برطانیہ کی حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ ہزاروں افغان باشندوں جن میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی شامل تھے کو خفیہ طور پر برطانیہ میں آباد کیا گیا ہے۔امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ان افغان باشندوں کو اُن کی شناخت کا ڈیٹا لیک ہونے کے بعد اِن خدشات کی بنا پر برطانیہ میں آباد کیا گیا کہ طالبان انہیں اپنا ہدف بنا سکتے ہیں۔
اب برطانیہ کی موجودہ حکومت نے سابق حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے اس خفیہ منصوبے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیر دفاع جان ہیلی کا کہنا ہے کہ ’طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد 19 ہزار افغانوں نے برطانیہ آنے کے لیے درخواست دی تھی۔‘ان کے مطابق ’سنہ 2022 میں ان افراد کا ڈیٹا غلطی سے جاری ہو گیا تھا اور بعدازاں یہ معلومات آن لائن شائع بھی ہو گئیں۔‘اس ڈیٹا کے افشا ہونے کے بعد اُس وقت کی کنزرویٹیو حکومت نے ایک خفیہ پروگرام کے ذریعے افغان باشندوں کی ملک میں آبادکاری کا فیصلہ کیا تھا۔حکومت نے عدالت سے ایک حکم نامہ بھی حاصل کیا تھا جسے اعلٰی حکمِ امتناعی کہا جاتا ہے جس کے تحت اِن میں سے ہر ایک شخص کو اپنی موجودگی ظاہر نہ کرنے کا پابند بنایا گیا۔منگل کو برطانیہ کی موجودہ لیبر حکومت کی جانب سے اس پروگرام کوعوام کے سامنے لانے کے فیصلے کے بعد اس حکم امتناعی کو ہٹا لیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آزادانہ جائزے کے بعد اس بات کے بہت کم شواہد ملے ہیں کہ ڈیٹا لیک ہونے کے بعد طالبان ان افغانوں کے خلاف انتقامی کارروائی کر سکتے ہیں۔
برطانوی وزیر دفاع کے مطابق ’طالبان کے آنے کے بعد 19 ہزار افغانوں نے برطانیہ آنے کے لیے درخواست دی تھی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی نے دارالعوام کے قانون سازوں کو بتایا کہ ’انہیں پارلیمنٹ اور عوام میں شفافیت کے فقدان پر گہری تشویش ہے۔‘اس خفیہ پروگرام کے تحت تقریباً 4 ہزار 500 افراد، 900 درخواست دہندگان اور تقریباً 3 ہزار 600 اہلِ خانہ کو برطانیہ مین لا کر آباد کیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق پروگرام کے اختتام تک 6 ہزار 900 افراد کو برطانیہ منتقل کیا جائے گا جس پر 850 ملین پاؤنڈز (ایک ارب 10 کروڑ ڈالر) اخراجات آئیں گے۔ازسرِنو آبادکاری کے منصوبے کے تحت تقریباً 36 ہزار افغان باشندوں کو برطانیہ منتقل کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد برطانوی افواج کو طالبان اور القاعدہ کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان بھیجا گیا تھا۔افغانستان میں جب اتحادی افواج کا آپریشن عروج پر تھا اس وقت برطانیہ کے 10 ہزار فوجی وہاں موجود تھے، زیادہ تر فوجی جنوب میں ہِلمند کے صوبے میں تعینات تھے۔واضح رہے کہ برطانوی حکومت نے افغانستان میں اپنا فوجی آپریشن 2014 میں ختم کر دیا تھا۔