BBC
انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں سرینگر کے رہنے والی علم نفسیات کی طالبہ عزلہ اشرف چند ماہ پہلے پہاڑیوں کو سر کرتی تھیں، لیکن اب وہ ہمالیائی سلسلے کی چوٹیوں کو دُور سے دیکھ کر اُداس ہوجاتی ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ اپریل میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد کے ہاتھوں دو درجن سے زیادہ انڈین سیاحوں اور ایک کشمیری گھوڑے بان کی ہلاکت کے بعد حکومت نے درجنوں سیاحتی مقامات کو سیاحت کے لیے ممنوع قرار دینے کے علاوہ کوہ پیمائی یا ٹریکنگ کی سبھی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔
عزلہ کہتی ہیں کہ چند برسوں کے دوران کوہ پیمائی خواتین میں بھی مقبول ہورہی تھی اور اب رفتہ رفتہ والدین بھی آمادہ ہورہے تھے۔
’بدقسمتی سے یہ واقعہ پیش آیا اور پابندی لگ گئی، لیکن مجھے لگتا ہے اب کافی وقت گزر چکا ہے، میں روز اپنے گروپ میں معلوم کرتی ہوں کہ پابندی ہٹی یا نہیں۔‘
عزلہ اور ان کی سہیلیاں ہمالیائی سلسلے کے دشوار گزار ’نارا ناگ‘ اور ’کوثر ناگ‘ جانے کا ارادہ بھی کرچکی تھیں کہ پہلگام میں حملہ ہوگیا۔
’ہم سونہ مرگ کی طرف تھا جواس گلیشئیر سے آگے واٹر فالتک جاچکے ہیں۔ ابھی بہت کچھ دیکھنا اور سر کرنا تھا۔ مجھے اُمید ہے کہ پابندی بالآخر ختم ہوگی اور ٹریکنگ کی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوجائیں گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کشمیری پوری دُنیا گھومتے ہیں، لیکن اگر آپ اپنے ہی گھر کو پوری طرح نہیں دیکھ پائے تو دنیا دیکھنے کا کیا فائدہ۔ یہ پابندی کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔‘
عزلہ کہتی ہیں کہ انھیں بچپن سے ہی شوق تھا کہ وہ پہاڑیوں سے گِھری خاموش وادیوں میں ٹہلیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر قدرت کو محسوس کرے۔‘
پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟نو برس قبل پراسرار ’سروالی چوٹی‘ پر لاپتہ ہونے والے تین پاکستانی کوہ پیماؤں کی لاشیں کیسے ملیں؟حسن شگری: کے ٹو کی ’موت کی گھاٹی‘ سے نکالی گئی لاش جسے نکالنے کا ’فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے ہوا‘ہمالیہ کا ’ڈیتھ زون‘: کوہ پیما کی لاش جسے 12 سال بعد پہاڑ کی چوٹی سے واپس لایا گیا
اس پابندی کو عزلہ مثبت بھی سمجھتی ہیں لیکن اُمید کرتی ہیں کہ اب یہپابندی ہٹ جائے گی۔
’دیکھیے نیچر کو بھی بریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ باہر سے آنے والے اور مقامی سیاح پہاڑیوں اور جنگلوں میں کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے۔ میں اس بارے میں سوشل میڈیا پر بیداری کی مہم بھی چلا رہی ہوں۔ لیکن اب بہت وقت گزر چکا ہے، اب یہ پابندی ہٹ جانی چاہیے۔‘
’سارا سرمایہ ڈوب گیا‘BBC
ذیشان مشتاق پہلے تو خود ٹریکنگ کرتے تھے، لیکن کشمیرمیں چند برسوں سے پروان چڑھ رہے کوہ پیمائی کے کلچر میں انھیں روزگار کا موقع بھی نظر آیا۔
’میں نے اپنے پیشن (جنون) کو پروفیشن (روزگار) میں بدل دیا۔ پورے انڈیا سے اور کشمیر کے کئی علاقوں سے لوگ تنہا مقامات پر جانا چاہتے ہیں اور بیشتر پہاڑوں کو سر کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنا ایک گروپ رجسٹر کروایا اور ٹریکنگ اور کلائمبنگ میں کام آنے والا سازوسامان خریدا۔ لیکن سارا سرمایہ ڈوب گیا، پابندی نے میرے خواب مٹی میں ملا دیے ہیں۔‘
’سوشل میڈیا نے کشمیر دریافت کرنے کا موقع دیا‘
ذیشان کہتے ہیں کہ ’یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا پر سرگرم دوسرے لوگوں نے نئی نئی جگہوں کو تلاش کرکے وہاں ریلز بنائیں تو مجھ جیسے کوہ پیمائی کے شوقین لوگوں کو کشمیر کے نادیدہ مقامات کو دریافت کرنے کو موقع ملا۔‘
