’ہمیں بیچ راہ میں چھوڑ دیا گیا‘، غیرقانونی ٹور آپریٹرز کے خلاف سیاحوں کی شکایات

اردو نیوز  |  Aug 08, 2025

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے مواقع بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹور آپریٹرز کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک جانب ٹور آپریٹرز کمپنیوں میں اضافہ سیاحت کے شعبے کو فائدہ پہنچا رہا ہے، تو وہیں دوسری جانب غیر رجسٹرڈ اور غیر تربیت یافتہ نان پروفیشنل کمپنیاں سیاحوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ 

نت نئے ناموں سے ایسے ٹور آپریٹرز متعارف ہو رہے ہیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی تشہیر کر کے سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر رہے ہیں، لیکن غیرتسلی بخش سروس کے باعث سیاحوں کی جانب سے شکایتوں کے انبار بھی سامنے آ رہے ہیں۔

حالیہ سیزن میں متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس میں ٹور آپریٹرز اور سیاحوں کے درمیان ناخوشگوار صورتحال پیش آئی۔

ٹور آپریٹرز کے خلاف شکایات 

سیاحوں کی جانب سے گزشتہ ایک ماہ کے اندر کئی شکایات سامنے آئیں تاہم متعلقہ حکام کے پاس کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں۔

ٹور گائیڈ شکیل اختر کے مطابق ٹور کمپنیوں سے متعلق اکثر شکایات گلگت بلتستان سے آتی ہیں۔ کچھ کمپنیاں سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحوں کی بکنگ کرتی ہیں جن کے ساتھ سفر کے دوران سیاحوں کا تجربہ ناخوشگوار لمحات میں بدل جاتا ہے۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 21 جولائی کو ہنزہ میں سیاحوں کے ایک گروپ کو چھوڑ کر ٹور آپریٹر غائب ہو گئے تھے۔

’سیاحوں کو بیچ راہ میں چھوڑ دیا گیا تھا، ٹور آپریٹر کے ساتھ پیسوں کا تنازع پیدا ہوا جس کے بعد ان کو بازار میں اتار کر گاڑی رفو چکر ہو گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ناتجربہ کار ٹریول کمپنیوں کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو چند پیسوں کی لالچ میں سیاحوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔‘

غیر معیاری سروس پر تنازع

سیاحوں اور ٹور آپریٹرز کے درمیان تکرار کی ایک وجہ غیر معیاری سروس بھی ہے۔ سفر کے دوران غیر معیاری ریستوران میں کھانے کی فراہمی پر سیاح الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 

ٹور گائیڈ شکیل اختر کے مطابق ناتجربہ گار ٹریول کمپنی کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)ایسا ہی ایک ناخوشگوار واقعہ سکردو جانے والے سیاحوں کے ساتھ پیش آیا جس میں سیاحوں کو متعین کردہ ریستوران کی بجائے کسی اور غیر معیاری ریستوران سے کھانا کھلایا گیا۔

اس گروپ میں شامل پشاور کے ایک سیاح محمد حسنین نے بتایا کہ ٹور کمپنی کی جانب سے چھ روزہ ٹرپ کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے لیے فی کس پیسے وصول کیے گئے۔ کمپنی کی جانب سے شیڈول بھی فراہم کیا گیا جس میں قیام و طعام کے لیے ہوٹل اور ریستوران کے نام درج تھے، تاہم سفر کے دوران کسی بھی مقررہ مقام پر طعام کا انتظام نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ناشتے کے بعد دوپہر کا کھانا شام کو کھلایا گیا جس کے بعد بس میں سوار تمام مسافر منتظمین سے الجھ پڑے اور چار گھنٹے تک ہوٹل میں مذاکرات ہوتے رہے۔

محمد حسنین کا کہنا تھا کہ اس کمپنی کے ٹور گائیڈ کے غیر مناسب رویے کی وجہ سے ہمارا ٹرپ خراب ہو گیا۔

پنجاب کے ایک اور سیاح گروپ کے ساتھ گلگت بلتستان میں بحث و تکرار ہوئی جس کے بعد سیاحوں نے مقامی پولیس کو اطلاع دی تھی۔

سیاحوں کے مطابق خاتون ٹور گائیڈ کے ساتھ فیری میڈوز کی سیر ایک ڈراؤنا سفر ثابت ہوا۔ ’نہ گائیڈ اور نہ ہی ٹریکنگ کے لیے کوئی معاون ساتھ دیا گیا تھا، بس تنگ راستوں کو دیکھ کر خود ہی جانا پڑا۔‘

