BBC33 سالہ ویرونیکا اس جگہ سے 200 میٹر کی دوری پر رہتی ہیں جہاں ایرانی میزائل گرا تھا
تل ابیب کے جنوب میں واقع بیت یام کا علاقہ عرصہ دراز سے اسرائیل میں دائیں بازو کی اتحادی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے۔
اتوار کی صبح اسی علاقے میں ایک ایرانی میزائل دس منزلہ رہائشی عمارت پر گرا جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں ملبے تلے دب گئے۔
نقصان کے باوجود مقامی رہائشی جمعے کے دن سے ایران کے خلاف شروع ہونے والی عسکری کارروائی، جس کے دوران عسکری سربراہان، جوہری تنصیبات سمیت فضائی دفاع، ایئرپورٹ اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا، کی حمایت کر رہے ہیں۔
33 سالہ ویرونیکا اس جگہ سے 200 میٹر کی دوری پر رہتی ہیں جہاں ایرانی میزائل گرا تھا۔ وہ ایران کے خلاف کارروائی پر کہتی ہیں کہ ’ایسا کرنا ضروری تھا لیکن ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ ہم بھی اس طرح سے متاثر ہوں گے۔‘
میزائل حملے کی وجہ سے ویرونیکا کے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ آس پاس کی تقریبا تمام عمارات کو ایسا ہی نقصان پہنچا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم صدمے کی کیفیت میں تھے۔‘ جس وقت ان سے بات ہوئی وہ خوراک اور دیگر ضرورت کی اشیا ایک سوٹ کیس میں رکھ کر ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
بیت یام میں گرنے والا ایرانی بیلسٹک میزائل ان راکٹوں سے کہیں زیادہ طاقتور اور نقصان دہ تھا جو گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حماس یا حزب اللہ کی جانب سے داغے جاتے رہے ہیں اور جن کی اکثریت کو اسرائیل کا جدید فضائی دفاعی نظام روکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
میزائل حملے کے بعد ملبے تلے دبے چند افراد کو گھنٹوں میں بچا لیا گیا تھا۔ تاہم اتوار کی شام تک کم از کم تین افراد کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ طبی ٹیم کے رکن اوری نے بتایا کہ ’میں نے ان کی آنکھوں میں خوف دیکھا۔ لوگ ملبے کی راکھ میں اٹے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔‘
AFPبیت یام میں گرنے والا ایرانی بیلسٹک میزائل ان راکٹوں سے کہیں زیادہ طاقتور اور نقصان دہ تھا جو گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حماس یا حزب اللہ کی جانب سے داغے جاتے رہے ہیں
68 سالہ ایوی، جنھوں نے اپنا پورا نام بتانے سے گریز کیا، اسی جگہ پیدا ہوئے اور یہی پلے بڑھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں حملہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے ہمیں ایسا کرنا ہے ورنہ وہ ہم پر ایٹم بم گرا دیں گے۔‘
ان کا موقف تھا کہ ’وہ کمزور ہیں اور ہم بہت طاقتور ہیں، اسرائیل دنیا میں نمبر ون ہے۔‘
18 سالہ ایمل بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ زیادہ تر اسرائیلیوں کی یہی سوچ ہے۔‘
سیاسی حمایت
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی توجیح یہ پیش کی گئی کہ وہ جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ تقریبا ایک دہائی کے عرصے سے ہر حکومت نے ہی ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ حصول پر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے جبکہ ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔
اگرچہ وزیر اعظم نتن یاہو کو اسرائیل میں غزہ کی پٹی میں جنگ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم اپوزیشن اور ان کی حریف جماعتوں نے ایران پر حملے کی حمایت کی ہے۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں اور ان کا خاندان کتنا بااثر ہے؟حیفہ: انڈیا سے تاریخی اور اقتصادی رشتہ رکھنے والا ’سٹریٹیجک‘ اسرائیلی شہر جسے ایرانی حملوں میں نشانہ بنایا گیافضائی برتری، خفیہ ایجنٹ اور امریکی ہتھیار: اسرائیلی فوج ایران پر کیسے ’حاوی‘ ہوئی اور آگے کیا ہو گا؟’ایک عمارت پر ہمارے سامنے ڈرون حملہ ہوا‘: تہران میں میزائلوں کے سائے میں پاکستانی شہریوں نے کیا دیکھا؟
چیٹم ہاؤس میں مشرق وسطی پروگرام سے تعلق رکھنے والے پروفیسر یوسی مکلبرگ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل میں ہمیشہ ایران کو عسکری جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کی حمایت رہی ہے۔‘
لیکن ان کے مطابق ’یہ غزہ کی پٹی میں حماس سے یا لبنان میں حزب اللہ سے کہیں بڑا کام ہے، ایران سے محدود تنازع سے بھی بڑا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تنازع ایک کھلی جنگ میں بدل رہا ہے اور 20 ماہ بعد اسرائیل میں جنگی تھکاوٹ شروع ہو جاتی ہے۔‘
’اگر مذید ہلاکتیں ہوتی ہیں، لوگوں کو پناہ گاہوں میں زیادہ وقت بتانا پڑتا ہے، اور اگر یہ بھی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ بن جاتی ہے‘ تو ان کی رائے میں ’یہ حمایت کم ہونا شروع ہو جائے گی۔‘
اتوار کے دن بیت یام میں قومی سلامتی کے وزیر، بن گویر پہنچے جن پر حال ہی میں برطانوی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے الزام میں پابندی عائد کی۔ انھوں نے اس گلی میں دکانداروں سے ملاقات کی جن کی دکانیں ایرانی حملے سے متاثر ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک اپنی بیکری کے باہر بیٹھے تھے۔
جب ان سے سوال ہوا کہ کیا وہ ایران کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کے حامی ہیں تو انھوں نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا ’بلکل، یہ کیسا سوال ہے۔‘
اتوار کے دن ہی وزیر اعظم نتن یاہو نے بھی اسی جگہ کا دورہ کیا تو ’بی بی، اسرائیل کے بادشاہ‘ کے نعرے لگے۔
چند گھنٹے بعد انھوں نے ایک تقریر میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک مشکل دن تھا، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مشکل دن ہوں گے۔‘
لیکن ایران کے خلاف کارروائی کی بڑے پیمانے پر حمایت کے باوجود اگر یہ تنازع بڑھتا ہے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل کی عوام کتنے مشکل دن برداشت کر پائے گی۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں اور ان کا خاندان کتنا بااثر ہے؟حیفہ: انڈیا سے تاریخی اور اقتصادی رشتہ رکھنے والا ’سٹریٹیجک‘ اسرائیلی شہر جسے ایرانی حملوں میں نشانہ بنایا گیافضائی برتری، خفیہ ایجنٹ اور امریکی ہتھیار: اسرائیلی فوج ایران پر کیسے ’حاوی‘ ہوئی اور آگے کیا ہو گا؟’ایک عمارت پر ہمارے سامنے ڈرون حملہ ہوا‘: تہران میں میزائلوں کے سائے میں پاکستانی شہریوں نے کیا دیکھا؟ایران اسرائیل تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟روس کو مشرق وسطیٰ میں ایک اور دھچکے کا خدشہ: پوتن ایران کی مدد کیوں نہیں کر پا رہے؟