چار گورنروں کے ساتھ گزرے ایام، عامر خاکوانی کا کالم

اردو نیوز  |  Jun 16, 2025

دنیا بھر میں ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ڈپلومیٹس، خفیہ اداروں کے سربراہان، سابق صدور، وزرائے اعظم، معروف سیاستدان اور دیگر قابل ذکر لوگ اپنی بائیوگرافی لکھا کرتے ہیں۔ یہ عام رواج ہے، چونکہ ان معاشروں میں کتاب پڑھے جانے کا چلن ہے، اس لیے اکثر لکھنے والوں کو ان کتابوں سے معقول آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔

یہ ایک طرح سے تاریخ کا قرض ہوتا ہے۔ انہوں نے جو دیکھا، جو مشاہدہ کیا یا جو ان کے تجربات ہوتے ہیں، وہ نئی نسل تک منتقل کرتے ہیں۔ فطری طور پر وہ اپنا دفاع بھی کرتے ہیں۔

مگر پاکستان میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس، جرنیلوں، ججوں اور سیاستدانوں کے کتاب لکھنے کا کم ہی رواج ہے۔

 ہمارے ہاں اگر اکا دکا کتاب لکھی گئی تو اس کے مصنف پر تنقید ہوتی ہے اور تمسخر اڑایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایسا کیا۔ تو بھائی صاحب وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ جب کوئی بیوروکریٹ، جرنیل یا جج ملازمت میں ہو تو سرکاری ضابطے اسے کچھ بھی کہنے اور لکھنے سے روکتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ریٹائر ہو کر ہی اپنی بات کہے گا، اپنا موقف بیان کرے گا۔ اس میں تعجب کیسا؟

صدر ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن پر ان کے وائٹ ہاؤس میں آٹھ سالہ قیام کے دوران تنقید ہو جاتی تھی، بعض صحافی مختلف نوعیت کے الزامات بھی لگاتے تھے۔ جب ریگن کی مدت مکمل ہوگئی اور وہ سیاست ہی سے ریٹائر ہوگئے تو نینسی ریگن نے کتاب لکھی جس کانام تھا مائی ٹرن (میری باری)، اس میں تمام الزامات کا جواب دیا اور اپنا موقف تفصیل سے بیان کیا۔ وہاں تو کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ سابق خاتون اول نے کتاب کیوں لکھی؟

ہمارے ہاں دو چار ہی بیوروکریٹس، اکا دکا جرنیلوں اور پانچ سات ہی سابق سفیروں اور ڈپلومیٹس نے کتابیں لکھی ہیں۔ بیوروکریٹس میں سب سے نمایاں اور بیسٹ سیلر تو قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ ہے۔ یہ کتاب چھپے 46 سال ہونے کو ہیں، ابھی تک فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے مندرجات مسلسل ڈسکس ہوتے ہیں، ان کے حق میں اور مخالفت میں لکھا جاتا ہے۔

شہاب صاحب کے دور ہی میں ایوان صدر میں تعینات ایک اور افسر ایم بی خالد کی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ بھی شائع ہوئی، یہ بھی دلچسپ ہے۔ سابق سیکریٹری جیون خان نے بھی جیون دھارا کے نام سے اپنی خودنوشت لکھی تھی، ہمارے بعض بیوروکریٹ حکمرانوں کے بہت قریب رہے اور وہ بہت سے رازوں کے واقف تھے، افسوس کہ انہوں نے کتاب لکھنے کی جرات نہیں کی۔

جرنیلوں میں سے کے ایم عارف کی دو کتابیں ضیا کے ساتھ اور خاکی سائے اہم ہیں۔ جنرل اسلم بیگ کی کتاب بھی شائع ہوئی، جنرل فیض علی چشتی نے بھی کتاب لکھی۔ اکا دکا دیگر بھی ہیں۔

طارق محمود بیوروکریٹ رہے، مختلف عہدوں پر کام کیا، ملتان، جھنگ، اوکاڑہ میں ڈپٹی کمشنر رہے، ہوم سیکریٹری پنجاب رہے، فیڈرل سیکریٹری داخلہ بھی رہے۔ انہیں اتفاق سے چار گورنروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، سیکریٹری ٹو گورنر رہے، بعد میں جب وہ سینیئر ہوگئے تو بطور پرنسپل سیکریٹری کام کیا۔

مخدوم سجاد حسین قریشی 85 سے 88 تک پنجاب کے گورنر رہے (فوٹو: شاہ محمود قریشی)مخدوم سجاد قریشی نے انہیں اس عہدے پر فائز کیا، ان کے ساتھ خاصا وقت گزرا، پھر جنرل ریٹائر ٹکا خان کے ساتھ کام کیا۔ بعد میں مشرف دور میں بھی وہ سیکریٹری تو گورنر پنجاب رہے۔

