انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کی ’اُردو اکیڈمی‘ نے نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر کی ایک سیمینار میں شمولیت کے خلاف بعض سخت گیر مسلم تنظیموں کے احتجاج اور مبینہ دھمکیوں کے بعد اپنا چار روزہ ادبی پروگرام ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مختلف مذہبی تنظیموں کا جاوید اختر کے متازع مذہبی خیالات اور خود کو ’لا دین‘ کہنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہنا تھا، کہ ایسے شخص کو اُردو اکیڈمی جیسے اقلیتی ادارے کے پلیٹ فارم سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
’اُردو اکیڈمی‘ نے کولکتہ میں یکم ستمبر سے چار ستمبر تک کئی ادبی مذاکرے اور سیمینار منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس ہی پروگرام کے تحت فلم رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر کو ایک مشاعرے کی صدارت کرنی تھی۔ جاوید اختر کو ’ہندی فلموں میں اُردو کے کردار‘ پر بھی بات کرنی تھی۔
جاوید اختر کے علاوہ اس پروگرام میں معروف فلمساز مظفر علی بھی شرکت کرنے والے تھے۔ کولکتہ کے اُردو اور ادبی حلقوں میں اس پروگرام کے حوالے سے کافی دلچسپی تھی اور منتظمین کے مطابق پروگرام کے سارے کارڈز کئی روز پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔
اس ادبی پروگرام کے شیڈول کا اعلان ہونے کے فوراً بعد سخت گیر مسلم تنظیموں نے جاوید اختر کی اس میں شمولیت پر سوالات اٹھانا اور تنقید کرنا شروع کر دی تھی۔
پھر اچانک اردو اکیڈمی کی سیکریٹری نزہت زینب نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 'ہندى فلموں ميں اُردو كے كردار‘ پر ہونے والے چار روزه پروگَرام كو ’نامساعد حالات كى بنا پر ملتوى كر دیا گیا ہے۔‘ تاہم اس بیان میں پروگرام کے التوا کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
مذہبی تنظیموں کی مخالفت کے پیشِ نظر منتظمین نہیں چاہتے تھے کہ پروگرام کے دوران کوئی تنازع پیدا ہو۔
جاوید اختر کی مخالفت کرنے والی مسلم تنظیموں میں ایک غیر معروف تنظیم ’وحین فاؤنڈیشن‘ بھی شامل ہے۔ تاہم فاؤنڈیشن کے سربراہ مفتی شمائل ندوی نے ایک بیان میں اس بات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے نغمہ نگار جاوید اختر کو دھمکی دی ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی تنظیم نے جاوید اختر کی مخالفت اُن کے مبینہ متنازع مذہبی خیالات، مذہب کے بارے میں دیے گئے مبینہ اہانت آمیز بیانات کی وجہ سے کی گئی کیونکہ جاوید اختر کے خیالات کی وجہ سے مسلمانوں کے عقائد کی توہین ہوتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وحین فاؤنڈیشن نے پروگرام منسوخ کرنے کے لیے اکیڈمی پر دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ مفتی شمائل ندوی کا مزید کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے جاوید اختر کی کولکتہ آمد کا خیر مقدم کیا تھا اور انھیں مذاکرے کی دعوت دی تھی۔
اس کے علاوہ کولکتہ کی جمعیت العلمائے ہند نے بھی جاوید اختر کی پروگراموں میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ تنظیم کی جانب سے اردو اکیڈمی کے نائب صدر کو لکھے گئے ایک خط میں اس ادبی پروگرام کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تنظیم کے جنرل سیکریٹری ظل الرحمان عارف نے نغمہ نگار جاوید اختر کی محالفت کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ 'ایک ایسے شخص کو مدعو کرنا جو مذہب بیزار ہے، ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔‘
جمعیت العلمائے ہند کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے 'ایسے شخص کو مدعو کرنا تمام باشعور اور امن پسند افراد کے لیے باعث تشویش ہے۔'
