Getty Images
انڈیا اور پاکستان کے درمیان مئی میں ہونے والی چار روزہ لڑائی کے دوران کس کا کتنا نقصان ہوا، اس بارے میں دونوں اطراف سے متضاد دعوے سامنے آتے رہے ہیں جن میں اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکی صدر نے جمعے کے روز ایک تقریب کے دوران ’انڈیا-پاکستان جنگ رُکوانے‘ کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس دوران ’پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے گئے۔‘
ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا یہ طیارے کس ملک کے تھے اور کس ملک نے گِرائے۔
ٹرمپ کا یہ بیان وائٹ ہاؤس میں رپبلکن ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ملاقات کے دوران سامنے آیا۔
اس بیان کے بعد انڈیا میں اپوزیشن پارٹی کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی ہے۔ کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ٹرمپ نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ میں پانچ جیٹ طیارے مار گرائے گئے، اس کے ساتھ انھوں نے 24ویں بار کہا کہ میں نے تجارت کی دھمکی دے کر پاکستان انڈیا جنگ رکوائی۔‘
'ٹرمپ مسلسل یہ بات دہرا رہے ہیں اور نریندر مودی خاموش ہیں۔ نریندر مودی نے کاروبار کے لیے ملک کی عزت پر سمجھوتہ کیوں کیا؟'
کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ایک مختصر ٹویٹ میں اس بارے میں ٹرمپ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’مودی جی پانچ طیاروں کے بارے میں سچ کیا ہے؟ ملک کو یہ جاننے کا حق ہے۔‘
خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے بعد سے انڈیا کی اپوزیشن جماعت کانگریس اور اس کے رہنما راہل گاندھی نے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ خارجہ جے شنکر سے یہ سوال بارہا پوچھتے رہے ہیں کہ انڈیا نے اس لڑائی میں کتنے طیارے کھوئے۔
آئیے جانتے ہیں کہ طیارے گرانے کے حوالے سے دونوں اطراف سے کیا دعوے کیے جاتے رہے ہیں اور ٹرمپ نے اس تقریب میں کیا کہا ہے؟
Getty Imagesٹرمپ نے تقریب میں کیا کہا؟
جمعے کی رات وائٹ ہاؤس میں ریپبلکن قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھیں بہت فخر ہے کہ امریکہ نے بہت سی جنگیں روک دی ہیں اور وہ سب سنگین جنگیں تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی اور اس دوران طیارے مار گرائے جا رہے تھے۔ پانچ، چار یا پانچ لیکن میرے خیال میں پانچ جیٹ طیارے مار گرائے گئے۔‘
انھوں نے رپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ اور یہ دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک ہیں اور یہ ایک دوسرے پر حملے کیے جا رہے تھے۔‘
'ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ کا ایک نیا طریقہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہم نے حال ہی میں ایران کے ساتھ کیا کیا۔ ہم نے ان کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔۔۔ لیکن (اس نئے طریقۂ جنگ میں) کبھی ایک حملہ ہوتا اور پھر دوسری طرف حملہ ہوتا ہے۔‘
ٹرمپ نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تجارت کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کے ذریعے تنازع روکا گیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع بڑھ رہا تھا اور ہم نے اسے تجارت کے ذریعے حل کیا ہے۔‘
ہم نے کہا کہ ’آپ لوگ (امریکہ کے ساتھ) تجارتی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں اور شاید جوہری ہتھیار بھی استعمال کرتے ہیں تو ہم تجارتی معاہدہ نہیں کریں گے۔‘
انڈیا نے اب تک طیارے مار گرانے کے پاکستانی دعوؤں کے بارے میں کیا کہا ہے؟
پاکستانی فوج کے ترجمان کی جانب سے مئی میں انڈیا اور پاکستان جنگ کے دوران یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے انڈیا کے متعدد طیارے مار گرائے ہیں۔
جنگ کے بعد بین الاقوامی میڈیا کو دی گئی پریس بریفنگ میں پاکستانی فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر آپریشنز ایئر وائس مارشل اورنگزیب نے دعویٰ کیا تھا کہ تین رفال طیارے بھٹنڈہ، جموں اور سرینگر کے قریب مار گرائے گئے جبکہ مگ 29 اور سو 30 کو سرینگر کے پاس مار گرایا گیا۔
اس دعوے کے بعد سے انڈیا کے عسکری حکام سے متعدد مرتبہ اس بارے میں سوال کیا گیا ہے جس کے جواب میں تین اہلکاروں کے بیانات سامنے آئے ہیں۔