سیاحوں نے مزید کہا کہ ٹورگائیڈ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ راستے میں سیاحوں کو رہنمائی فراہم کرے، ورنہ بندہ اکیلے بھی سفر کر سکتا ہے۔‘

خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹوارزم اتھارٹی نے سیاحت سے منسلک ٹور گائیڈ کمپنی کے لیے لائسنس لازمی قرار دے دیا ہے (فائل فوٹو: پی آئی ٹی ایچ ایم)کمراٹ جانے والے سیاحوں کے ساتھ بھی پنجاب کے کچھ ٹور آپریٹرز نے دھوکہ کرتے ہوئے زیادہ پیسے لینے کی کوشش کی تھی تاہم مقامی انتظامیہ اور ٹوارزم پولیس نے معاملہ بروقت حل کر دیا۔ 

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں مہینے میں لاکھوں سیاح سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک آدھ واقعات رونما ہوئے ہوں گے تاہم مجموعی طور پر ٹور آپریٹر اور ٹریول گائیڈز بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور انہی کی بدولت سیاحوں کو تفریح کے ساتھ معلومات بھی  فراہم ہوتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سیاحوں کی آسانی کے لیے سیاحتی مقامات پر ضلعی انتظامیہ کے نمبر آویزاں کیے گئے ہیں، شکایات ملنے کی صورت میں ضروری کارروائی کی جائے گی۔‘

ٹور گائیڈ کمپنی کی رجسٹریشن ضروری قرار

خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹوارزم اتھارٹی نے سیاحت سے منسلک ٹور گائیڈ کمپنیوں کے لیے لائسنس حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔

حکومت کے اعلامیے کے مطابق غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کےخلاف ٹورازم پولیس کو کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے جو ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ سیاحوں کی شکایات پر کارروائی بھی کرے گی۔

محکمۂ سیاحت کا موقف 

خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس کا کہنا ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر کچھ انفلوئنسرز ٹور آپریٹرز بنے ہوئے ہیں جن کے پاس نہ تو لائسنس ہوتا ہے اور نہ ہی دفتر وغیرہ۔ ایسے خود ساختہ ٹور آپریٹرز پروفیشنل بھی نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے افراد جب سیاحوں کے گروپ کو لے کر کسی تفریحی مقام جاتے ہیں تو انتظامات نہ ہونے کے باعث سیاحوں کے ساتھ مسئلہ آجاتا ہے۔‘

ترجمان ٹورازم اتھارٹی کے مطابق خیبر پختونخوا میں ٹور آپریٹرز کو تقریباً رجسٹرڈ کر دیا گیا ہے تاہم پنجاب کے کچھ ٹور آپریٹرز ہیں سوات یا ناران وغیرہ آتے ہیں لیکن ایسی شکایات بہت کم آتی ہیں جس میں سیاحوں کے ساتھ دھوکہ ہو۔‘

ترجمان ٹورازم اتھارٹی کے مطابق خیبرپختونخوا میں ٹور آپریٹرز کو رجسٹرڈ کر دیا گیا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)انہوں نے بتایا کہ ’ٹورازم پولیس کو مکمل اختیار دیا گیا ہے وہ مختلف چیک پوسٹس پر ٹور آپریٹرز کے لائسنس چیک کرے گی۔ اگر وہ کمپنی غیر رجسٹرڈ ہوئی تو اسے جرمانہ کیا جائے گا اور سیاحوں کے گروپ کو بھی واپس کیا جائے گا۔‘

انہوں نے مشورہ دیا کہ سیاحوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ٹور آپریٹر کی رجسٹریشن کو چیک کرکے ٹور بکنگ کریں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس کا نے مزید کہا کہ ’غیرقانونی کام کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ٹور آپریٹرز کو ٹورازم اتھارٹی کے تمام ایس او پیز پر عمل درامد کرنا پڑے گا۔ ہماری کوشش ہے کہ سیاحوں کی مشکلات کو کم کر کے ان کے لیے آسانی پیدا کی جائیں تاکہ سیاحت کو فروغ ملے۔‘

دوسری جانب محکمہ سیاحت نے مون سون بارشوں کے دوران ٹور گائیڈز کو ہدایت کی ہے کہ وہ موسم اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفر کا فیصلہ کریں تاکہ ناگہانی حادثات سے بچا جا سکے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More