سانپ پکڑنے کے ماہر کی لاپرواہی اور موت: ’کوبرا کا زہر آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 19, 2025

انڈیا کو کبھی یورپ میں سانپوں اور سپیروں کا ملک کہا جاتا تھا۔ لیکن آج بھی انڈیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھیں سانپوں کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور انھیں سانپوں کو پکڑنے کے لیے بُلایا جاتا ہے۔

ایک ایسے ہی شخص کی اپنی لاپرواہی کی وجہ سے موت ہوئی ہے۔

گذشتہ دنوں وسطی انڈین ریاست مدھیہ پردیش کے گنا ضلع کے راگھوگڑھ میں سانپوں کو پکڑنے کے ماہر دیپک مہاور کی اس وقت موت ہو گئی جب انھوں نے پکڑے گئے سانپ کو جنگل میں چھوڑنے کی بجائے اپنے گلے میں کسی ہار کی طرح لپیٹ لیا۔ اس دوران سانپ نے انھیں ڈس لیا۔

پہلے تو انھوں نے اسے معمولی چیز سمجھا اور ابتدائي علاج کے بعد گھر واپس آگئے۔ لیکن آہستہ آہستہ زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ رات گئے ان کی حالت بگڑنے لگی۔ جب انھیں دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا تو ان کی موت واقع ہوگئی۔

دیپک علاقے میں سانپوں کو پکڑنے کے لیے مشہور تھے اور اسی کام کے لیے جے پی کالج میں ملازم بھی تھے۔

سوموار کی دوپہر تقریباً 12 بجے انھیں فون آیا کہ ایک گھر میں سانپ نکلا ہے۔ دیپک نے راگھو پور میں جائے وقوعہ پر پہنچ کر سانپ کو بحفاظت پکڑ لیا۔

اسی دوران انھیں اپنے 12 سالہ بیٹے کے سکول سے فون آیا کہ سکول بند ہے اور وہ انھیں لینے چلے جائیں۔

جلدی اور لاپرواہی میں انھوں نے سانپ کو ڈبے میں بند کرنے کی بجائے گلے میں ڈال لیا اور موٹر سائیکل پر سکول پہنچا۔

سانپ نے ڈس لیا

وہ جب اپنے بیٹے کے ساتھ گھر لوٹ رہے تھے تو ان کے گلے میں لٹکے سانپ نے ان کے دائیں ہاتھ پر کاٹ لیا۔

سانپ کے کاٹنے کے فوراً بعد دیپک نے ایک دوست کو فون کیا جو انھیں قریبی ہسپتال لے گئے۔ وہاں پر ابتدائی علاج کے بعد ڈاکٹروں نے انھیں بڑے ہسپتال ریفر کر دیا۔

اپنی حالت میں بہتری دیکھنے کے بعد دیپک شام کو ہسپتال سے گھر واپس آ گئے اور کھانا کھا کر سو گئے۔ لیکن رات کو ان کی حالت بگڑنے لگی اور صبح تک ان کی موت ہو گئی۔

پرائمری ہیلتھ سینٹر کے ڈاکٹر دیویندر سونی نے بی بی سی کو بتایا: ’جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی حالت نارمل تھی۔ ان کے اہم اعضا ٹھیک تھے، بولنا نارمل تھا اور وہ ہوش میں تھے۔‘

’ہم نے فوری طور پر پروٹوکول کے مطابق ان کا علاج شروع کر دیا۔ انھیں آئی وی ڈرپ، اینٹی سنیک وینم (زہر کش دوا) اور دیگر ضروری ادویات دی گئیں۔ اور اس کے بعد انھیں ہسپتال کے لیے ریفر کر دیا گیا کیونکہ یہاں بقیہ تمام سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔‘

’انسانوں کے لیے غصہ‘ یا معلومات کی کمی: سانپ پکڑنے والے ہی اکثر اس کا شکار کیوں بنتے ہیں؟گھر کے صحن سے ملنے والے 100 سے زائد ’شرمیلے‘ سانپ جو انڈے نہیں بلکہ بچے دیتے ہیںسانپ کھانے والا ’کنگ کوبرا‘ جس کے بارے میں نئے راز افشا ہو رہے ہیںایسا جزیرہ جہاں لاکھوں سانپ ’جو ملے کھا جاتے ہیں، حتیٰ کہ ایک دوسرے کو بھی‘

ڈاکٹر سونی نے کہا کہ چند گھنٹے گونا میں رہنے کے بعد دیپک گھر واپس آئے کیونکہ وہ ٹھیک محسوس کر رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سانپ کوبرا نظر آ رہا تھا، جس کا زہر آہستہ آہستہ چڑھتا ہے۔ ایسے میں مریض کا کم از کم 24 گھنٹے ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہنا ضروری ہے۔ اگر وہ ریفرل سینٹر میں زیر نگرانی رہتے اور واپس نہ آتے تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی۔‘

