کوئٹہ میں بی این پی کے جلسے کے اختتام پر خودکش حملہ: ’دھماکے کے بعد کا منظر خوفناک تھا، ہر طرف لاشیں تھیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 03, 2025

Getty Imagesگذشتہ رات ہونے والے حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے

'دھماکہ بہت زوردار تھا اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے سبب کئی گاڑیاں اپنے جگہ سے اچھل گئیں۔'

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے مرکزی رہنما اور سابق رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ بھی گذشتہ رات کوئٹہ میں ہونے والے اس دھماکے کے چشم دید گواہ ہیں جس میں 15 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے تھے۔

احمد نواز بلوچ کہتے ہیں کہ 'دھماکے کے بعد کا منظر خوفناک تھا، ہر طرف لاشیں تھیں اور ہمارے ساتھی زخموں کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔'

بلوچستان کے وزیر صحت بخت محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے کچھ افراد کی حالت تاحال تشویشناک ہے۔

بلوچستان کے ایڈیشنل سیکریٹری برائے داخلہ و قبائلی امور حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ یہ ایک خود کش حملہ تھا جس میں آٹھ کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ حملہ آور کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی ہے تاہم اس کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔

دوسری جانب بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اس سے قبل مستونگ میں بھی انھیں ایک خودکش حملے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا کسی مذہبی یا سیاسی گروہ سے جھگڑا نہیں ہے۔ سردار اختر مینگل نے الزام عائد کیا کہ ریاستی ادارے 'بلوچستان اور اس کے لوگوں کے لیے ہر آواز کو خاموش کرنا چاہتے ہیں۔'

تاہم سرکاری حکام نے ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی ادارے اپنے ملک کے عوام کچ دہشت گردی کا نشانہ نہیں بناتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں ملوث ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔

دھماکہ بی این پی کے جلسے کے اختتام پر ہوا

یہ دھماکہ منگل کی شب کوئٹہ میں سریاب کے علاقے میں واقع شاہوانی سٹڈیم میں بی این پی کے جلسے کے اختتام پر اس وقت ہوا جب اس کے شرکا واپس اپنے گھروں کو جارہے تھے۔

یہ جلسہ بی این پی کے بانی سردار عطااللہ مینگل کی برسی کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا، جس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کی قیادت کے علاوہ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

ان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میر کبیر احمد محمد شئی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سربراہ اصغر اچکزئی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر داؤد شاہ کاکڑ شامل تھے۔

Getty Imagesزخمی ہونے والے کچھ افراد کی حالت تاحال تشویشناک ہے

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ جلسے کے اختتام پر سٹیڈیم کے مرکزی دروازے پر لوگوں کا رش بہت زیادہ تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سب سے پہلے انھوں نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو جلسے کے مقام سے نکالا جس کے بعد وہ خود بھی وہاں سے نکل گئے۔

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی گاڑی جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر واقع سریاب روڈ پر ہی پہنچی تھی کہ دھماکہ ہوگیا۔

سردار اختر مینگل کے مطابق ان کے قافلے کی ایک گاڑی بھی اس حملے کی زد میں آئی جس کے سبب پارٹی رہنما میر نیازی زہری کےدو ذاتی محافظ بھی ہلاک ہوئے۔

دھماکے کے بارے میں عینی شاہدین نے کیا بتایا

بی این پی کے زخمی ہونے والے رہنما احمد نواز نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ دھماکہ جلسہ گاہ سے اندازاً دو سو فٹ کے فاصلے پر ہوا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ دیگر جماعتوں کے قائدین کو روانہ کرنے کے لیے گاڑیوں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ وہاں روڈ پر گاڑیوں کے دائیں جانب زور دار دھماکہ ہوا جس کے بعد بہت سارے لوگ زمین پر گر پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گاڑیوں کے بائیں جانب موجود تھے جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ زخمی نہیں ہوئے۔

دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک اور شخص نوراحمد نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد وہ ایک سفید گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔

پنجاب میں سیلاب: ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت اور گاڑی میں تین بچوں کا جنمجنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھاپی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہائی جیکر 37 سال بعد رہا: عبدالمنان ’موزے میں پستول‘ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟30 روپے کے جھگڑے پر دو بھائیوں کے قتل کے ملزم’پولیس مقابلے‘ میں ہلاک

دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک اور نوجوان زمان بلوچ کہتے ہیں کہ 'میں جلسہ ختم ہونے کے بعد جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر کھڑا اپنے ساتھی کا انتظار کررہا تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا، اس دوران چھرّہ لگنے کی وجہ سے میری ایک ٹانگ زخمی ہوگئی۔'

'دھماکے کے بعد میں نے بہت سارے لوگوں کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا اور ہر طرف چیخ و پکار تھی۔'

’ہمارے اوپر یہ دوسرا خود کُش حملہ تھا‘

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بتایا کہ ان پر یہ پہلا خود کُش حملہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل جب انھوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف مستونگ کے علاقے میں لک پاس کے قریب دھرنا دیا تھا تو وہاں بھی ایک خود کُش حملہ آور نے انہیں حملے کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت کی جانب سے نہ اس خود کش حملہ آور کو روکا گیا اور نہ ہی اس کے بارے میں صحیح معنوں میں تحقیقات کی گئیں۔

'ہمارے ساتھیوں نے اس خود کش حملہ آور کو دیکھا لیکن چھ مہینے گزرنے کے باوجود بھی ہمارے ساتھیوں سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ حملہ آور کا حلیہ کیسا تھا اور اس نے کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔'

انھوں نے کہا کہ جہاں تک کل پیش آنے والے واقعے کی بات ہے تو 'پہلے ہمیں جلسے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی اور یہ کہا جارہا تھا کہ آج اجازت دیں گے اور کل دیں گے۔'

'اس دوران ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی جانب سے ان کے پاس ایک قاصد آیا جس نے بتایا کہ آپ لوگ احتیاط کریں کیونکہ ایک شخص آپ لوگوں کے خلاف تیاری کررہا ہے۔'

'میں نے اس قاصد کو بتایا کہ جاکر اطلاع دینے والی حکومتی شخصیت کو بتادیں کہ اگر آپ کو واقعی ہمارے بارے میں اتنی تشویش ہوتی تو میری اور میرے ساتھیوں کی سرکاری سیکورٹی واپس نہیں لی جاتی۔'

بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'جن طاقتوں کے ظلم و زیادتی کے خلاف ہم بولتے ہیں ان کا ہدف تو میں اور میری جماعت ہی ہے، لیکن ہم اگر بچ جاتے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے لوگوں کی دعائیں ہیں۔'

Getty Imagesبی این پی کا جلسہ جماعت کے بانی کی برسی کے موقع پر ہو رہا تھا

دوسری جانب صوبائی ایڈیشنل سیکرٹری برائے داخلہ و قبائلی امور حمزہ شفقات کہتے ہیں کہ بی این پی کے جلسے کے لیے 112 سکیورٹی اہلکاروں کا تعینات کیا گیا تھا جس کے سبب جلسہ گاہ کے اندر کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

'اگر یہ واقعہ جلسہ گاہ کے اندر ہوتا تو جانی نقصان چار سے پانچ گُنا زیادہ ہوتا۔'

’ریاستی ادارے اپنے شہریوں پر دہشتگردی نہیں کرتے‘

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بُگٹی نے اس واقعے پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے جو بھی ذمہ داران ہوں گے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

اختر مینگل کی طرف سے ایسے حملوں کا الزام ریاستی اداروں پر لگانے سے متعلق سوال پر وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ 'سردار اخترمینگل ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں لیکن یہ بات نامناسب بات ہے۔'

'اگر انھوں نے یہ بات کہی ہے تو بہت نامناسب ہے کیونکہ ریاست اور ریاستی ادارے اپنے لوگوں پر دہشت گردی نہیں کرتے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ میرا پہلے دن سے یہ مؤقف ہے کہ تشدد ایک گھنائونا عمل ہے جو بلوچستان میں جاری ہے اور اس سے کوئی شہری اور جماعت محفوظ نہیں ہے۔

بلوچستان میں بدامنی اور شورش جس کی پیش گوئی نواب اکبر بگٹی نے اپنی ہلاکت سے قبل کر دی تھیبدین میں رضا اللہ نظامانی کے قاتل ’انڈین خفیہ ایجنسی را کے ہینڈلر سے رابطے میں تھے‘، سی ٹی ڈی کا دعویٰپاکستان میں دیت کی رقم میں 17 لاکھ روپے کا اضافہ: یہ قانون ہے کیا اور تنقید کی زد میں کیوں رہتا ہے؟قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی انسداد دہشتگردی کا ترمیمی بل منظور: سکیورٹی اداروں کو ’غیر معمولی‘ حراستی اختیارات کیوں دیے جا رہے ہیں؟’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More