’آدھے گھنٹے میں قبر تیار چاہیے‘: راولپنڈی میں نام نہاد ’غیرت‘ کے نام پر خاتون کا قتل، خاموشی سے تدفین اور قبر کا نشان مٹانے کا معمہ کیسے کُھلا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 29, 2025

17 جولائی کو صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں موسلادھار بارش ہو رہی تھی جب تھانہ پیر ودھائی کی حدود میں واقع ایک قبرستان کے گورکن کو فون کال موصول ہوئی۔ فون کرنے والے نے جلدی میں سوال کیا ’آدھے گھنٹے میں قبر تیار چاہیے، کیا ایسا ہو جائے گا؟‘

گورکن نے فون کرنے والے کو بتایا کہ شدید بارش میں قبر جلدی میں تیار کرنا ممکن نہیں اور عام حالات میں بھی قبر کی کھدائی اور تیاری ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ گورکن نے شدید بارش کے باعث قبر کھودنے والے مزدوروں کی عدم دستیابی سے متعلق بھی بتایا۔

یہ باتیں سُن کر فون کرنے والے نے آفر کی کہ گورکن صرف قبر کی جگہ کی نشان دہی کر دے باقی کا کام، یعنی قبر کی کھدائی اور تیاری، وہ خود ہی کر لیں گے۔

یہ معاملہ طے پا جانے کے بعد ایک خاتون کی لاش لوڈر رکشے پر لائی گئی جس پر سُرخ رنگ کی ترپال ڈالی گئی تھی۔ تدفین کے بعد قبرستان انتظامیہ کی جانب سے ایک رسید بھی دی گئی جس پر مرنے والی خاتون کا نام ’سدرہ دختر عرب گُل‘ درج تھا۔

مگر یہ لڑکی کون تھی اور اتنی اُجلت میں اس کی تدفین کیوں کی گئی؟ بعدازاں اس کی قبر کا نشان کیوں مٹا دیا گیا تھا؟ یہ معمہ شاید پراسرایت ہی میں الجھا رہتا اگر اس لڑکی کےمبینہ قاتل خود ہی بوکھلاہٹ میں غلطی پر غلطی نہ کرتے۔

عدالت میں سدرہ کی گمشدگی کی درخواست اور نکاح نامہ

اس معاملے کی ابتدا 17 جولائی کو لڑکی کی تدفین سے سات روز قبل اُس وقت ہوئی تھی جب 11 جولائی کو تھانہ پیر ودھائی میں ایک درخواست دی گئی جس میں درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ وہ سدرہ نامی خاتون کا شوہر ہے جو ایک گھریلو جھگڑے کے بعد نقدی اور زیورات لے کر گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔

پولیس کو دی گئی اسی درخواست میں درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ ’اُسے علم ہوا کہ اس کی اہلیہ سدرہ نے گھر سے بھاگ کر ایک اور شخص سے نکاح کر لیا ہے۔‘

درخواست گزار نے پولیس سے استدعا کی کہ اس کی اہلیہ کو بازیاب کروایا جائے۔

اس معاملے کی تفتیش سے منسلک ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ درخواست گزار نے درخواست کے ساتھ ساتھ اپنا نکاح نامہ بھی جمع کروایا تھا۔

پولیس نے تفتیش شروع کی تو علم ہوا کہ ’12 جولائی کو سدرہ نے مظفرآباد میں ایک اور شخص سے نکاح کر لیا ہے، اور نکاح کے موقع پر انھوں نے اپنی ازدواجی حیثیت بطور ’کنواری‘ ظاہر کی ہے۔‘

پولیس افسر کے مطابق ’نکاح کے چند روز بعد، 14 جولائی کو‘ سدرہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ مظفر آباد کی عدالت میں ایک درخواست بھی دی جس میں اُن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے یہ نکاح کیا ہے لیکن اب انھیں اور اُن کے شوہر کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لہٰذا انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔‘

راولپنڈی پولیس کے مطابق مظفر آباد کی عدالت میں جمع کی گئی ’اِس درخواست کے ساتھ سدرہ نے اپنا نکاح نامہ بھی عدالت میں جمع کروایا۔ اس درخواست میں سدرہ نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ وہ کنواری ہیں، اُن کے والد فوت ہو چکے ہیں اور والدہ دوسری شادی کر چکی ہیں تاہم اُن کے سوتیلے والد اب اُن کی مرضی کے بغیر اُن کی شادی کروانا چاہتے تھے۔‘