’پاکستان کے بجائے جہنم جانا پسند کروں گا‘: جاوید اختر کا بیان جس نے پاکستانیوں کو پھر سے ناراض کر دیابالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی ’جادو‘ سے جاوید اختر بننے کی کہانی’کلبھوشن ناروے سے نہیں تھا۔۔۔ بہتر ہوتا جاوید اختر سیاست کے بجائے شاعری، ادب پر بات کرتے‘20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی پر کیوں خاموش رہے، جاوید اختر کی مودی پر تنقید
جمعیت العلمائے ہند مغربی بنگال میں برسرِ اقتدار ممتا بینرجی کی حکومت کی اتحادی ہے۔ بی بی سی نے اردو اکیڈمی کے نائب صدر ندیم الحق اور سیکریٹری نزہت زینب سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔
تاہم اردو اکیڈمی کی گورننگ باڈی کی ایک رکن پروفیسر غزالہ یاسمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک خالص ادبی پروگرام تھا۔ ہندی فلموں میں اردو کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور اسی کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔‘
غزالہ یاسمین کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کی تیاری میں مہینوں لگے تھے۔ ’جاوید اختر فلم کے ایک سرکردہ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، اسی کی مناسبت سے انھیں مدعو کیا گیا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جاوید اختر کے مذہب سے متعلق خیالات سے بہت سے لوگ متفق نہیں ہیں۔ ’لیکن اس ادبی پروگرام کا ان کے مذہبی خیالات سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس پروگرام کا ملتوی یا منسوخ کیا جانا افسوسناک ہے۔‘
جاوید اختر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’میری مخالفت ہندو اور مسلم دونوں تنظیموں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کچھ صحیح کر رہا ہوں۔‘
کولکتہ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس نے پروگرام منسوخ کیے جانے کی مذمت کی ہے۔
ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری رنجیت سور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت ملک کے آئین میں درج سیکولرازم کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ریاست میں انتخابات قریب ہیں۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جو حکومت کی اعلی سطح پر کیا گیا ہے۔ حکومت ریاست کے ایک طبقے کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔‘
کولکتہ کے کئی سرکردہ مسلم شہریوں نے بھی جاوید اختر کے پروگرام کو منسوخ کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ریاست کی وزیر اعلی ممتا بینرجی کو لکھے گئے ایک خط میں ان شہریوں کا کہنا ہے کہ ’بنیاد پرست عناصر نے اردو کی سیکولر زبان اور مغربی بنگال کی اردو اکیڈمی کو مسلمانوں سے جوڑ دیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ اس بنیادی تصور کے خلاف ہے کہ اردو سب کی زبان ہے۔
’ان عناصر نے اکیڈمی کو مسلمانوں سے منسوب کر دیا جب کہ یہ صرف ایک تقافتی ادارہ ہے۔‘
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’انڈیا میں ایک طبقہ یہ مانتا ہے کہ سیکولرازم کا مطلب مسلم بنیاد پرستی اور عدم رواداری کو فروغ دینا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکیڈمی کے پرگرام کی منسوخی سے اس تصور کو اور بھی مضبوطی ملے گی۔‘
’ہمیں اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ یہ بنگال جیسی روشن خیال ریاست میں ہوا ہے۔‘
نغمہ نگار جاوید اختر کا شمار بالی ووڈ کے ایک مقبول نغمہ نگار اور کہانی کار کے طور پر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ملک کے سرکردہ دانشوروں میں بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ انھيں اکثر ادبی پروگراموں اور ٹی وی پر بحث و مباحثوں میں مدعو کیا جاتا ہے۔
