اسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہے

بی بی سی اردو  |  Jun 23, 2025

Getty Imagesجنوبی اسرائیل میں واقع دیمونا نیوکلیئر پاور پلانٹ اسرائیل کا بڑا جوہری مرکز ہے

یہ ایک کھلا راز ہے کہ اسرائیل کے پاس 1960 کی دہائی سے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں لیکن اسرائیل نے کبھی بھی سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی۔

گذشتہ ہفتے اسرائیل نے ایران پر فوجی حملہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے دہانے پر ہے۔‘ ایران نے جواب میں اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغے اور اب دونوں ممالک حالتِ جنگ میں ہیں۔

امن، سلامتی، دفاع اور ہتھیاروں کے معاملات کا تجزیہ کرنے والی غیرجانبدار تنظیمڈیلاس سینٹر فار پیس سٹڈیز کے محقق ڈاکٹر زیویئر بوہیگاس کہتے ہیں کہ ’اسرائیل مشرق وسطیٰ میں وہ واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔‘

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق ایران کے پاس یورینیم کے ذخائر 60 فیصد تک افزودہ ہو چکے ہیں، لیکن جیسا کہ بوہیگاس بتاتے ہیں: ’ایٹم بم بنانے کے لیے اس یورینیم کو 90 فیصد سے زیادہ افزودہ کرنا ضروری ہے۔‘

مزید برآں، اسرائیل نے کبھی بھی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں جبکہ ایران، امریکہ اور روس جیسے ممالک نے اس معاہدے کو قبول کیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل، آئی اے ای اے کے دیگر رکن ممالک کے برعکس، اپنی ممکنہ جوہری تنصیبات کے وقتاً فوقتاً معائنے کا پابند نہیں ہے۔

اگرچہ اسرائیل انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا رکن ہے، لیکن اس پر لازمی معائنے کی شرط لاگو نہیں ہوتی۔

اس وجہ سے اسرائیل کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو معلومات موجود ہیں وہ بنیادی طور پر لیکس، امریکی محکمۂ دفاع اور توانائی کی رپورٹس اور جوہری معاملات پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی اداروں کے اندازوں کی مدد سے ہی حاصل کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور براہ راست ذریعے سے بھی یہ معلومات ملیں جو کہ اسرائیل کے جوہری انجینیئر موردیچائی ونونو تھے جنھوں نے اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات میں سے ایک میں کام کیا اور نوکری سے برخاست کیے جانے کے بعد، 1986 میں برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز سے بات کی تھی۔

وہ پہلے فرد تھے جنھوں نے یہ انکشاف کیا کہ اسرائیل کے پاس ایک فعال جوہری پروگرام ہے اور اس انکشاف کے نتیجے میں انھیں برسوں تک قید رکھا گیا۔

اسرائیل کی ’امیمت‘ یا دانستہ ابہام کی پالیسی

جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کی سرکاری پالیسی کو ’امیمت‘ یا ’دانستہ ابہام‘ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، اسرائیل ایسے ہتھیار رکھنے کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔

جوہری عدم پھیلاؤ کے مطالعہ کے پروفیسر اور اسرائیل کے جوہری پروگرام کے ایک سرکردہ ماہر ایونر کوہن نے برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے لیے ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’یہ نقطۂ نظر(دانستہ ابہام) جوہری دور میں اسرائیل کی ایک مخصوص خصوصیت قرار دی جا سکتی ہے۔‘

اور یہ پالیسی کوئی نئی نہیں ہے۔

شمعون پیریز جنھوں نے اسرائیل کے وزیراعظم اور صدر کے طور پر خدمات انجام دیں نے اس بارے میں اپنی یادداشتوں میں لکھا: ’ہم نے سیکھا کہ ابہام غیر معمولی طاقت رکھتا ہے۔۔۔ شک ان ​​لوگوں کے لیے ایک طاقتور رکاوٹ تھا جو دوسرے ہولوکاسٹ کا خواب دیکھتے تھے۔‘

کوہن کا کہنا ہے کہ ’جوہری ابہام کی یہ پالیسی اسرائیل کی سب سے بڑی سٹریٹجک اور سفارتی کامیابی رہی ہے۔‘

