پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک آٹھ سالہ بچی تیندوے کے حملے میں ہلاک ہو گئی ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بچی کی ہلاکت کے اگلے ہی روز تیندوا ایک اور شخص پر بھی حملہ آور ہوا تاہم اس نوجوان نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
سنیچر کو ضلع جہلم ویلی چناری سے 25 کلومیٹر دور علاقے پانڈو ڈبراں میں تیندوے نے جویریہ نامی بچی پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہی تھیں۔
بچی کی والدہ نازمین بی بی نے اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھر کے کمرے میں موجود تھیں اور ان کے شوہر گھر کے کچھ فاصلے پر مال مویشیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
’شام چار بجے کا وقت تھا۔ میری بیٹی باہر کھیل رہی تھی جبکہ دوسرے دو بچے اس سے الگ گھر کی دوسری سمت میں تھے کہ اچانک ایک خوفناک آواز آئی، جیسے کسی کے تیز قدموں کی آواز ہو۔ فوراً میں کمرے سےباہر نکلی تو دیکھا کہ تیندوا میری بیٹی کو اپنے جبڑوں میں اٹھائے لے جا رہا تھا۔ وہ اتنی تیزی سے گیا کہ میری آنکھوں کے سامنے سے فوراً ہی غائب ہو گیا۔ یہ منظر دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ سیاہ ہو گیا اور میرے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔‘
بچی کی والدہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو بچانے کی کوشش کی لیکن تیندوے تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔
’میں تیندوے کے پیچھے دوڑنے لگی، میں بس اتنا کہہ پا رہی تھی کہ میری بچی کو بچاؤ۔ راستہ کافی مشکل تھا، کبھی میں گر جاتی، کبھی سنبھلتی۔۔۔ میری آواز سن کر میرے شوہر اور گاؤں کے لوگ بھی میرے پیچھے دوڑ رہے تھے لیکن کسی کو یہ یقین نہیں ہو رہا تھا کیا سچ میں تیندوا بچی کو لے گیا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’جب میں مزید نہ چل سکی تو مجھے گھر میں دوسرے بچوں کا خیال آیا تو میں واپس دوڑتی ہوئی پہنچی۔ میرے باقی بچے گھر کے ایک کونے میں چھپے ہوئے تھے۔ وہ خوف سے کانپ رہے تھے اور ان کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔‘
خاتون کے بقول شام سات بجے کے قریب ان کے شوہر اور گاؤں کے لوگ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں بچی کا بے جان وجود تھا۔
بچی کے والد غلام مصطفیٰ اعوان نے بتایا کہ پہلے ہمارے مال مویشی تیندوے کا شکار ہوتے رہے لیکن اب یہ بچوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
وہ حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کوئی ایسا بندوبست کریں کہ ہمارے بچوں کی جان بچ سکے، ہمیں کچھ ایسا بتایا جائے کہ ہماری جان اور مال محفوظ رہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ ہم یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہو سکیں۔‘
Getty Imagesفائل فوٹوایک اور نوجوان پر تیندوے کا حملہ
نازمین بی بی کا گاؤں لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے، جہاں جنگلی حیات کی دراندازی کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے اور تیندوے کے حملے یہاں نئی بات نہیں۔
گاؤں کے لوگ اس واقعے سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ دوسرے ہی دن یعنی اتوار کو بچی کے نماز جنازہ کے بعد اسی گاؤں کے ایک اور نوجوان پر بھی تیندوے نے حملہ کیا۔
شہزاد نامی نوجوان نے بتایا کہ ’میں اتوار کی شام کو وفات والے گھر سے واپس آرہا تھا کہ اچانک تیندوے نے حملہ کیا۔ میں نے بھاگ کر جان بچائی تاہم گرنے سے میں زخمی ہوا۔ باقی گاؤں والوں نے شور کیا تو تیندوا واپس گیا جس کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔‘
ایبٹ آباد میں تیندوے کی موت، کیا زخمی ہونے والا شخص خود تیندوے کے پاس گیا؟ایک سالہ بچہ جس نے کوبرا سانپ کو کاٹ کر ہلاک کر دیا: ’کوبرا کو کاٹنے کے بعد بچہ بےہوش ہو گیا تھا، مگر اب صحتمند ہے‘300 فٹ بلند درخت پر پھنسا تیندوا اور 1000 فٹ گہری کھائی: ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے ہے‘برفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟’انسانی جان سب سے اہم ہے‘
