طاقت کا مظاہرہ، ٹرمپ کی ناراضی اور عالمی قیادت: شی جن پنگ کی تقریر اور چین کی پریڈ میں چھپا ہوا پیغام

بی بی سی اردو  |  Sep 04, 2025

تیانمن سکوائر میں جیسے ہی توپ کے گولے کی گونج سنائی دی اور اس سے پہلے کہ پہلا فوجی دستہ بیجنگ کی مرکزی شاہراہ سے گزرتا، دن کی سب سے اہم تصویر سامنے آ گئی۔

چینی صدر شی جن پنگ نے ایک طویل مصافحے کے ساتھ شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان کا استقبال کیا، پھر وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو ملنے کے لیے آگے بڑھے اور پھر دنیا میں سب سے زیادہ پابندیوں والے دو رہنماؤں کے ساتھ اپنی نشست کی طرف چلے گئے۔

یہ بالکل ایک سیاسی تھیٹر تھا اور اس پریڈ میں اسلحے کی نقاب کشائی نہیں بلکہ یہ ملاقات ہی بظاہر وہ چیز ہے جس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ناراض کر دیا۔

جیسے ہی پریڈ کا آغاز ہوا ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک پیغام بھیجا جس میں ان تینوں رہنماؤں پر امریکہ کے خلاف سازش کا الزام عائد کیا گیا۔

چینی صدر کو شاید اسی ردعمل کی امید بھی ہو گی کیونکہ پوری پریڈ کے دوران انھوں نے پوتن کو اپنے دائیں جبکہ کم جانگ ان کو بائیں جانب رکھا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب ایک ایسے امریکی صدر کو غصہ دلانے کے لیے کیا گیا ہو جو شاید دنیا کی توجہ کا مرکز بننا پسند کریں گے۔

چینی صدر نے تمام توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے اور وہ اسے اپنی طاقت ظاہر کرنے اور مشرقی قیادت کے اتحاد پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا منحرف گروہ ہے جو دنیا سے امریکہ کا غلبہ ختم کرنا چاہتا ہے۔

یہ شی جن پنگ کی طرف سے ایک سخت پیغام ہے کیونکہ دنیا ٹرمپ کی صدارت کے غیر متوقع فیصلوں سے پریشان ہے۔

کم جانگ ان اور پوتن کے علاوہ دیگر 20 ممالک کے سربراہان بھی بیجنگ میں موجود تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں چینی صدر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنے خراب تعلقات کو درست کرتے بھی نظر آئے۔ انڈین مصنوعات پر ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف نے انڈیا اور چین جیسے دیرینہ حریفوں کے درمیان برف پگھلنے کا اشارہ دیا ہے۔

بدھ کے روز ہونے والی تقریب کا انعقاد دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے 80 برس مکمل ہونے پر کیا گیا تھا لیکن درحقیقت اس کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ چین کس جانب بڑھ رہا ہے۔۔۔ یعنی سب سے اوپر جہاں شی ایک عالمی رہنما کا کردار ادا کریں گے۔

اور ان کے پاس ایک ایسی فوج ہے، جسے مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔

’گوام کلر‘، دیوہیکل آبدوز ڈرون اور جوہری میزائل: فتح کی پریڈ میں نئے چینی ہتھیار اور ’مغربی دنیا کی پریشانی‘امریکہ میں ڈیزائن کردہ مگر ’میڈ اِن چائنا‘: ایپل کی طاقت سمجھی جانے والی عالمی سپلائی چین اِس کی کمزوری کیسے بنی؟دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟بحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟چین کا کنٹرول

یہ پہلی بار تھا کہ شی، پوتن اور کم کو ساتھ دیکھا گیا اور یہ تینوں پریڈ دیکھنے کے لیے تیانمن سکوائر پر موجود اس تاریخی مقام کی جانب بڑھے جسے ’گیٹ آف ہیونلی پیس‘ (Gate of Heavenly Peace) کہا جاتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں پر کمیونسٹ چین کے بانی ماو زے تنگ نے 1949 میں جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا تھا اور 10 سال بعد یہ وہ جگہ تھی جہاں انھوں نے کم کے دادا اور اس وقت کے سوویت رہنما نکیتا خروشیف کی فوجی پریڈ دیکھنے کے لیے میزبانی کی تھی۔