ذیشان کہتے ہیں کہ کشمیر پورے ہمالیائی سلسلے میں ایک منفرد جگہ ہے۔
’یہاں پہاڑیوں کی بلندی زیادہ نہیں ہے، لیکن پہاڑوں کے بیچ وسیع چراگاہیں، چشمے، گلیشیئر اور خوبصورت وادیاں ہیں۔ ایڈونچر ٹورازم اپنے عروج پر تھا جب یہ حملہ ہوا اور پابندی سے سب کچھ ٹھپ ہوگیا۔‘
ذیشان کے مطابق یہ پابندی نہ صرف اُن کے شوق کے لیے تکلیف دہ ہے بلکہ ان کے روزگار کے لیے بھی مایوس کُن ہے۔
کشمیر میں کئی برسوں سے پھیل رہی منشیات کی وبا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ذیشان کہتے ہیں کہ ’اب سکول اور کالجوں کے طالب علم بھی ٹرکینگ گروپس کے ساتھ جُڑنے لگے تھے اور یہ اچھی بات تھی، کیونکہ ٹریکنگ سے پڑھائی کا تناوٴ بھی کم ہوجاتا ہے۔ لیکن اب اُن کے پاس فرصت کے لمحات میں کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ میں روز دعا کرتا ہوں کہ یہ پابندی ختم ہو اور ٹریکنگ کلچر پھر سے بحال ہوجائے۔‘
ذیشان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ایڈونچر ٹورازم اس قدر ترقی کررہا تھا کہ بعض نوجوانوں نے کارپوریٹ نوکریاں چھوڑ کر ٹریکنگ ایجنسیاں قائم کرلیں۔ ’اب وہ بچارے نہ اُدھر کے رہے نہ اِدھر کے۔‘
’لاکھوں روپے کے اس سامان کا کیاں کروں‘BBC
پرانے سرینگر کے نواب بازار علاقے میں اپنی دکان پر بیٹھے ارسلان رشید ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ’یہ سامان انڈیا کی مختلف ریاستوں اور کئی یورپی ممالک سے امپورٹ کروایا تھا۔ تین مہینے سے یہ سامان بے کار پڑا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ لاکھوں روپے کے اس سامان کا میں اب کیا کروں۔‘
ارسلان خود بھی کوہ پیما ہیں اور کشمیر میں اُبھرتے ایڈونچر ٹورازم میں انھیں روزگار کی جھلک نظر آئی تھی۔ انھوں نے ٹریکنگ اور کیمپنگ ایجنسی قائم کی اور اپنی جمع پونجی اسی کاروبار میں جھونک دی۔
’میں نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ باہر سے آنے والے ٹریکرز کو وہاں سے کچھ بھی ساتھ نہ لانا پڑے۔ ہم سلیپنگ بیگ، ٹینٹ، رسیاں، اونچائی پر کام آنے والا حفاظتی سامان سب مہیا کرتے تھے۔ لیکن اب سب کچھ ختم ہوگیا۔‘
BBC
واضح رہے گذشتہ چند برسوں کے دوران یہاں کے نوجوانوں میں کشمیر کے پہاڑوں کو سر کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ حکومت نے کئی نئے سیاحتی مقامات کو ڈیولپ کیا جن میں کپوارہ کی بنگس ویلی اور بڈگام کی دُودھ پتھری شامل ہیں۔
پہلگام کی بائی سرن ویلی کو حالیہ برسوں کے دوران ہی دریافت کیا گیا تھا، جو اب ایک مشہور کیمپ سائٹ بن گئی تھی۔ اسی بائی سرن ویلی میں انڈین سیاحوں کی بڑی تعداد موجود تھی جب اس سال 22 اپریل کی دوپہر کو مسلح افراد نے25 انڈین سیاحوں اور ایک کشمیری گھوڑے بان کو ہلاک کردیا۔ اس کے فوراً بعد حکومت نے درجنوں سیاحتی مقامات کو سیل کردیا اور پہاڑوں پر ٹریکنگ کو بھی ممنوع قرار دیا۔
پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟ہمالیہ کا ’ڈیتھ زون‘: کوہ پیما کی لاش جسے 12 سال بعد پہاڑ کی چوٹی سے واپس لایا گیاسرباز خان: ’میں اپنی کامیابی پہاڑوں کے عشق میں جان دینے والے کوہ پیماؤں کے نام کرتا ہوں‘حسن شگری: کے ٹو کی ’موت کی گھاٹی‘ سے نکالی گئی لاش جسے نکالنے کا ’فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے ہوا‘نو برس قبل پراسرار ’سروالی چوٹی‘ پر لاپتہ ہونے والے تین پاکستانی کوہ پیماؤں کی لاشیں کیسے ملیں؟پہلگام حملے کے بعد ’سکیورٹی ناکامی‘ پر انڈیا میں اٹھنے والے سوال جن کے جواب اب تک نہیں مل پائے