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دو دن تک اس گاؤں میں تیندوا تسلسل کے ساتھ نظر آتا رہا جس کی وجہ سے گاوں میں خوف و ہراس پیدا ہو چکا ہے تاہم پیر کے روز پاکستان آرمی کی جانب سے اسے مار دیا گیا۔
ایس پی جہلم ویلی مرزا زاہد بیگ نے بتایا کے ’تیندوا مسلسل آباد ی میں آ رہا تھا اور انسانوں پر حملہ آور بھی ہوا جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو رہا تھا تاہم فوج نے اسے مار دیا۔‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت کے وزیر وائلڈ لائف سردار جاوید ایوب نے بتایا کہ ہر زندہ چیز کا تحفظ ضروری ہے تاہم انسانی جان سب سے اہم ہے۔
’وائلڈ لائف کا ماہر عملہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے تیندوا، زیرو لائن کی طرف چلا جاتا، جہاں سویلین ملازم نہیں جا سکتے جس کی وجہ سے اس کو کنٹرول کرنا یا آبادی سے دور کرنا مشکل عمل ہو جاتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جنگلی جانوروں کا تحفظ بھی حکومت کے فرائض میں ہے تاہم جہاں یہ آبادیوں کے اندر آ جائیں وہاں کچھ اقدامات کرنے ضروری ہو جاتے ہیں۔ وائلڈلائف کی کوشش ہے ان کو نقصان پہنچائے بغیر انسانی آبادیوں سے دور کیا جائے۔ دیہی علاقوں میں اس وقت جو مال مویشی کی صورت میں جو نقصان ہوا، حکومت اس پر غور کر رہی ہے کہ اس نقصان کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔‘
’یہاں ایک نہیں اور بھی تیندوے موجود ہیں‘
گاؤں کے رہائشی چوہدری نزاکت نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں پانچسے چھ تیندوے ہیں جو وقتاً فوقتاً مال مویشی کے علاوہ انسانی جان کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں اور کئی روز سے گاؤں کے اندر دن کے وقت بھی نظر آتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ بچی پر حملے والے واقعے کے بعد بھی بچوں نے تیندوے کو مقامی قبرستان میں دیکھا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں مقیم خاندانوں میں کوئی گھر ایسا نہیں جس کے مال مویشی کا نقصان نہ ہوا ہو۔ ہر روز کسی نہ کسی کے مویشی خانہ سے ایک دو بکریوں کو تیندوا کھا جاتا ہے، اب جب مال مویشی کی تعداد میں کمی ہوتی گئی تویہ انسانی جان کا دشمن بن گیا۔‘
’ہم نے مقامی سطح پر اقدامات کیے ہیں۔ مویشی خانوں کو بہتر بنایا، ہم گاؤں کی سطح پر ملاقاتوں کا انعقاد کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین اور بچوں کو گھر میں کیسے محفوظ رکھنا ہے۔‘
ڈپٹی ڈائریکٹرمحکمہ وائلڈ لائف عبدالشکور نے بتایا کہ اس سے پہلے مال مویشیوں کا نقصان ہوا مگر یہ پہلا واقعہ ہے جہاں ایک انسانی جان تیندوے کا شکار ہوئی۔
’گذشتہ دو سال کے دوران جو کیس رپورٹ ہوئے ان میں 130 جانور تیندوے کا شکار ہوئے جبکہ پانچ تیندوے بھی مارے گئے۔‘
’اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ تیندوا انسانی آبادی میں نہیں بلکہ انسانی آبادیاں جنگلوں میں منتقل ہو رہی ہیں، جنگلات میں تجاوزات بڑھ گئی ہیں اور انسانی آبادیاں ان علاقوں میں پھیل گئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں جنگل کے اندر تیندوے کے قدرتی مسکن کو متاثر کر رہی ہیں۔‘
عبدالشکور نے مزید بتایا کہ ’اپ سکیلنگ گرین پاکستان‘ پروجیکٹ کے تحت 114 کمیونٹی آرگنائزیشنز تشکیل دی گئی ہیں جو لوگوں کو جنگلی حیات سے تحفظ کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہی ہیں۔
’اس پراجیکٹ کے تحت مال مویشیوں کے نقصانات کا ڈیٹا مرتب کر کے ضلعی انتظامیہ کو فراہم کیا جاتا ہے تاکہ نقصانات کا ازالہ کیا جا سکے۔‘
ایک سالہ بچہ جس نے کوبرا سانپ کو کاٹ کر ہلاک کر دیا: ’کوبرا کو کاٹنے کے بعد بچہ بےہوش ہو گیا تھا، مگر اب صحتمند ہے‘300 فٹ بلند درخت پر پھنسا تیندوا اور 1000 فٹ گہری کھائی: ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے ہے‘’زخمی تیندوے کے عوض لاکھوں آفر ہوئے مگر والدہ اور بہن نے منع کر دیا‘ایبٹ آباد میں تیندوے کی موت، کیا زخمی ہونے والا شخص خود تیندوے کے پاس گیا؟برفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟تیندوے کے حملے روکنے کے لیے سر پر ماسک پہننے کا مشورہ: ’میری بیٹی نے چلا کر کہا کہ ماں دیکھو یہ کوئی جانور ہے‘