جیسے جیسے اس کیس کی تفتیش آگے بڑھی تو پولیس نے مظفرآباد میں سدرہ کے شوہر کو بھی حراست میں لے لیا۔ تاہم مظفرآباد میں موجود شوہر کو حراست میں لیے جانے سے قبل اُن (شوہر) کے والد کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا جس کی تصدیق پولیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کی ہے۔

اسلام آباد میں خاتون کے قتل پر بھائی گرفتار: ’لاش کو بھینسوں کے باڑے میں دفن کیا گیا تھا‘'رانا لائٹ بند کر دے': فیصل آباد پولیس ایک جملے کی بدولت گینگ ریپ کے ملزم تک کیسے پہنچی؟

اس بیان میں ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ’میرے بیٹے کی شادی کے تین دن کے بعد آٹھ سے دس مسلح افراد میرے گھر پر آئے جنھوں نے خود کو سدرہ کا رشتہ دار قرار دیا اور یہ کہہ کر اسے ساتھ لے گئے کہ وہ رُخصتی دھوم دھام سے کرنا چاہتے ہیں۔‘

تاہم ویڈیو بیان میں شوہر کے والد بتاتے ہیں کہ بعدازاں انھیں میڈیا سے یہ علم ہوا کہ اُن کی بہو یعنی سدرہ کو قتل کر دیا گیا ہے جس پر انھوں نے خود اپنے بیٹے کو پیر ودھائی پولیس کے حوالے کر دیا۔

پولیس کو قتل کا شبہ کیسے ہوا؟Getty Imagesپولیس کے مطابق سدرہ کی نماز جنازہ اُسی جگہ پڑھائی گئی جہاں انھیں قتل کیا گیا تھا

راولپنڈی میں موجود سدرہ کے رشتہ داروں نے 20 جولائی کو راولپنڈی سٹی پولیس افسر کو ایک اور درخواست دی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ پہلے سے جمع کردہ درخواست (جس میں سدرہ کے گھر سے بھاگ جانے اور ان کی بازیابی پر بات کی گئی تھی) پر کارروائی تیز کی جائے۔

معاملہ یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ اس درخواست کے ٹھیک دو دن بعد راولپنڈی کی ایک عدالت میں انھی افراد کی جانب سے ایک پٹیشن فائل کی گئی کہ پولیس کو اس درخواست پر کارروائی تیز کرنے اور سدرہ کو بازیاب کروانے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ اس پٹیشن کے جواب میں مقامی عدالت کی طرف سے راولپنڈی پولیس کو نوٹس جاری کر دیا گیا۔

اس کیس سے منسلک ایک پولیس افسر کے مطابق عدالتی نوٹس موصول ہونے پر پولیس کو شک ہوا کہ تھانے میں دی گئی درخواست پر قانونی کارروائی جاری ہونے کے باوجود عدالت میں مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دینے کی کیا ضرورت تھی؟

پولیس افسر کے مطابق کسی نہ کسی حد تک تفتیش ہو چکی تھی اور یہ سمجھ آ رہی تھی کہ یہ معاملہ ’غیرت‘ کا ہے اور عین ممکن ہے کہ لڑکی کو قتل کیا جا چکا ہو۔ اُن کے مطابق اس موقع پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا اور تفتیش کی گئی۔

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ابتدائی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ 15 جولائی کو ملزمان سدرہ کو مظفر آباد سے لے کر واپس راولپنڈی آئے اور 16 جولائی کو اس حوالے سے ایک غیرقانونی جرگے کا انعقاد ہوا جس میں سدرہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ زیر حراست افراد نے یہ راز اُگلا کہ جرگے کے حکم پر ہی سدرہ کو 17 جولائی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا اور پھر اُسی جگہ اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی جہاں یہ قتل کیا گیا تھا۔ اُن کے مطابق زیر حراست افراد کی نشاندہی پر ہی قبر کی شناخت ہوئی جس پر پولیس کا پہرا بٹھا دیا گیا تاکہ کوئی مقتولہ کی لاش کو وہاں سے نہ نکال سکے۔

واضح رہے کہ سدرہ قتل کیس میں اُن کی گمشدگی کی ابتدائی درخواست دینے والے اُن کے مبینہ شوہر بھی اب اس کیس کے نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔ پولیس اہلکار کے مطابق درخواست گزار مقتولہ کے کزن بھی ہیں۔

