اگست 1543 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو یورپ کی تاریخ بدل سکتا تھا۔ جنوبی فرانس کے ایک شہر، نیس، کے ساحل پر سلطنت عثمانیہ کا بحری بیڑہ گھیراؤ کیے ہوئے تھا۔
شہر کی ناکہ بندی رومی ہیپس برگ سلطنت کے خلاف جنگ کا حصہ تھی۔ اگرچہ یہ محاصرہ کامیاب نہ ہو سکا تاہم اس مہم کی سربراہی کرنے والے شخص کا نام آج تک یاد رکھا جاتا ہے۔
یہ شخص خیر الدین بربروس تھے جو ایک وقت میں بحری قزاق ہوا کرتے تھے۔ خیرالدین کون تھے اور وہ ایک بحری قذاق سے سلطنت عثمانیہ کے اہم کمانڈر کیسے بنے اور انھیں ’سمندروں کا بادشاہ‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
بحیرہ ایجیئن میں لیسبوس کا جزیرہ، جو موجودہ یونان کا ایک حصہ ہے، 1470 میں سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط تھا۔
اسی جزیرے پر سلطنت عثمانیہ کے ایک نمایاں ہیرو پیدا ہوئے جو بعد میں بحیرہ روم کے بادشاہ بن گئے۔ پاشا بربروس، جن کے لقب کا اطالوی میں مطلب ہے ’سرخ داڑھی‘، اور ان کے بھائی اروج بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔
ہسپانوی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت
بربروس برادران بحیرہ روم میں بحری قزاقی کر رہے تھے جب سپین نے 1492 میں قرطبہ کے آخری مسلمان حکمران کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تو زیادہ تر مسلم آبادی شمالی افریقہ منتقل ہو گئی۔
1505 میں، ہسپانوی اور پرتگالیوں نے، شمالی افریقہ میں علاقائی توسیع کے مقصد سے خطے کے ساحلی شہروں پر حملے شروع کر دیے۔
اس وقت خیرالدین اور ان کے بھائی اروج، عثمانی سلطان بایزید دوم کے بیٹے کی ہدایت پر بحری قزاقی کر رہے تھے جس سے مغربی بحیرہ روم میں ہسپانوی اور پرتگالی جہاز رانی میں خلل پڑ رہا تھا۔
1512 میں بایزید دوم کی موت کے ساتھ، اس کے بیٹوں سلیم اور احمد کے درمیان جانشینی کا تنازع شروع ہو گیا، اور احمد کی شکست کے بعد ان کے حامی شمالی افریقہ آگئے۔
سلطان سلیم نے اپنے بھائی کو پھانسی دے دی تو بربروس بھی ایک ایسے حکمران سے چھٹکارا پانے کے لیے شمالی افریقہ فرار ہو گئے جو واضح طور پر ان کے مخالف تھے۔ خیر الدین نے ہسپانوی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔
سقوط غرناطہ: جب مسلمان حکمران نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیںچھ صدیوں تک سپر پاور رہنے والی سلطنت عثمانیہ کا زوال اور ترکی کے قیام کی کہانیسلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنایا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانیہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیا
اگلے تین سال کے دوران، بربروس برادران مغربی بحیرہ روم میں ہسپانوی اور پرتگالیوں کے خلاف بحری مہمات میں نمایاں ہوئے۔
سمندری ڈاکو ریاست
1516 میں، دونوں بھائیوں نے الجزائر شہر پر حملہ کیا اور اس کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
ان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے عثمانی سلطنت نے انھیں مالی اور سیاسی مدد کی پیشکش کی، اروج کو الجزائر کے گورنر کا عہدہ اور خیرالدین کو مغربی بحیرہ روم کے ایڈمرل کا عہدہ دیا گیا۔ لیکن دونوں بھائیوں کسی حد تک سلطنت عثمانیہ سے خودمختار رہے۔
1518 میں، اروج ہسپانویوں سے لڑتے ہوئے مارا گیا، جنھوں نے الجزائر کے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت، خیرالدین، جس نے بربروس کا لقب اختیار کیا، نے ہسپانویوں سے لڑنے کے لیے پیش قدمی کی، اور عثمانیوں سے مدد طلب کی۔
وہ شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جو آہستہ آہستہ پہلی باضابطہ قزاق ریاست میں تبدیل ہو گیا، جس کی سلطنت عثمانیہ سے فوجی اور سیاسی آزادی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔
بعد ازاں عثمانیوں نے الجزائر کو مغربی بحیرہ روم میں اپنے اڈے کے طور پر استعمال کیا۔
BBCعثمانیوں نے الجزائر کو مغربی بحیرہ روم میں اپنے اڈے کے طور پر استعمال کیا
1522 میں، عثمانی سلطان سلیمان نے جزیرہ روڈز پر قبضہ کر لیا اور بربروس کو اس کا حکمران مقرر کیا۔
بربروس اور ان کی افواج نے 1531 میں تیونس پر قبضہ کیا تو انھیں سلطنت عثمانیہ کا گرینڈ ایڈمرل (کپتان پاشا) بنا دیا گیا۔
بربروس کی سب سے بڑی بحری جنگ 1538 میں وینس، جینیوا، اسپین، پرتگال، مالٹا اور پوپ کے بیڑے پر فتح تھی۔
اس کی فتح کا راز ہوا پر انحصار کرنے والے بحری جہازوں کے بجائے چپو کی مدد سے چلنے والے بحری جہازوں کا اسعتمال تھا، جس کی وجہ سے ان کے جہاز زیادہ متحرک تھے۔ ان کی حکمت عملی کی وجہ سے 122 جہازوں پر مشتمل بیڑے نے 300 جہازوں کے یورپی بیڑے کو شکست دی۔
اس فتح نے عثمانیوں کے لیے طرابلس اور مشرقی بحیرہ روم کو کنٹرول کرنے کی راہ ہموار کی۔
بربروس نے اس کے بعد 1543 میں ہولی رومن ایمپائر (ہبسبرگ ایمپائر) کے خلاف فرانسیسیوں کی مدد سمیت کئی فوجی مہموں میں حصہ لیا۔
خیر الدین بربروس 1546 میں قسطنطنیہ میں وفات پا گئے۔
سقوط غرناطہ: جب مسلمان حکمران نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیںسلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنایا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانیہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیاغازی آبدوز جس کے ڈوبنے کی اصل وجہ پچاس سال بعد بھی ایک معمہ ہےجب کراچی کی بندرگاہ انڈین میزائل بوٹس کے حملوں کا نشانہ بنی