Getty Imagesماو زے تنگ نے 1949 میں جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا اور 10 سال بعد انھوں نے کم کے دادا اور اس وقت کے سوویت رہنما نکیتا خروشیف کی فوجی پریڈ دیکھنے کے لیے میزبانی کی

یہ آخری موقع تھا جب ان تین ممالک کے رہنما ایک ساتھ نظر آئے تھے۔ اس وقت سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ چین اور شمالی کوریا باقی دنیا سے الگ تھلگ تھے اور سوویت یونین ان میں سب سے طاقتور اور امیر ملک تھا۔

لیکن اب ان تینوں میں سب سے طاقتور چین ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس لیکن پھر بھی غریب شمالی کوریا کو بیجنگ کی امداد کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب پوتن کو اپنے اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے یقین دہانی کی ضرورت تھی اور شی نے ایسا ہی کیا۔

ماضی میں شی نے بظاہر پوتن اور کم سے فاصلہ برقرار رکھا اور عوامی سطح پر یوکرین جنگ کے حوالے سے غیر جانبدار موقف اپنایا۔ انھوں نے اس کی مذمت نہیں کی تاہم اس بات کی تردید ضرور کی کہ چین روس کی مدد کر رہا ہے۔

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں پیسوں اور ٹیکنالوجی کے بدلے کم جانگ ان، پوتن کو اپنے فوجی دستے بھیجتے رہے۔

لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ (چینی صدر) اپنے دونوں پڑوسیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، یہاں تک کہ اگر وہ کیئو پر حملہ کرتے ہیں۔

چینی صدر نے پریڈ سے خطاب میں کہا کہ ’آج ایک بار پھر انسانیت کو امن یا جنگ، مذاکرات یا تصادم، جیت یا شکستکے انتخاب کا سامنا ہے۔‘ انھوں نے اعلان کیا کہ ’چین ایک عظیم قوم ہے جو بدمعاشوں سے نہیں ڈرتی۔‘

ملٹری پریڈ کا مقصد طاقت اور حب الوطنی کا اظہار تھا۔

پریڈ کے آغاز میں 80 توپوں کی سلامی دی گئی، جس کا مقصد دوسری عالمی جنگ میں چین کی جاپان پر فتح کو یاد کرنا تھا۔ تیانمن سکوائر کا ہر کونہ توپوں کی آواز سے گونج اٹھا، جہاں تقریباً 50 ہزار لوگ جمع تھے۔ ان میں کچھ سابق فوجی بھی تھے، جو خاموشی سے بیٹھے تھے۔

پھر گانا شروع ہوا کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے بغیر کوئی جدید چین نہیں۔‘ ہر لائن کو مکے لہراتے ہوئے ادا کیا گیا۔

صدر شی نے اپنے فوجی دستوں کا معائنہ کرنے کے لیے پریڈ کے لمبے روٹ کا سفر کیا۔

چین کے نئے ہتھیاروں کی نمائش میں سب سے پہلے نمبر پر ٹینک آئے لیکن بعد میں آنے والے ہتھیاروں کے مقابلے میں وہ پرانے لگ رہے تھے۔ جیسے کہ ایک نیا جوہری صلاحیت والا میزائل جو سمندر، زمین اور ہوا سے لانچ کیا جا سکتا ہے، ڈرون حملوں سے دفاع کے لیے ہائپر سونک اینٹی شپ میزائل اور لیزر ہتھیار۔ سمندر کے اندر اور فضا سے چلنے والے نئے ڈرون، جو اپنے اہداف کی جاسوسی کرنے صلاحیت رکھتے ہیں۔

Getty Images

شاید امریکہ کو ابھی بھی چین پر برتری حاصل ہو گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کر رہا ہے۔

