سیالکوٹ کے عبداللہ کی لاش ’21 دن کی مسلسل تلاش‘ کے بعد دریائے سوات سے کیسے ملی؟

اردو نیوز  |  Jul 19, 2025

دریائے سوات میں 27 جون سے 17 جولائی تک مسلسل 21 روز سے ڈسکہ، سیالکوٹ کے عبداللہ کی تلاش جاری تھی۔

ریسکیو 1122 سوات کے اہلکار ہر ممکن کوشش میں مصروف تھے لیکن پانی کے تیز بہاؤ اور ریت سمیت پتھریلے مقامات کی وجہ سے انہیں ڈھونڈنا مشکل تھا۔

ریسکیو کے اہلکار شبہ ظاہر کر رہے تھے کہ عبداللہ کسی ریتیلے مقام میں دب گئے ہوں گے اور پھر یہی شک سچ ثابت ہوا۔

ریسکیو 1122 سوات کی ترجمان شفیقہ گل بتاتی ہیں کہ ’ریسکیو اہلکار اپنی کامیابی پر تو خوش تھے لیکن وہ آج زندہ شخص کی بجائے ایک لاش ہی نکال رہے تھے، اس لیے غم کا پہلو غالب رہا۔‘

خیبر پختونخوا کے سیاحتی ضلع سوات میں رواں برس 27 جون کو مون سون بارشوں کے بعد دریائے سوات میں 16 سیاح پھنس گئے تھے جس کے بعد تین متاثرین کو زندہ بچا لیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ہلاک ہونے والے 12 افراد کی لاشیں بھی نکال لی گئی تھیں۔

ڈسکہ، سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے عبداللہ نامی لاپتا متاثرہ بچے کی لاش ریسکیو 1122 نے 21ویں روز برآمد کرتے ہوئے سیالکوٹ روانہ کی۔

ریسکیو 1122 سوات کی ترجمان شفیقہ گل کے مطابق دریائے سوات بریکوٹ غالیگے کے مقام سے عبداللہ کی لاش برآمد ہوئی۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’دریائے سوات کی گہرائی میں پتھر، بجری، ریت اور مٹی کا دباؤ موجود ہوتا ہے اور خدشہ تھا کہ بچے کی لاش کسی ایسی ہی جگہ پھنس چکی ہو گی۔ اس کے باوجود ریسکیو 1122 کی واٹر ریسکیو ٹیم نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور دریا کے حساس مقامات پر بار بار سرچ آپریشن کیا جاتا رہا۔‘

’لاپتا بچے عبداللہ کی تلاش کے لیے جدید اور مقامی دونوں طریقے استعمال کیے جا رہے تھے۔ سرچ آپریشن کے دوران ریسکیو اہلکاروں نے سکوبا ڈائیونگ، مقامی کشتی (جسے جالا کہا جاتا ہے)، لائن سرچ اور دیگر واٹر سرچنگ تکنیکس کا بھرپور استعمال کیا۔

شفیقہ گل کے مطابق ’دریائے سوات کے خطرناک اور گہرے پانی، پتھریلے مقامات اور ریت کی تہہ میں سرچنگ کے دوران ٹیم نے مرحلہ وار مکمل پلان تیار کیا جس کے تحت پانی کے بہاؤ، گہرائی اور دریا کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے بار بار مختلف مقامات کی چھان بین کی گئی۔‘

’ریسکیو ٹیموں نے خصوصاً کشتی (مقامی زبان میں جالا) کے ذریعے بھی پانی کی سطح اور کناروں پر بار بار سرچنگ کی گئی تاکہ کوئی کونا ایسا نہ رہے جہاں تلاش نہ کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ سکوبا ڈائیورز نے گہرے پانی میں جا کر ممکنہ جگہوں کا معائنہ کیا جبکہ لائن سرچ طریقے کے ذریعے دریا کے کنارے اور بیچ میں رسی کے ذریعے انسانی چین بنا کر باریک بینی سے تلاش کا عمل جاری رکھا لیکن 20 روز تک مسلسل کوششوں کے باوجود عبداللہ کی لاش برآمد نہ ہوسکی۔‘

عبداللہ کی لاش غالیگے کے مقام پر ریت میں دبی ہوئی حالت میں ملیاُدھر سیالکوٹ میں عبداللہ کے والدین پریشانی میں مبتلا تھے۔ عبداللہ کے والد کی جانب سے ایک پرچی پر مطالبہ لکھا گیا اور درخواست کی گئی کہ ان کے بیٹے کو ڈھونڈا جائے۔

دریائے سوات میں مون سون کے دوران پانی کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے اور خشک مقامات پر بھی پانی بھر آتا ہے جس کی وجہ سے ان مقامات پر پانی کے ساتھ ساتھ ریت کے ڈھیر بھی بن جاتے ہیں۔

ریت کے ان عارضی ٹیلوں کے اندر اکثر لکڑیاں اور دریا میں بہہ کر آنے والا دیگر سامان بھی چھپا ہوتا ہے، اس لیے ریسکیو ٹیمیں ان ٹیلوں کو زیادہ ترجیح دے رہی تھیں۔ 17 جولائی 2025 کو جب ریسکیو ٹیموں نے ایسے ہی کچھ مخصوص مقامات پر آپریشن کا آغاز کیا تو یہ ان کے لیے ایک معمول کا آپریشن تھا جس کے لیے امید کم تھی تاہم آپریشن کرنا اور عبداللہ کو ڈھونڈنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔

شفیقہ گل بتاتی ہیں کہ ریسکیو ٹیمیں مسلسل ریتیلے مقامات کو سرچ کر رہے تھے۔ ’آخرکار وہی خدشہ درست ثابت ہوا۔ عبداللہ کی لاش دریائے سوات کے اندر ریت میں دب کر پھنس چکی تھی جس کی وجہ سے یہ سرچ آپریشن طویل ہوا۔‘

عبداللہ کی لاش غالیگے کے مقام پر ریت میں دبی ہوئی حالت میں ملی جہاں بظاہر کسی لاش کے آثار انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔

شفیقہ گل کے مطابق جب یہ لاش برآمد ہوئی تو ریسکیو 1122 سوات کی ٹیم انتہائی جذباتی تھی (فائل فوٹو: ریسکیو 1122)27 جون کے بعد 21 ویں روز بریکوٹ غالیگے کے مقام پر ریسکیو ٹیم نے کامیابی سے عبداللہ کی لاش برآمد کی گئی۔

جب یہ لاش برآمد ہوئی تو ریسکیو 1122 سوات کی ٹیم انتہائی جذباتی تھی۔

شفیقہ گل کے بقول ’ایک جانب ریسکیو کے اہلکاروں کو اپنی کامیابی اور ذمہ داری کی تکمیل پر سکون اور اطمینان محسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے معصوم بچے کو تلاش کرکے اس کے والدین کی بے چینی دور کی تو دوسری جانب غم اور افسوس کا پہلو غالب رہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بچے کو زندہ نہیں بچا سکے تھے۔‘

عبداللہ کی لاش قانونی کارروائی اور شناخت کے بعد ڈسکہ روانہ کی گئی جہاں ان کی تدفین کر دی گئی۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More