راولپنڈی پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اس مقدمے کی ہر تفتیش سے پہلو کر رہی ہے۔

’لاش لے جانے کے لیے نیا رکشہ خریدا گیا‘

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے ایک اہلکار کے مطابق ملزمان کو حراست میں لینے سے قبل ہی اور ابتدائی تفتیش میں یہ واضح ہو رہا تھا کہ یہ معاملہ ’غیرت‘ کا ہے اور شاید لڑکی کو قتل کیا جا چکا ہو۔ چنانچہ پولیس نے تھانہ پیرودہائی کی حدود میں واقع قبرستانوں کے گورکنوں سے رابطہ کیا تھا اور یہ پوچھا تھا کہ گذشتہ چند دنوں کے دوران کتنی خواتین کی میتیں تدفین کے لیے لائی گئیں تھیں۔

پولیس اب اُس کورگن کو بھی حراست میں لے چکی ہے جس نے تدفین کا بندوبست کیا تھا۔ پولیس کے مطابق گورکن نے بتایا کہ 17 جولائی کو صبح ساڑے چھ بجے ایک خاتون کی لاش کی تدفین کی گئی تھی اور اس تدفین کے لیے قبرستان کمیٹی کے ایک ممبر کا بھی فون آیا تھا۔

تفتیشی ٹیم کے اہلکار کے مطابق چونکہ لڑکی کی لاش ایک لوڈر رکشے پر لائی گئی تھی اس لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے اُس رکشے کا سراغ لگایا گیا اور پھر ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا۔

رکشہ ڈرائیور فی الحال تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے پولیس کو بتایا کہ مقتولہ کی لاش قبرستان پہنچانے کے لیے ایک نیا رکشہ خریدا گیا تھا۔

پولیس نے رکشہ ڈرائیور کے ساتھ ساتھ قبرستان گورکن اور سیکریٹری قبرستان کمیٹی کو بھی حراست میں لیا ہے جو فی الحال جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔

دوسری جانب سٹی پولیس افسر نے سدرہ قتل کی تحقیقات کے لیے 10 رکنی ٹیم تشکیل دی ہے جس کی سربراہی ایس پی راول ڈویژن راجہ حسیب کر رہے ہیں۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں راولپنڈی پولیس کی آئی ٹی کے ماہرہن بھی شامل ییں اور ٹیم تفتیشی افسر کو مختلف اداروں سے بروقت معاونت یقینی بنائے گی۔

قبرکشائی اور پوسٹ مارٹم

راولپنڈی کے تھانہ پیر ودھائی کے علاقے فوجی کالونی میں واقع قبرستان میں سدرہ کی قبر کشائی 28 جولائی (پیر) کو کی گئی۔ لاش کا ابتدائی جائزہ لیا گیا اور نمونے اکٹھے کیے گئے۔

پولیس کے مطابق راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کا میڈیکل بورڈ اور فرانزک ماہرین تفصیلی پوسٹ مارٹم کریں گے جس کے بعد لاش کی دوبارہ اسی مقام پر تدفین کر دی جائے گی۔

اس مقدمے میں پولیس اب تک چھ ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے اور فی الحال یہ تمام ملزمان جسمانی ریمانڈ پر تحویل میں ہیں۔ پولیس کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتاری ملزمان میں مقتولہ کے قریبی عزیزوں سمیت اس مبینہ جرگے کے سربراہ بھی شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایف آئی آر میں دفعہ 311 کا اضافہ کیا گیا جس کے بعد مقتولہ کے ورثا ملزمان کو قانونی طور پر خود سے معاف نہیں کر سکیں گے۔

مقامی پولیس کے مطابق اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں اور اب پولیس خود اس مقدمے میں مدعی بن چکی ہے۔

بٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد خاتون کا قتل، چار بھائی گرفتار: پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟مانسہرہ میں ’غیرت کے نام پر‘ خاتون اور بچی کا قتل، دو ملزمان گرفتار: ’میری 16 ماہ کی بیٹی کو کچھ نہ کہیں‘اسلام آباد میں خاتون کے قتل پر بھائی گرفتار: ’لاش کو بھینسوں کے باڑے میں دفن کیا گیا تھا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More