بدھ کی تقریب میں طاقت کے مظاہرے کا مقصد دراصل واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو پیغام دینا تھا۔ یہاں تک کہ پوتن اور کم بھی اس کی اہمیت جانتے تھے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔

شی جن پنگ نے اپنی قوم میں فخر بڑھانے کے لیے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’چینی قوم کی عظیم تجدید کو روکا نہیں جا سکتا۔‘

مغربی ممالک میں پریشانی

ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں پر اس کا اثر ہونے لگا ہے۔

پریڈ کے مرکزی مقام سے دور دریائے تونگھوئی پر ایک پل پر ملٹری فلائی پاسٹ کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم موجود تھا۔

30 برس کے رونگ نے کہا کہ وہ پریڈ سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس لمحے کو سراہنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ 2035 تک ہم تائیوان کو واپس لے لیں گے۔‘

یہ ایک ایسا بیانیہ ہے، جس سے تائیوان کے خود مختار جزیرے پر بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کیونکہ چین تائیوان کو اپنے ملک کا ایک علیحدہ ہو جانے والا صوبہ کہتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ بالآخر یہ دوبارہ ملک کا حصہ بن جائے گا۔

شی نے اس مقصد کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال جیسے آپشن کو مسترد نہیں کیا اور وہ ہتھیار جو چین نے بدھ کے روز دکھائے ہیں، ان میں سے زیادہ تر چین کی بحری صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں اور تائیوان کے رہنماؤں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔

بدھ کی تقریب سے مغربی ممالک بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں جو ابھی بھی یوکرین میں جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے یورپی ممالک اس پریڈ میں موجود نہیں تھے۔

75 سالہ ہان یونگ گوانگ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک ’چین کی ترقی سے حسد کرتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو وہ دل سے جارحانہ ہیں۔ ہم انسانیت کی مشترکہ خوشحالی کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہیں۔ ہم مختلف ہیں۔‘

یہ پریڈ ایک ایسے وقت میں قوم پرستی کو ہوا دے رہی ہے جب چین کو اندرونی سطح پر شدید چیلنجز کا سامنا ہے: ایک سست معیشت، ریئل اسٹیٹ کا بحران، بڑھتی آبادی، نوجوانوں میں بے روزگاری اور قرضوں میں ڈوبی ہوئیں مقامی حکومتیں۔

Getty Images

عالمی سطح پر چین کافی پر اعتماد نظر آتا ہے لیکن صدر شی کو ایسا راستہ تلاش کرنا ہو گا کہ وہ ملک کے متوسط ​​طبقے کو اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہونے سے روک سکیں۔

ایک وقت تھا جب چین کے معاشی عروج کو روکنا مشکل دکھائی دیتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا۔

تو یہ پریڈ جو ایک پرانے دشمن یعنی جاپان سے فتح کی یاد میں منائی جاتی تھی، اب اسے ایک مثبت پیغام دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس پریڈ میں جنگی ہتھیاروں کی نمائش کی گئی جس میں نیوکلیئر میزائل بھی شامل تھے تاہم پریڈ کے اختتام پر ہزاروں فاختہ اور غبارے بیجنگ شہر کی فضا میں چھوڑے گئے۔

لیکن یہ تقریب، گیت، مارچ، میزائل اور ڈرون دراصل چین کی جدوجہد کے بارے میں نہیں بلکہ یہ بتاتے ہیں کہ چین کتنا آگے نکل چکا ہے اور کس طرح یہ امریکہ کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا پر اس کی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے۔

’گوام کلر‘، دیوہیکل آبدوز ڈرون اور جوہری میزائل: فتح کی پریڈ میں نئے چینی ہتھیار اور ’مغربی دنیا کی پریشانی‘امریکہ میں ڈیزائن کردہ مگر ’میڈ اِن چائنا‘: ایپل کی طاقت سمجھی جانے والی عالمی سپلائی چین اِس کی کمزوری کیسے بنی؟سستا تیل انڈیا، چین اور روس کو کیسے قریب لا رہا ہے؟چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟بحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More