سانپوں کو پکڑنے کے فن کی وجہ سے انھیں نوکری ملی

دیپک مہاور گذشتہ کئی سالوں سے راگھو گڑھ کے جے پی کالج میں ’سرپ متر‘ یعنی سانپ دوست کے طور پر کام کر رہے تھے۔ وہ قریبی دیہاتوں سے سانپ کی اطلاع پر بھی باقاعدگی سے سانپ پکڑنے جایا کرتا تھا۔

ان کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک کی عمر 14 سال اور دوسرے کی عمر 12 سال ہے۔ ان کی بیوی کی موت تقریباً 10 سال پہلے ہی ہو چکی ہے۔

جس وقت یہ واقعہ پیش آيا دیپک اپنے چھوٹے بیٹے کو سکول سے لینے گئے تھے۔

دیپک کے چھوٹے بھائی نریش مہاور نے بی بی سی کو بتایا: ’دیپک یہ کام کئی سالوں سے کر رہے تھے۔ انھوں نے کسی سے سانپ پکڑنے کا ہنر سیکھا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں میں انھوں نے اس کام میں مہارت حاصل کر لی تھی، جس کی وجہ سے انھیں جے پی کالج میں نوکری مل گئی۔ یہ کالج مضافات میں ہے، جہاں اکثر سانپ نظر آتے ہیں۔'

نریش نے مزید کہا: 'اس سے پہلے بھی کئی بار سانپ نے انھیں ڈس لیا تھا، اور وہ اکثر اپنی جڑی بوٹیوں سے اس کا علاج کرتے تھے۔ لیکن ایک بار انھیں ہسپتال بھی جانا پڑا تھا۔ اس بار بھی انھوں نے سوچا کہ یہ صرف ایک معمولی سوجن ہے اور وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی، اس لیے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ہماری صرف یہی گزارش ہے کہ جب آپ اس واقعے کے بارے میں لکھیں تو انسانی ہمدردی رکھیں، بھائی تو چلے گئے، اب ان کے صرف دو چھوٹے بچے رہ گئے ہیں، اگر حکومت اس معاملے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھے تو شاید کچھ مدد مل سکے، جس سے ان بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔

نریش نے کہا: 'دیپک ایک اچھے انسان تھے، جنھوں نے کئی بار اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کی مدد کی۔‘

Getty Imagesانڈیا میں مختلف قسم کے زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں جن سے ہر سال لاکھوں لوگوں کو نقصان پہچتا ہےانڈیا میں سانپ کے کاٹنے سے ہر سال ہزاروں افراد فوت ہو جاتے ہیں

انڈیا دنیا میں سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں ہر سال سانپ کے کاٹنے کے تقریباً 50 لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔

ان میں سے تقریباً 25 لاکھ کیسز میں لوگوں کے جسم زہر سے متاثر ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی بنیاد پر انڈیا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ افراد سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ چار لاکھ ایسے ہیں جن کے جسم کے اعضاء متاثر ہوتے ہیں یا مستقل طور پر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

بی بی سی کی سنہ 2020 کی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ لوگ سانپ کے کاٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

مدھیہ پردیش کو سانپ کے کاٹنے سے متاثرہ علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی حکومت ان خاندانوں کو معاوضہ دیتی ہے جو ہسپتال اور پوسٹ مارٹم رپورٹس کی بنیاد پر یہ ثابت کر پاتے ہیں کہ متعلقہ شخص کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوئی ہے۔

جریدے 'دی رائل سوسائٹی آف ٹراپیکل میڈیسن اینڈ ہائیجین' میں سنہ 2024 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں معاوضے کا تجزیہ کیا گیا۔ اس میں مدھیہ پردیش کے محکمہ صحت کی جانب سے 2020-21 اور 2021-22 کے لیے فراہم کردہ ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ان دو سالوں میں کل 5,728 خاندانوں کو معاوضہ دیا گیا۔ ریاستی حکومت نے سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کے معاملے میں کل 229 کروڑ روپے کی امداد تقسیم کی تھی۔

ایسا جزیرہ جہاں لاکھوں سانپ ’جو ملے کھا جاتے ہیں، حتیٰ کہ ایک دوسرے کو بھی‘رسل وائپر: وہ خطرناک سانپ جس کا زہر انسانی اعضا کو ناکارہ کر دیتا ہے’انسانوں کے لیے غصہ‘ یا معلومات کی کمی: سانپ پکڑنے والے ہی اکثر اس کا شکار کیوں بنتے ہیں؟سانپ کھانے والا ’کنگ کوبرا‘ جس کے بارے میں نئے راز افشا ہو رہے ہیںگھر کے صحن سے ملنے والے 100 سے زائد ’شرمیلے‘ سانپ جو انڈے نہیں بلکہ بچے دیتے ہیںنو کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے نایاب ’کھوکھلے‘ انڈے جن کے لیے خصوصی آپریشن کیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More