پاکستان میں غیرقانونی لون ایپس کا دھندہ ختم کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

اردو نیوز  |  Sep 04, 2025

پاکستان میں غیرقانونی لون ایپس خاموش قاتل بن چکی ہیں۔ یہ ایپس لوگوں کو فوری قرض فراہم کرنے کا جھانسہ دے کر جال میں پھنساتی ہیں، پھر کئی گنا سُود اور نفسیاتی دباؤ سے اُنہیں زندگیاں ختم کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔حکومتی اقدامات کے باوجود پاکستان میں یہ کاروبار اب بھی جاری ہے، سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟جولائی 2023 میں راولپنڈی کے علاقے چاکرہ کے ایک نوجوان نے لون ایپ کا قرض واپس کرنے میں ناکامی، متعلقہ کمپنی کی جانب سے ہراسیت اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونے پر خُودکشی کر لی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب حکومت کی توجہ ملک میں غیرقانونی لون ایپس کے مسئلے کی جانب مبذول ہوئی۔ بعدازاں ایسی کئی ایپس پر پابندیاں عائد کی گئیں جو شہریوں کو غیرقانونی طریقے سے قرض دیتیں اور پھر اُس پر کئی گنا سُود وصول کرتی تھیں۔پاکستان کے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی)، پی ٹی اے، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں نے اس حوالے سے سخت اقدامات کرتے ہوئے غیرقانونی لون ایپس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔تاہم ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان میں ایسی ایپس کی مجموعی تعداد میں سے تقریباً 10 سے 15 فیصد اب بھی موجود ہیں جو شہریوں کو غیرقانونی طور پر قرض فراہم کر رہی ہیں۔سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور نیشنل کرائم کنٹرول انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق اگرچہ زیادہ تر ایپس کو بند کر دیا گیا ہے تاہم کچھ ایپس تاحال فعال ہیں۔این سی سی آئی اے کے حکام نے بتایا ہے کہ ’پاکستان میں غیرقانونی طور پر کام کرنے والی کچھ ایپس 1800 فیصد تک سُود وصول کر رہی ہیں۔ ایسی ایپس کی آج بھی نشان دہی کی جاتی ہے اور اُن کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔‘یہاں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومتی سختیوں کے باوجود یہ ایپس بظاہر کس طرح کام کر رہی ہیں اور اس حوالے سے حکومت کے رُولز اور ریگولیشنز کیا ہیں؟سب سے پہلے ہم نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔

راولپنڈی کے ایک نوجوان نے لون ایپ کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد خُودکشی کر لی تھی (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

ایس ای سی پی کے مطابق ’گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایسی درجنوں ایپس کو بلاک کیا گیا ہے جن کے بارے میں شکایات موصول ہوئی تھیں۔‘ایس ای سی پی دو طریقوں سے اِن ایپس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔ پہلا، شکایات موصول ہونے پر اور دوسرا اپنی مانیٹرنگ کے ذریعے۔شکایت اگر دُرست ثابت ہو جائے اور متعلقہ کمپنی یا ایپ تعاون نہ کرے تو اُس کے خلاف کارروائی شروع کر دی جاتی ہے اور اُس کمپنی کا نام رجسٹر آف کمپنیز کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔اس کے بعد ایس ای سی پی کی جانب سے ایسی کمپنیوں کو اپنی ویب سائٹ پر ’غیر مجاز کمپنیوں‘ کی فہرست میں شامل کرنا اور فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو آگاہ کرنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ اِن معلومات کو ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں تک پہنچاتا ہے جس کے بعد ایپ بلاک کر دی جاتی ہے۔علاوہ ازیں ایس ای سی پی، گوگل کو بھی ایسی ایپس کے بارے میں اطلاع دیتا ہے جو پاکستان میں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوں اور انُہیں گوگل پلے سٹور سے ہٹانے کی درخواست بھی کرتا ہے۔تاہم ایس ای سی پی واضح کرتا ہے کہ وہ صرف ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے جو پاکستان میں رجسٹرڈ اور آپریٹ کر رہی ہوں۔ وہ اگر بین الاقوامی سطح پر رجسٹر ہوں تو اُن کے خلاف ادارے کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں غیرقانونی طور پر کام کرنے والی کچھ ایپس 1800 فیصد تک سُود وصول کر رہی ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایس ای سی پی کے مطابق قانونی طور پر کام کرنے والی لون ایپس کو ’نان بینکنگ فائنانشل کمپنی‘ (این بی ایف سی) کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور وہ ہمارے رُولز اور ریگولیشنز کے تحت کام کرتی ہیں۔’اس لائسنس کے تحت اُنہیں ایک حد تک قرض پر سُود لینے کی اجازت ہوتی ہے، تاہم جن کمپنیوں کے پاس یہ لائسنس نہیں ہوتا وہی شہریوں سے غیرقانونی چارجز وصول کرتی ہیں۔‘اردو نیوز نے سائبر سکیورٹی کے ماہرین سے بھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ریگولیٹرز کی سخت نگرانی کے باوجود پاکستان میں غیرقانونی لون ایپس کیسے کام کر رہی ہیں۔اس بارے میں سائبر سکیورٹی کے ماہر ایڈووکیٹ چوہدری ذیشان ریاض کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کام کرنے والی اس طرح کی ایپس کا سرور اکثر امریکہ میں ہوتا ہے۔‘ان کے مطابق ’یہ ایپس چونکہ بیرونِ ملک کے سرورز پر کام کرتی ہیں اس لیے یہ کسی نہ کسی طرح اپنا دھندہ جاری رکھتی ہیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ایسی ایپس کو بلاک کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘چوہدری ذیشان ریاض نے وضاحت کی کہ ’سوشل میڈیا پر اگرچہ ان ایپس کے اشتہارات چلتے رہتے ہیں، لیکن اگر یہ پلے سٹور پر دستیاب نہ ہوں اور متعلقہ ادارے انہیں پاکستان میں بلاک کر دیں تو اِن کے لیے یہاں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘

ماہرین کے مطابق ’اگر یہ اپیس پلے سٹور پر دستیاب نہ ہوں تو اِن کے لیے یہاں کام کرنا مشکل ہو جائے گا‘ (فائل فوٹو: پِکسابے)

’پاکستان میں لوگوں کو چونکہ فوری طور پر قرض کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ غیرقانونی ایپس اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ پاکستان میں اگر چھوٹے پیمانے پر بینک یا دیگر قانونی ادارے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کریں تو غیرقانونی ایپس کے لیے اپنے کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔‘اس حوالے سے سائبر سکیورٹی کے ماہر اور ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر سکیورٹی عمار جعفری کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں سائبر جرائم کے خلاف کام تو ہو رہا ہے، لیکن سائبر سکیورٹی کے حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے۔‘انہوں نے ان دونوں اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’سائبر جرائم کے ارتکاب پر ہمارے متعلقہ ادارے تو ایکشن میں آجاتے ہیں، لیکن سائبر جرائم کے پس منظر یا وہ عوامل جو مستقبل میں جرائم کا سبب بن سکتے ہیں اُن پر کام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس قسم کی سکیمیں پاکستان میں جاری رہتی ہیں۔‘’پاکستان میں غیر قانونی لون ایپس کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایسے پلیٹ فارمز سے قرض لینے کی کوشش نہ کریں اور اپنی مالی ضروریات کے لیے صرف قانونی اور لائسنس یافتہ اداروں یا بینکوں سے ہی رجوع کریں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More