ان کے مطابق، یہ پالیسی بین الاقوامی برادری کی خاموش رضامندی کے ساتھ، اسرائیل کو ’دونوں قسم کے حالات کے فوائد سے لطف اندوز ہونے‘ کی اجازت دیتی ہے۔

زیویئر بوہیگاس نے بی بی سی منڈو کو بتایا ’اسرائیل نے جان بوجھ کر ابہام کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ وہ کبھی بھی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل نہیں ہوا ہے، اس لیے وہ کسی بھی وقتا فوقتا معائنے سے اتفاق کرنے کا پابند نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’فوجی معاملات میں، اسرائیل شفاف نہیں ہے اور نہ ہی بہت سے دوسرے ممالک ہیں، لیکن اسرائیل جوہری معاملے پر اس سے بھی کم شفاف ہے۔ اسرائیل کے نقطہ نظر سے، یہ ابہام اس کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔‘

ڈاکٹر بوہیگاس کا کہنا تھا کہ ’بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس جوہری پروگرام ہے، ہم جانتے ہیں کہ اس کے پاس بم ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے پاس انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ ابہام درحقیقت بیرونی معلومات سے ٹوٹا، یہ نہیں کہ اسرائیل خود کسی چیز کا اعلان یا تردید کرنا چاہتا تھا۔‘

ایونر کوہن نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی ہے کہ یہ مبہم پالیسی اسرائیل کو ’دو چیزوں یعنی وجودی خطرات کے خلاف اپنا دفاع کرنے اور جوہری ہتھیار رکھنے سے منسلک سیاسی نتائج سے محفوظ رہنے کی اجازت دیتی ہے۔‘ اور اسے ’عملی طور پر یہ ہتھیار رکھنے کی کوئی سیاسی، سفارتی، یا اخلاقی قیمت بھی ادا نہیں کرنی پڑتی۔‘

AHMAD GHARABLI/AFP/Getty Imagesدیمونا کے علاوہ اسرائیل کا تل ابیب کے قریب نخل سورق میں ایک ریسرچ ری ایکٹر بھی ہے۔

اسرائیل ہیوم، وزیراعظم نتن یاہو کا حامی اور اسرائیل میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اخبار ہے۔ اس میں شائع ہونے والے ایک طویل مضمون میں اس بات کا احاطہ کیا گیا کہ اسرائیل اپنی جوہری صلاحیت کے بارے میں اتنا ’محتاط‘ کیوں ہے۔

اخبار کے مطابق: ’اسرائیل کا بنیادی ہدف ہر قیمت پر جوہری پھیلاؤ کو روکنا ہے‘ اور ابہام کی پالیسی کے حامیوں کے مطابق: ’ترک کرنے سے مشرق وسطیٰ میں جوہری مقابلے کی توسیع کو ہوا مل سکتی ہے‘ اور یہ ہتھیاروں کی دوڑ کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔

دوسری طرف سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفریشن کا ماننا ہے کہ شفافیت کا یہ فقدان مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک زون کے قیام کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ اور ایک مستقل چیلنج ہے۔

ہم کیسے جانتے ہیں کہ اسرائیل کا ایٹمی پروگرام موجود ہے؟

اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں پہلی معلومات 1962 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک میمو سے سامنے آئی تھی جس میں فرانس اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کا حوالہ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے 1950 کی دہائی میں جنوبی اسرائیلی شہر دیمونا میں ایک جوہری بجلی گھر تعمیر کیا گیا تھا۔

زیویئر بوہیگاس کا کہنا ہے کہ ’فرانس کے ساتھ تعاون پلوٹونیم پیدا کرنے کے لیے ایک ری ایکٹر کی تعمیر کے لیے تھا۔‘

گوگل میپس کی تلاش سے پتہ چلتا ہے کہ ’نیگیو نیوکلیئر ریسرچ سینٹر‘ دیمونا شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر صحرائے نیگیو کے وسط میں واقع ہے۔

ابتدائی طور پر، کمپلیکس کو ٹیکسٹائل فیکٹری، میٹالرجیکل ریسرچ کا مرکز، یا زرعی کمپلیکس کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔

کچھ عرصے بعد، 1960 کی دہائی میں، اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریان نے ملک کے جوہری پروگرام کا واحد عوامی حوالہ دیا۔

اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں انھوں نے اعلان کیا کہ جوہری تحقیقی مرکز ’پرامن مقاصد‘ کے لیے ہیں۔

RONEN ZVULUN/POOL/AFP/Getty Imagesاسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جوہری ہتھیار رکھنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے

بوہیگاس کا کہنا ہے کہ امریکی محکمۂ دفاع اور توانائی کی رپورٹس اور تحقیقات ’واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ہے۔‘

خفیہ دستاویزات جو بعد میں ظاہر کی گئیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 1975 تک امریکی حکومت کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

لیکن اسرائیل کے جوہری پروگرام کے انکشاف کی تاریخ میں اہم موڑ ایک شخص کے نام سے جڑا ہوا ہے اور وہ موردچائی وانونو ہیں۔

سنڈے ٹائمز کے لیے انکشافات

وہ 1980 کی دہائی تھی جب اسرائیل کے جوہری پروگرام کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات سامنے آئیں۔

وانونو دیمونا جوہری ری ایکٹر کے سابق ملازم تھے جنھوں نے 1985 تک نو سال وہاں کام کیا اور وہاں سے جانے سے پہلے، چپکے سے اس مرکز کی تصویریں بھی لیں۔

ان تصاویر میں ہتھیاروں کی تیاری کے لیے تابکار مواد نکالنے کا سامان اور تھرمونیوکلیئر ہتھیاروں کی ماڈلنگ لیبارٹری کو دکھایا گیا تھا۔

1986 میں، وانونو نے سڈنی، آسٹریلیا میں ایک جوہری مخالف گروپ میں شمولیت اختیار کی، جہاں اس کی ملاقات کولمبیا کے ایک آزاد صحافی آسکر گوریرو سے ہوئی، جس نے انھیں تصاویر شائع کرنے پر آمادہ کیا۔

اس طرح وانونو نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے صحافی پیٹر ہونام سے رابطہ کیا۔

ہونام نے بی بی سی کے پروگرام 'وٹنس ہسٹری' میں بتایا کہ وانونو نے امید ظاہر کی تھی کہ ان معلومات کے افشا ہونے سے اسرائیل اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں آ جائے گا۔

لیکن ان میں سے کوئی بھی امید پوری نہیں ہوئی۔

پروگرام ’وٹنس ہسٹری‘ کے مطابق، وانونو کو نشہ آور شے پلا کر اغوا کیا گیا اور واپس اسرائیل لے جایا گیا۔ ایک مقدمے کی سماعت کے بعد، انھیں اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے راز افشا کرنے کے لیے غداری اور جاسوسی کے الزام میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

وانونو کو 2004 میں رہا کیا گیا اور رہائی پانے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کیے پر ’فخر اور خوشی‘ محسوس کرتے ہیں۔ رہائی کے بعد، انھیں دوبارہ ان پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر سزا سنائی گئی اور اب انھیں غیرملکیوں سے بات چیت کرنے یا اسرائیل چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

وانونو کے انکشافات کی وجہ سے ہی اس بات کا کھلے عام اعتراف کیا گیا کہ اسرائیل کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ہے۔

اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟ایران کا جوہری پروگرام اس قدر متنازع کیوں ہے؟ایرانی سائنسدانوں کے قتل سے لبنان میں ’پیجر اور واکی ٹاکی بم‘ تک: موساد کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی کہانیاسرائیل کا ایٹمی اسلحہ خانہ کتنا بڑا ہے اور اس کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟

موردچائے ونونو کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس وقت ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 100 سے 200 کے درمیان ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔

سٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسے جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کے پاس شاید 90 کے قریب جوہری وار ہیڈز ہیں۔

ان ہتھیاروں کو تیار کرنے کے لیے درکار پلوٹونیم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے دیمونا کے قریب نیگیو نیوکلیئر مرکز کے آئی آر آر -2ریسرچ ری ایکٹر میں تیار کیا گیا تھا۔

AFP/Getty Imagesایران نے اپنے بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا ہے

اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ سرکاری معلومات کے مطابق یہ ری ایکٹر تھرمل ری ایکٹر ہے جس کی صلاحیت 26 میگاواٹ ہے تاہم کچھ کا خیال ہے کہ یہ اعدادوشمار اس کی اصل صلاحیت سے کہیں کم ہیں۔

اسرائیل کے جوہری پروگرام کے دیگر حصوں کی طرح یہ ری ایکٹر بھی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحفظات کے تابع نہیں ہے۔ حفاظتی ضابطے تکنیکی اقدامات کا ایک مجموعہ ہیں جو ایجنسی آزادانہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ جوہری تنصیبات کو صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

لیکن ایسی صورت حال میں جب اسرائیل سرکاری معلومات فراہم نہیں کرتا، ملک میں ایٹمی وار ہیڈز کی تعداد کا حساب کیسے لگایا جاتا ہے؟

بوہیگاس کہتے ہیں کہ ’عالمی تنظیمیں جوہری پروگراموں کی سالانہ نگرانی کرتی ہیں اور ہتھیاروں کا تخمینہ فراہم کرتی ہیں۔ ان ممالک کے لیے جہاں کم معلومات دستیاب ہیں - جیسے اسرائیل یا شمالی کوریا - پچھلے برسوں میں یورینیم یا پلوٹونیم کی پیداوار کی مقدار کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور اسی سے حتمی تعداد اخذ کی جاتی ہے۔‘

Reutersایران نے اسرائیلی حملے کے جواب میں بیلسٹک میزائل داغے اور دونوں فریق جنگ میں مصروف ہیں

جوہری ماہر کا مزید کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ری ایکٹر کے کام کرنے کے دورانیے اور ان کی کارکردگی کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر اندازے لگائے جاتے ہیں۔

یہ طریقہ اسرائیل یا شمالی کوریا کے لیے نہ تو نیا ہے اور نہ ہی انوکھا۔

2011 میں نیو سٹارٹ معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے، جب سرکاری رپورٹنگ کے ساتھ لازمی وقتا فوقتا معائنہ نہیں کیا جاتا تھا، بین الاقوامی اداروں نے سوویت یونین اور امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ایسے تخمینے فراہم کیے تھے اور بوہیگاس کا کہنا ہے کہ ’وہ اندازے ان معلومات سے کافی حد تک مطابقت رکھتے تھے جو بعد میں معائنہ کے دوران سامنے آئیں۔‘

ان کے مطابق اسی لیے ’ہم اس سے کم از کم اندازہ لگا سکتے ہیں اسرائیل کے بارے میں اندازے حقیقت کے قریب تر ہو سکتے ہیں۔‘

جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ؟

2012 میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کا بین الاقوامی معائنہ کروائے۔

تاہم خود اسرائیل، امریکہ اور کینیڈا نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، جس میں اسرائیل سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔

ایران نے 1970 میں اس معاہدے پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی۔ تاہم، حالیہ دنوں میں، اسرائیلی حملے کے بعد، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغائی نے اعلان کیا کہ ایرانی اسمبلی معاہدے سے دستبرداری کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے پر زور دینے والی قراردادیں باقاعدگی سے پیش کی جاتی رہی ہیں۔

AFP/Getty Images2012 میں نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں ایران کے جوہری پروگرام کو بم کے ساتھ دکھایا

بوہیگاس کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور یہاں تک کہ اسے اپنی علاقائی سالمیت پر حملہ تصور کیا ہے۔‘

ان کے مطابق، اقوام متحدہ کے مرکز برائے تخفیف اسلحہ کی تحقیق کے پریس آرکائیو میں درج بیانات کی بنیاد پر، اسرائیل نے وضاحت کی ہے کہ ایسی قراردادیں ’خطے میں حقیقی خطرات‘ کو دور نہیں کرتی ہیں۔

زیویئر بوہیگاس زور دیتے ہیں: ’یہ تشویشناک ہے کہ کسی بھی ملک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، کیونکہ ان سے جڑے خطرات حقیقی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل، جس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بار بار خلاف ورزی کی ہے، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کو نظر انداز کیا ہے، اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور یہ کہ کوئی دوسرا ملک اسے روک نہیں سکتا، اس معاملے کو مزید تشویشناک بنا دیتا ہے۔‘

ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More