اگست سنہ 2021 میں دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک دن بعد ملک چھوڑنے کے خواہش مند کچھ افغان کابل ہوائی اڈے پر اڑان بھرنے والے ایک امریکی طیارے کے ڈیک سے لپک گئے لیکن ’فضا میں‘ بلند ہونے کے کُچھ ہی دیر بعد کُچھ نوجوان اس سے گر کر ہلاک ہو گئے۔
اس واقعے کے چار سال بعد بھی ہلاک ہونے والے ان افراد کے اہلِ خانہ مایوسی کے ان لمحات کو یاد کرتے ہیں اور اس غم سے آج بھی نڈھال ہیں۔ اس غم اور دُکھ سے متعلق اُن لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے باہر نکلنا شاید اب اُن کے بس کے بات نہیں ہے۔
آج سے چار سال قبل دنیا بھر میں ہی کابل کے ہوائی اڈے پر امریکی فوج کے ایک طیارے کے ساتھ دوڑتے ہوئے سینکڑوں افراد کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن میں سے کچھ تو اس کے ڈیک سے لپکے ہوئے تھے اور کُچھ اسی کوشش میں اس کے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔
تاہم انھیں ویڈیوز میں سے کُچھ میں وہ لمحات بھی دیکھے گئے کہ جب کچھ لوگ فضا میں امریکی فوج کے سی 17 طیارے سے گرتے نظر آئے۔
طیارے سے گرنے والے افراد میں شفیع اللہ ہوتک بھی شامل تھے۔
ان کی عمر 18 سال تھی اور انھوں نے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رکھا تھا لیکن ان کے پاس اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اپنا خواب پورا کرنے یعنی ایک ڈاکٹر بننے کے لیے انھیں سخت محنت کرنی تھی۔
16 اگست سنہ 2021 کو طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے ایک دن بعد ہوتک بھی بہت سے دیگر افغان نوجوانوں کی ہی طرح یہ افواہ پہنچی کہ 20 سال تک اُن کے مُلک پر قابض رہنے والے امریکی فوجی اب جنگ کے بعد واپس جاتے ہوئے امریکہ جانے اور اپنا مستقبل بنانے والے خواہشمند نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔
اسی صبح جیب میں 50 افغانی روپے لیے انھوں نے اپنے والدین سے کہا کہ ’میں امریکہ جا رہا ہوں۔‘
امریکی طیارے میں سینکڑوں افغان شہری، اس تصویر کے پیچھے کہانی کیا ہے؟’خودکش حملہ ہوتا ہے تو ہمیں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘افغان بچوں میں غذائی قلت: ’پاکستان میں بھی زندگی مشکل تھی لیکن اگر وہاں ہوتے تو علاج کروا سکتے تھے ‘افغانستان ’انسانی المیے‘ کے دہانے پر، ’اگلے چھ ماہ زمین پر جہنم کے ہوں گے‘
ہوائی اڈہ ایسے ہی متعدد خاندانوں سے بھرا ہوا تھا جن کے پاس چند ایسے ضروری کاغذات تھے کہ جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ جلد بازی میں فرار ہونے والے امریکیوں ساتھ جانے میں اُن کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے۔
شفیع اللہ ہوتک کی والدہ زر بی بی ہوتک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’شفیع اللہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ اگر وہ امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو میں یہاں محنت مزدوری کرنا بند کر دوں گی اور بس اس کے بعد ہماری زندگی میں راحت اور چین ہوگا وہ ہمارے لیے وہ سب کرے گا کہ جو اب تک ہم اُس کے لیے کرتے آئے ہیں۔‘
ہوتک کی والدہ نے بتایا کہ ’میں نے اُس کے ہاتھ میں اُسی کا شناختی کارڈ تھمایا اور بہت سی دُعائیں دے کر رخصت کیا، وہ ہم سے ملا پیار کیا اور چلا گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ مر چکا ہے۔‘
اگست سنہ 2021 میں نیٹو ممالک نے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کو ملک بدر کیا تھا۔ ان افراد میں سے دو ہزار ایسے تھے جنھوں نے نیٹو افواج کے ساتھ خدمات انجام دیں یا ان کے ساتھ تعاون کیا۔
اس کے بعد آئندہ چند ماہ کے دوران مزید ہزاروں افراد نے افغانستان چھوڑ دیا۔
Getty Imagesامریکی فوج کے جہاز سے گر کر ہلاک ہونے والے شفیع اللہ ہوتک کی والدہ زر بی بی ہوتک اپنے بیٹے کی تصویر تھامے ہوئے ہیں
شفیع اللہ کے 29 سالہ بھائی انتظار ہوتک نے سنہ 1996 سے سنہ 2021 تک طالبان کے ابتدائی دور کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے پچھلی طالبان حکومت کے بارے میں کہانیاں سنی تھیں، کہ جس دور میں دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے ذہنوں میں یہی کہانیاں تھیں۔ ہم فکرمند تھے اور سوچ رہے تھے کہ ’یہاں‘ اب کوئی کام نہیں ہوگا۔‘
کابل کا مشرقی حصہ جہاں وہ رہتے ہیں گندے پانی کی ندیوں سے گھرا ہوا ہے اور وہاں رہنے کی استطاعت رکھنے والے صرف ایسے خاندان ہیں جنھیں اُن کے پیارے بیرون ملک سے پیسے بھیج رہے ہیں۔