یاد رہے کہ انڈونیشا میں انڈیا کے انڈین ڈیفنس اتاشی کیپٹن شیو کمار نے انڈونیشیا کی ایک یونیورسٹی میں 10 جون کو'انڈیا-پاکستان ایئر کانفلکٹ-مئی 2025' کے عنوان کے تحت ہونے والے بین الاقوامی سیمینار میں پریزینٹیشن دی تھی۔
اس پریزینٹیشن کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ 'جیسا کہ ٹامی ٹیمٹومو (وائس چیرمین، انڈونیشیا سینٹر فار ایئر پاور سٹڈیز) نے کہا ہے کہ انڈیا نے (اس حالیہ جنگ میں) بہت سے طیارے کھوئے۔ میں اُن سے اتفاق نہیں کرتا کہ انڈیا نے بہت سارے طیارے کھوئے، لیکن میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہم نے چند طیارے ضرور کھوئے۔
'اور یہ صرف انڈیا کی سیاسی قیادت کی اس پابندی کی وجہ سے ہوا تھا جس میں پاکستان میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ اور فضائی دفاع پر حملہ نہ کرنے کو کہا گیا تھا۔ لیکن نقصان کے بعد ہم نے اپنے حکمت عملی تبدیل کی اور ہم نے اُن کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔'
اس سے قبل 31 مئی کو سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے موقع پر بلومبرگ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان سے پوچھا گیا کہ کیا مئی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ فوجی تصادم کے دوران کوئی انڈین لڑاکا طیارہ مار گرایا گیا؟
اس کا جواب دیتے ہوئے جنرل انیل چوہان نے کہا 'اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کیوں گرائے گئے۔' تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انڈیا نے کتنے طیارے کھوئے۔
چوہان نے کہا کہ 'طیارے کیوں گرے، کیا غلطیاں ہوئیں، یہ باتیں اہم ہیں۔ نمبر اہم نہیں ہوتے۔'
اس پر صحافی نے ان سے دوبارہ سوال کیا کہ کم از کم ایک جیٹ مار گرایا گیا، کیا یہ درست ہے؟
جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘انڈین دفاعی اتاشی کا ’سیاسی رکاوٹوں‘ کی وجہ سے ’چند طیارے کھونے‘ کا اعتراف: ’مودی حکومت نے شروع ہی سے قوم کو گمراہ کیا‘دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیں
اس پر جنرل انیل چوہان نے کہا کہ 'اچھی بات یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو پہچاننے میں کامیاب رہے، ہم نے انھیں درست کیا اور پھر دو دن بعد ان پر عمل درآمد کیا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے تمام جیٹ طیارے اڑائے اور طویل فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنایا۔'
صحافی نے ایک بار پھر پوچھا 'پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ چھ انڈین لڑاکا طیاروں کو مار گرانے میں کامیاب رہا، کیا اس کا اندازہ درست ہے؟'
اس کے جواب میں جنرل انیل چوہان نے کہا کہ 'یہ بالکل غلط ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا یہ معلومات بالکل بھی اہم نہیں ہیں۔ اہم یہ ہے کہ جیٹ طیارے کیوں گرے اور اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟ یہ ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔'
اس سے قبل انڈین فضائیہ (آئی اے ایف) کے ایئر مارشل اے کے بھارتی نے تینوں مسلح افواج کے سربران کے ہمراہ پریس بریفننگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 'جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے' لیکن انھوں نے بھی پاکستانی دعوے پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔
Getty Imagesانڈیا کا امریکی ثالثی کے حوالے سے مؤقف کیا رہا ہے؟
حال ہی میں انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کواڈ ممالک کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے امریکہ گئے تھے جہاں انھوں نے امریکی میگزین 'نیوز ویک' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ بندی مکمل طور پر دو طرفہ عمل تھا۔
انٹرویو کے دوران جے شنکر سے پوچھا گیا کہ 'صدر ٹرمپ اور وزیرِ اعظم مودی کے درمیان بات چیت کے بعد انڈیا کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کسی تیسرے ملک کی ثالثی قابل قبول نہیں ہے لیکن صدر ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ تجارت کو تنازع روکنے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ کیا اس سے تجارتی معاہدے کی بات چیت پر کوئی اثر پڑا ہے؟'
