بلوچستان میں حکومت غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے مدارس کے طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری اور فنی تعلیم فراہم کرنے کے منفرد منصوبے پر کام کررہی ہے۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف طلبہ کو جدید تعلیمی دھارے سے جوڑنا ہے بلکہ ان بچوں کو بھی تعلیم کی طرف واپس لانا ہے جو غربت یا دیگر وجوہات کی بنا پر سکولوں سے باہر ہیں۔
بی آر ایس پی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر طاہر رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ (پی پی اے ایف ) کے تعاون سے چلنے والے اس منصوبے میں نہ صرف کوئٹہ، پشین اور مستونگ کے اضلاع کے مدارس بلکہ دیگر مذاہب کے پانچ عبادت گاہوں کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ بین المذاہب رواداری کو بھی فروغ ملے۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کا مقصد نہ صرف مدارس کے طلبہ کو رسمی تعلیم اور فنی تربیت کے مواقع فراہمی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کا فروغ بھی ہے اس سلسلے میں مختلف مکالماتی پلیٹ فارمز، مشاہداتی دورے اور غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا جا رہا ہے۔ان کے مطابق منصوبے کے تحت اب تک 15 مدارس اور 5 ماڈل عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش مکمل کی جا چکی ہے جس سے پانچ ہزار سے زائد افراد مستفید ہو رہے ہیں جن میں لگ بھگ دو ہزار لڑکیاں بھی شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مدارس اور مذہبی عبادتگاہوں میں پڑھانے والے 26 اساتذہ کو تربیت دی گئی ہے اور ہر استاد کو ماہانہ وظیفہ دیا جا رہا ہے۔ جبکہ ایک ہزار سے زائد کو کتابیں، بستے اور دیگر ضروری سامان بھی فراہم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کی تربیت کرکے ان کی استعداد میں اضافہ کیاگیا ہے تاکہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ جدید سائنسی مضامین بھی پڑھا سکیں۔بی آر ایس پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ملک انور سلیم کاسی نے بتایا کہ یہ اس قسم کا دوسرا منصوبہ ہے۔ بی آر ایس پی صوبے کے دس اضلاع میں 280 مدارس میں کام کر رہی ہیں جہاں طلبہ کو نہ صرف دینی تعلیم بلکہ عصری اور فنی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں محکمۂ تعلیم کی منظوری سے ایک باقاعدہ نصاب ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت پانچ سالہ پرائمری کورس تین سال اور تین سالہ مڈل کورس دو سال میں مکمل کروایا جاتا ہے۔ طلبہ کو ریاضی، سائنس اور دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل مکینک، پلمبنگ اور دیگر ووکیشنل کورسز کے ذریعے فنی تربیت بھی دی جاتی ہے۔انور کاسی کا کہنا ہے کہ نصاب مکمل کرنے کے بعد مدارس کے طلبہ باقاعدہ بورڈ کے امتحانات دے سکتے ہیں اور چاہیں تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول، کالج، یونیورسٹی یا فنی اداروں میں داخلہ بھی لے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بیشتر مدارس میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بچے جدید تعلیم سے بھی ہم آہنگ ہوں تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں اور بہتر روزگار اور تعلیم کے مواقع حاصل کر سکیں۔ یہ منصوبہ اسی سمت ایک عملی قدم ہے۔انور سلیم کاسی کے مطابق انہوں نے مزید بتایا کہ ’مدارس اور این جی اوز کے درمیان ماضی میں کافی خلاء اور اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ اس لیے شروع میں مدارس میں جاکر کام کرنے میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے وفاق المدارس اور علمائے کرام سے مشاورت کی، ان کے تحفظات سنے اور انہیں اعتماد میں لے کر یہ منصوبہ شروع کیا اور اب ہمیں ان کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔‘محکمۂ تعلیم کی منظوری سے ایک باقاعدہ نصاب ترتیب دیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)کوئٹہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور معروف عالمِ دین انوارالحق حقانی نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ دینی کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کریں لیکن مدارس میں وسائل کی کمی ہے۔ اچھی بات ہے کہ اب غیر سرکاری ادارے مدارس میں بھی کام کر رہے ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ حکومت کو بھی دینی مدارس پر توجہ دینی چاہیے۔‘ وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وجیہہ قمر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت مدارس کے طلبہ کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے میں مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ان کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت مذہبی تعلیم کے لیے ایک الگ ڈائریکٹوریٹ موجود ہے جس کے تحت ملک بھر کے 19 ہزار سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہیں تاہم بلوچستان سے صرف 590 مدارس رجسٹرڈ ہیں۔وجیہہ قمر نے کہا کہ رجسٹریشن سے مدارس کو تربیت، امتحانی نظام اور دیگر سہولیات میسر آتی ہیں اس لیے بلوچستان کے مدارس کو اپنی رجسٹریشن بڑھانی چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ کے لیے بھی آئی ٹی، میڈیکل اور انجینیئرنگ کے دروازے کھلے رہے تاکہ وہ بھی ڈاکٹر، انجینیئر، سائنس دان اور آئی ٹی ماہر بن سکیں۔صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی کا کہنا ہے کہ مدارس اس وقت محکمۂ صنعت کے پاس رجسٹرڈ ہیں جبکہ انہیں صوبائی محکمۂ تعلیم کے پاس رجسٹرڈ ہونا چاہیے تاکہ محکمۂ تعلیم تعلیمی اداروں کی طرح ان پر توجہ دے سکیں۔بلوچستان میں 30 لاکھ بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)محکمۂ تعلیم بلوچستان کے مطابق صوبے میں تقریباً 30 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق صوبے کی شرح خواندگی صرف 42 فیصد ہے جو ملک میں سب سے کم ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ان بچوں کو تعلیمی دھارے میں لانے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں والدین معاشی مجبوری کے تحت بچوں کو صرف مدارس میں تعلیم دلواتے ہیں۔ملک انور سلیم کاسی کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حکومت کے لیے ایک نمونہ ہے۔ اس طرز کے پروگرامز بڑے پیمانے پر صرف حکومت ہی چلا سکتی ہے۔پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ کے چیف ایگزیکٹیو نادر گل بڑیچ کے مطابق منصوبے کے تحت بچوں کو نہ صرف اساتذہ بلکہ مفت کتابیں، بیگز اور دیگر تعلیمی مواد بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اب تک اسلام آباد میں 100 بچوں کو چھ ماہ کی تکنیکی تربیت بھی دی ہے۔ابتدائی مرحلے میں منصوبے کا آغاز کوئٹہ، مستونگ اور پشین کے تقریباً 280 مدارس میں کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔ اگر صرف چھ ہزار مدارس میں ایک ایک استاد بھرتی کیا جائے تو پانچ لاکھ بچے عصری تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لیے نئے سکول بنانے یا کوئی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔نادر گل بڑیچ کے مطابق بلوچستان کی پچھلی حکومت نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور منصوبے پر کام بھی شروع ہوا تاہم بعد میں وفاقی سیکریٹری تعلیم نے یہ کہہ کر اسے روک دیا کہ مدارس وفاق کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مدارس کو عصری تعلیمی نظام کا حصہ بناکر صوبے میں تعلیم کی شرح اور معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