شفیع اللہ کی والدہ نے گلاب کے ایک پودے کے پاس کھڑے خوصورت سیاہ بالوں اور روشن، چمکتی ہوئی آنکھوں والے ایک نوجوان کی تصویر تھام رکھی تھی، انھوں نے کہا کہ ’شفیع اللہ نے کہا تھا کہ اب اس مُلک کی صورتحال بہتر نہیں ہوگی اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ میں یہاں سے چلا جاؤں۔‘
ان کی لاش ہوائی اڈے سے چند کلومیٹر دور شمالی کابل میں موجود ایک گھر کی چھت پر گری۔
ایسا ہی کچھ 24 سالہ فدا محمد کے ساتھ بھی ہوا جو اپنے والد پائندہ محمد کے مطابق طالبان سے نفرت کرتے تھے۔
16 اگست کو وہ اپنے ڈینٹل کلینک میں علاج کے بہانے مغربی کابل کے علاقے پغمان میں واقع اپنے گھر سے نکلے۔
اس صبح ان کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد ان کے اہل خانہ نے فدا محمد کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
لیکن دوپہر کو ایک نامعلوم شخص نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ ہوائی اڈے پر ہیں اور کہا کہ ’کیا آپ فدا کو جانتے ہیں؟ وہ طیارے سے گر گیا ہے۔‘
اس نوجوان ڈینٹسٹ شاید اپنے اس سفر کے خطرات کو بھانپ چُکا تھا اسی لیے اُس نے احتیاطی طور پر اپنی جیب میں اپنے والد کا موبائل نمبر رکھ لیا تھا۔
BBC24 سالہ نوجوان ڈینٹسٹ فدا محمد کے والد پائندہ محمد’میں کچھ نہیں جانتا‘
زر بی بی ہوتک کو رشتہ داروں نے اطلاع دی جنھوں نے عینی شاہدین کی جانب سے فیس بک پر پوسٹ کی گئی شفیع اللہ کی تصویر دیکھی تھی۔
انھوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں چیخی اور پاگلوں کی طرح بھاگی۔ میرے کچھ پڑوسی حیران تھے اور انھیں نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں نے ایک شخص کو پکڑ ا اور اسے گھر لے آئی۔‘
انخلا کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد آج تک کسی کو معلوم نہیں۔
امریکی فوج نے سنہ 2022 میں کہا تھا کہ اس کے لیے فضائی عملہ ذمہ دار نہیں ہے۔
ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ عملے نے نازک سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ہوائی اڈے کو جلد از جلد خالی کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ طیارے کو سینکڑوں افغان شہریوں نے گھیر رکھا تھا جو ہوائی اڈے کے احاطے کو عبور کر کے رن وے تک پہنچ چُکے تھے۔
لیکن جن خاندانوں سے اے ایف پی نے بات کی ان کا کہنا تھا کہ بس یہی کہ دینا کافی نہیں ہے۔
زر بی بی ہوتک نے کہا کہ ’کسی نے ہمیں نہیں بلایا، نہ پچھلی حکومت، نہ طالبان نے اور نہ ہی امریکی انتظامیہ نے۔‘
ذاکر انوری جن کے بھائی ذکی انواری اسی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’آج کے اس جدید دور میں طیاروں میں کیمرے لگے ہوتے ہیں۔۔۔ پائلٹ کے سامنے ساری صورتحال تھی وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، اُس وقت میں طیارے کو اُڑانا انتہائی خطرناک تھا اور اُن کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ طیارے کو روک لیتے۔‘
17 سالہ فٹ بال کے کھلاڑی ذکی انواری تجسّس کی وجہ سے ایک اور بھائی کے ساتھ ایئرپورٹ گئے تھے۔
ان کے بھائی ذاکر انواری کا کہنا ہے کہ ذکی نے ہوائی اڈے پر بھیڑ کو دیکھ کر خطرہ مول لینے اور اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔
’ہر کوئی حیران تھا۔ ذکی جو اتنا ہوشیار تھا اس طرح کا خطرہ کیسے مول لے سکتا تھا؟ لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ میں نے ہوائی اڈے پر ایک شخص کو دیکھا جس کے چھ بچے تھے اور اس نے تین بار جہاز میں سوار ہونے کی کوشش کی تھی۔‘
انواری جو ہوائی اڈے پر اپنے بھائی کو تلاش کر رہے تھے انھیں اب بھی پک اپ ٹرک میں لاشوں کا ڈھیر، زمین پر خون اور طالبان کے مسلح شخص کا مارنا پیٹنا سب یاد ہے۔
’مجھے ایک سال تک ڈراؤنے خواب آتے رہے، میں ایک لمبے عرصے تک ٹھیک سے سو نہیں سکا، اب تک اس سب کو بھلانا نامُمکن ہے۔‘
امریکی طیارے میں سینکڑوں افغان شہری، اس تصویر کے پیچھے کہانی کیا ہے؟افغانستان ’انسانی المیے‘ کے دہانے پر، ’اگلے چھ ماہ زمین پر جہنم کے ہوں گے‘افغان بچوں میں غذائی قلت: ’پاکستان میں بھی زندگی مشکل تھی لیکن اگر وہاں ہوتے تو علاج کروا سکتے تھے ‘’خودکش حملہ ہوتا ہے تو ہمیں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘اربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیںغربت کے شکار افغانستان میں طالبان ’دنیا میں بہترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی افغانی‘ کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں؟