اس کے جواب میں ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ 'میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ جب نائب صدر جے ڈی وینس نے نو مئی کی رات وزیر اعظم مودی سے بات کی تو میں کمرے میں موجود تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر ہم کچھ باتوں پر متفق نہیں ہوئے تو پاکستان انڈیا پر بڑا حملہ کر سکتا ہے لیکن پاکستان کی دھمکیوں کا وزیر اعظم پر کوئی اثر نہیں ہوا، اس کے برعکس انھوں نے واضح طور پر اشارہ دیا کہ انڈیا کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائے گی۔'
ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ کئی سالوں سے قومی اتفاق رائے ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تمام مسائل باہمی یعنی دو طرفہ ہیں۔
ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ 'یہ اس رات کی بات ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اس رات پاکستان نے ہم پر شدید حملہ کیا۔ ہم نے فوراً جواب دیا۔ اگلی صبح مارکو روبیو نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے۔ میں صرف آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میرا اپنا تجربہ کیا رہا۔'
جون کے مہینے میں وزیرِ اعظم مودی جی سیون سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے کینیڈا گئے تھے اور وہاں سے انھوں نے صدر ٹرمپ سے فون پر بات کی تھی۔
اس بات چیت کی تفصیلات دیتے ہوئے انڈیا کے خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی نے ٹرمپ کو واضح طور پر کہا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی دو طرفہ ہے اور کسی تیسرے ملک کی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہے۔
وکرم مصری نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی نے ٹرمپ کو بتایا تھا کہ جنگ بندی کے لیے امریکہ کے ساتھ تجارت پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
’کیا ٹرمپ ایسا انڈیا پر دباؤ بڑھانے کے لیے کر رہے ہیں؟‘
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مواقع پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کروائی اور دونوں ممالک کو ایٹمی جنگ کی طرف بڑھنے سے روکا۔
ان کے اس دعوے کی پاکستان نے حمایت کی تھی۔ جنگ بندی کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنگ بندی میں واشنگٹن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
صحافی رعنا ایوب نے ٹرمپ کے بیان پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 'کیا انڈیا اس بارے میں ایک جارحانہ ردِ عمل نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب صدر ٹرمپ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کے بارے میں نئی تفصیلات کے ساتھ بات نہیں کرتے۔'
انڈیا میں راجیہ سبھا کے رکن ساکت گوکھلے نے لکھا کہ 'مودی اتنے کمزور کیوں ہیں کہ وہ اس دعوے کو عوامی طور پر رد نہیں کر رہے۔ مودی اور جے شنکر ٹرمپ کے دعوے کا جواب کیوں نہیں دے رہے، کیا یہ اس لیے ہے کیونکہ ٹرمپ سچ بول رہے ہیں اور مودی ہم سے جھوٹ بولتے رہے ہیں؟'
پاکستان کے امریکہ کے لیے سابق سفیر حسین حقانی کے مطابق ایک وقت تھا جب امریکی صدور کے بیانات امریکی حکومت کو موصول ہونے والی انٹیلیجنس کی عکاسی کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ کے وہ کہتے ہیں جو وہ ٹھیک سمجھتے ہیں اور یہ تصدیق شدہ معلومات ہو بھی سکتی ہیں اور نہیں بھی۔'
انڈیا میں راجیہ سبھا کی رکن پریانکا چترویدی نے لکھا کہ 'اگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان نے سیزفائر پر اتفاق تجارتی معاہدے کی وجہ سے کیا تو ایسا کیوں ہے کہ ابھی تک انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدہ نہیں ہوا ہے؟ کیا یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر یہ دہراتے ہیں تاکہ وہ انڈیا پر دباؤ بڑھا سکیں؟'
انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران ’انفارمیشن وار‘ اور وہ فوجی اہلکار جو اس ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئےرفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںجنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘انڈین دفاعی اتاشی کا ’سیاسی رکاوٹوں‘ کی وجہ سے ’چند طیارے کھونے‘ کا اعتراف: ’مودی حکومت نے شروع ہی سے قوم کو گمراہ کیا‘پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