد بم دھماکے کیے اور وہ ایک مقامی دہشت گرد تھا۔‘
سمتھ کے مطابق ہم اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے کہ ملزم کی شناخت مرکزی حملہ آور کے طور پر ہو جائے گی تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔
اُن کے بقول اگر آپ کسی شخص کو دیر تک نگرانی میں رکھیں گے تو وہ کبھی نہ کبھی کچھ غیر معمولی محسوس کریں گے اور چوکنا ہو جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اُنھیں مایوسی ہے کہ اُنھِیں ملزم کو پکڑنے کے لیے گرین لائٹ نہیں دی گئی، کیونکہ خطرہ تھا کہ اگر وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو مزید دھماکے کرے گا۔‘
PA Media
سان ڈیاگو کے ایف بی آئی کے ریڈار سے اوجھل ہونے سے ایک روز قبل سمتھ اُن کے گھر کے باہر کیموفلاج کر کے چھپے ہوئے تھے۔ گھنٹوں بعد جب سمتھ اور سرویلنس ٹیم کے دیگر اہلکاروں کی شفٹ ختم ہوئی تو ملزم نے اپنی کار تیزی سے بھگا دی اور ایجنٹس نے بھی اس کا پیچھا شروع کر دیا۔
سمتھ کہتے ہیں کہ بھاگنے سے قبل سان ڈیاگو اپنے گھر کے باہر آرام سے ٹہل رہا تھا، اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی سرعت سے بھاگ نکلے گا۔
’اس کے ڈرائیونگ کا انداز بدل گیا تھا۔ جہاں وہ جا رہا تھا، وہ بے ترتیبی سے گاڑی چلا رہا تھا جو کہ کسی کی نگرانی سے بچنے کی کوشش کرنے کے لیے مخصوص ہے۔‘
ایجنٹوں نے بتایا کہ اس نے سونوما کاؤنٹی کے سیباسٹوپول میں واقع اپنے گھر سے جنوب کی طرف گاڑی چلائی۔
ایک گھنٹے تک وہ موٹر وے پر دوسری گاڑیوں کو بے ہنگم انداز میں اوورٹیک کرتا رہا اور ٹنلز سے گزرتا ہوا سان فرانسسکو میں جا کر رکا۔
یہاں تک کہ ایف بی آئی کے جاسوس طیارے بھی اپنے ہدف پر نظریں نہیں رکھ سکے کیونکہ سان فرانسسکو کی دھند نے اُن کے لیے ہدف پر نظر رکھنا مشکل بنا دیا اور اسی دوران سان ڈیاگو نے اپنی گاڑی وہاں سب وے سٹیشن کے پاس چھوڑی اور ایف بی آئی کے ہاتھ سے ایسے نکلے کہ کبھی دوبارہ نظر نہیں آئے۔
BBC2003 میں ڈینیئل اینڈریاس سان ڈیاگو کے تعاقب کا نقشہ
سمتھ کہتے ہیں کہ ملزم کا تعاقت کرنے والی ٹیم یہ سوچ رہی تھی کہ اس نے گاڑی کھڑی کی اور سڑک سے کچھ دُور ایسے مقام پر چھپ گیا جس کا تعلق جانوروں کے حقوق کی تنظیم سے تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھاکہ ’کیا کسی نے اسے اندر جاتے دیکھا ہے یا ابھی کوئی اس جگہ کو دیکھ رہا ہے‘ اس کا جواب نہیں میں ملا۔
’کار سب وے کے ساتھ ایک بس زون میں کھڑی تھی، ہمیں اندازہ ہو گیا کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔‘
ایف بی آئی کے سابق اہلکار مسٹر فورمین نے بھی ایسا ہی محسوس کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ ہوا میں کہیں کھو گیا ہے اور اب اسے تلاش کرنا بہت مشکل ہو گا۔
کیس پر کام کرنے والے سکواڈ کا ماننا تھا کہ سان ڈیاگو اپنے گھرمیں بم بناتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے اُس کی چھوڑی ہوئی گاڑی کا معائنہ کیا تو انکشاف ہوا کہ وہ کار کے ٹرنک کو بم کی تیاری کے لیے لیب کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔
Getty Imagesایف بی آئی کے انسداد دہشت گردی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائیکل جے ہیمباچ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ڈینیئل اینڈریاس سان ڈیاگو کو ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں کیوں رکھا گیا ہے
مسٹر سمتھکہتے ہیں کہ یہ وہ موقع تھا جو کوئی بھی جاسوس اپنی زندگی میں نہیں دیکھنا چاہتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہمیں معلوم ہوتا تو ہم اسے کچھ روز پہلے ہی گرفتار کر لیتے۔ ہم زیادہ ہی پراعتماد تھے کہ یہ لڑکا ہے اور ہم بہت تجربہ کار ہیں۔ ‘
سمتھ کہتے ہیں کہ یہ واقعی ایک ضائع ہونے والا موقع تھا۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا جب دو برس قبل نائن الیون کی وجہ سے امریکہ بھر میں ہائی الرٹ تھا۔ فورمین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ فلاں بندہ مشتبہ یا اس کی شناخت ہو جائے تو اسے گرفتار کر لیں۔
سان ڈیاگو ایک کمپیوٹر نیٹ ورک کے ماہر تھے جو برکلے، کیلیفورنیا میں پیدا ہوئے اور سان فرانسسکو بے ایریا کے ایک اعلیٰ متوسط طبقے کے علاقے میں پلے بڑھے۔
ایف بی آئینے سان ڈیاگو کے لاپتا ہونے کے بعد برسوں تک ان کا سراغ لگانے پر کام کیا۔ اس کے خاندان کے افراد سے پوچھ گچھ کی گئی، لیکن کچھ پتا نہیں چلا۔ شاید وہ وسطِی یا جنوبی امریکہ فرار ہو گیا تھا۔
سان ڈیاگو پر 2004 میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور ایف بی آئی نے اُنھیں مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔
اکیس برس تک سان ڈیاگو کا کچھ پتا نہ چلا سکا اور اس دوران سمتھ اور فورمین دونوں ریٹائر ہو گئے۔ گذشتہ برس اُنھیں پتا چلا کہ بدنام زمانہ مفرور سان ڈیاگو کو نارتھ ویلز برطانیہ کی پہاڑی پر ایک کاٹیج سے حراست میں لے لیا گیا ہے ۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور انسداد دہشت گردی کی پولیس نے نومبر 2024 میں سان ڈیاگو کو کونوی ویلی سے گرفتار کیا۔ وہ اُس علاقے میں ڈینی ویب کے نام سے وہاں رہ رہے تھے۔
فورمین کہتے ہیں کہ اُنھیں لگتا ہے کہ وہاں اُنھیں کچھ لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔
ایف بی آئی سے جب سان ڈیاگو کے فرار ہونے اور مواقع گنوانے سے متعلق سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔
تاہم سان ڈیاگو کی گرفتاری کے وقت ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا تھا کہ چاہے آپ جتنا بھی بھاگ لیں، ایف بی آئی آپ کو ڈھونڈ لے گی اور انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔
سان ڈیاگو، جنھیں لندن کی ہائی سکیورٹی بیلمارش جیل میں رکھا گیا ہے، نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
کابل ایئرپورٹ حملے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کی گرفتاری: آئی ایس آئی سے کہا ٹرمپ سے اچھے تعلقات کے لیے اس معاملے کو ترجیح دیں، سی آئی اے چیفکابل ڈائری: ’اگر دھماکہ خیز مواد گاڑی میں تھا، تو پھر وہ پھٹا کیوں نہیں‘امریکہ نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ کو ’عالمی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا فیصلہ اب ہی کیوں کیا؟نائن الیون سے قبل امریکہ میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حملہ جس میں سابق فوجی ملوث تھے