وہ مختلف پلیٹ فارمز پر کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ خدا اور کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ بالی ووڈ کے کئی اداکاروں اور فلمسازوں کی طرح وہ بھی ایک طویل عرصے تک دائیں بازو کی ہندو تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی تنقید کی زد میں رہے ہیں۔
جاوید اختر کولکتہ کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول رہے ہیں اور یہاں مختلف پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے اکثر آتے رہے ہیں۔
غالباً یہ پہلا موقع ہے جب سخت گیر مسلم مذہبی تنظیموں کی طرف سے منظم طریقے سے ان کے کسی ادبی پروگرام میں شرکت کی مخالفت کی گئی ہے۔
کولکتہ کے ایک سرکردہ سمابی کارکن منظر جمیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت افسوناک واقعہ ہے۔ اس سے پیغام گیا ہے کہ پورا کولکتہ تنگ نظروں کی گرفت میں آ چکا ہے۔‘
’میرا ماننا یہ ہے کہ جو آرٹسٹ، مصنف، شاعر اور تخلیق کار ہوتا ہے اس کی ایک الگ کائنات ہوتی ہے۔ اس کا کینوس مختلف ہوتا ہے۔ وہ بندشوں میں نہیں آتے۔ اگر انھیں مذہبی خیالات کے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کریں گے تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔‘
کولکتہ کے صحافی محمد ہاشم کا کہنا ہے کہ فلموں میں اُردو کے کردار پر اس وقت جاوید اختر سے اچھا بولنے والا کوئی نہیں ہے اور ان کا پروگرام منسوخ کرنا کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے۔
انھوں نے دعوٰی کیا کہ اردو اکیڈمی ہر دور میں حکومت کا سیاسی کھلونا رہی ہے اور یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔
’جاوید اختر مذہب اور خدا کے بارے میں اپنے خیالات کا بہت ہی ایمان داری اور صاف گوئی سے اظہار کرتے رہے ہیں۔ اردو اکیڈمی کا مذہب کے بارے میں ان کے مذہبی خیالات سے کیا لینا دینا ہے۔‘
کولکتہ شہر ادب، ثقافت، نئے تصورات، رواداری اور دانشوری کا مسکن تصور کیا جاتا ہے۔ اسے انڈیا میں نشاط الثانیہ کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ریاست میں سخت گیر مسلم مذہبی تنطیموں نے اپنے مذہبی تصورات کی بنیاد پر کسی مصنف کی مخالفت کی ہو۔
اس سے قبل نومبر 2007 میں دائیں بازو کی مذہبی تنظیموں کی قیادت میں کولکتہ کے مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی متنازعہ مصنفہ تسلیمہ نسرین کے ویزہ کی مدت میں توسیع کی مخالفت میں پرتشدد احتجاج کیا تھا۔
کولکتہ میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری اور تشدد کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج بلانی پڑی تھی۔ اس وقت ریاست میں کمیونسٹ حکومت بر سرِاقتدار میں تھی۔
بنگال میں اپوزیشن جماعت بی جے پی ایک عرصے سے وزیرِ اعلی ممتا بینربی پر الزام لگاتی آئی ہے کہ وہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے سخت گیر مسلمان تنظیموں اور انتہا پسند خیالات رکھنے والے مسلم رہنماؤں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
بنگال کے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کی مذہبی تنظیموں کے دباؤ میں آ کر اردو اکیڈمی کے ذریعے جاوید اخترکے پروگرام کو منسوخ کیے جانے سے ان الزما ت کو مزید تقویت ملے گی۔
آر ایس ایس کا طالبان سے موازنہ کرنے پر جاوید اختر نشانے پرسلیم جاوید: سپر ہٹ فلمیں لکھنے والی جوڑی جس نے امیتابھ بچن سے زیادہ معاوضہ لیا’ممبئی میں پانچ سال کس مشکل میں گزارے میں ہی جانتا ہوں‘وزیر اعظم مودی کی ایک خاموشی کی تعریف اور ایک پر تنقیدکرنل صوفیہ قریشی سے متعلق متنازع بیان پر سپریم کورٹ بھی برہم: ’ملک سنگین صورتحال سے گزر رہا ہو تو ہر لفظ ذمہ داری سے بولنا چاہیے‘