طارق محمود جب ملتان میں تعینات تھے تو ایک بار قدرت اللہ شہاب وہاں اپنے دیرینہ دوست ایثار راعی سے ملنے آئے۔ وہ طارق محمود سے بطور ادیب شناسا تھے، ان سے ملنے آئے۔ بقول طارق محمود شہاب صاحب ڈاؤن ٹو ارتھ لگے، کرتا پائجامہ پہن رکھا تھا، پاؤں میں واجبی سی مکیشن، ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ تھام رکھا تھا۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے، تحمل سے بات سنتے۔

چائے کے دوران یہی تلقین کرتے رہے، ’دنیاوی حوالے معروضی ہیں، لکھنے کا فن آتا ہو تو یہی حوالہ زندہ رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے کو ہمہ تن جاری رہنا چاہیے، انسان اپنے آپ کو پہچان پاتا ہے۔ زندگی سہل ہوجاتی ہے۔ عہدے رتبے تو وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں۔‘

معلوم نہیں شہاب صاحب کی نصحیت کا اثر تھا یا طارق محمود کے اندر کے لکھاری کو چین نہیں تھا، ملازمت کے دوران بھی وہ لکھتے رہے، ایک ناول لکھا جسے خاصی پزیرائی ملی۔ ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد طارق محمود نے اپنے مشاہدات، تجربات، احساسات پر ایک نہایت عمدہ کتاب ’دام خیال‘ کے نام سے لکھی ہے، سنگ میل نے اسے شائع کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے بہت سے واقعات لکھے اور اپنی سیروسیاحت کی حسین روداد بھی رقم کی۔ کتاب چھ سو صفحات کے لگ بھگ ہے، مگر انتہائی دلچسپ، قاری ہر باب سے لطف اندوز ہوگا۔

مخدوم سجاد حسین قریشی 85 سے 88 تک پنجاب کے گورنر رہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی، مخدوم سجاد حسین قریشی کے صاحبزادے ہیں۔ طارق محمود نے بطور سیکریٹری گورنر مخدوم سجاد قریشی کے ساتھ دو سال کام کیا۔

طارق محمود نے گورنر پنجاب مخدوم سجاد  قریشی کے بعض ایسے واقعات لکھتے جو نئی نسل کو پڑھانا بہت ضروری ہیں، جن کے خیال میں ہر سیاستدان کرپٹ ہوتا ہے اور پاکستان میں ہمیشہ کرپٹ ہی حکمران آئے۔ ظاہر ہے مخدوم سجاد حیسن قریشی کو انتقال کیے 20، 25 سال ہوگئے، ان کا بیٹا جیل میں پڑا ہے۔ طارق محمود صاحب کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ مخدوم سجاد قریشی کی غلط تعریف کریں۔ انہوں نے تو جو دیکھا، وہی بیان کر دیا۔

طارق محمود بیوروکریٹ رہے اور اتفاق سے انہیں چار گورنروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا (فوٹو: طارق محمود فیس بک)طارق محمود لکھتے ہیں کہ ’میں نے چارج سنبھالا تو مجھے مخدوم سجاد قریشی نے اپنی ترجیحات اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ ان کا سب سے اہم حکم نامہ تھا کہ مجھے یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد گورنر ہاؤس سے کسی قسم کی ناجائز مراعات حاصل نہ کر پائے۔‘

’وہ اپنی ذات پر اپنی جیب سے تمام اخراجات برداشت کرنا چاہیں گے۔ اہم بات یہ تھی کہ گورنر تحفے تحائف کے سلسلے میں صوابدیدی فنڈ سے رقوم خرچ کر لیا کرتے تھے، مگر گورنر نے کہا کہ ان کے کسی عزیز، احباب جن کے ساتھ ذاتی تعلق ہے، ان کے لیے تحفے تحائف اور دیگر اخراجات سرکاری فنڈز سے قطعی طور پر نہیں لیے جائیں گے اور گورنر صاحب ایسی ہر ادائیگی اپنی جیب سے کیا کریں گے۔ ان ہدایات پر عمل بھی ہوا، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے ملٹری سیکریٹری کرنل اعجاز آفندی کے ساتھ مل کر بسا اوقات گورنر کے جوتوں کی پالش کا حساب بھی رکھنا پڑتا۔‘

’کہیں تحفہ بھجوانے کے لیے متعلقہ شخص کے کوائف کی چھان پھٹک بھی کرنا پڑتی، گورنر ہاؤس کے ایکسچینج سے مخدوم صاحب کے صاحبزادوں، دامادوں میں سے کسی نے انٹرنیشنل کال کر لی تو اگلے ماہ ان سے وصولی کر لی۔‘

طارق محمود بتاتے ہیں کہ ’مالیاتی معاملات میں احتیاط کے ساتھ ساتھ مخدوم صاحب کی بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور فوک وزڈم متاثرکن تھی۔ زندگی کے تلخ تجربات کو لطیف طنزیہ انداز میں بیان کر جاتے اور اپنی ہی ذات کو ہدف بنا کر بات کا مفہوم نکالنا اور سننے والے کو باور کرا دینا انہی کا ملکہ تھا۔ کوئی سفارت کار ملنے کے لیے آنکلا تو فلسفے، تقابلی مذاہب اور تاریخ کے عروج وزوال پر بے لگان گفتگو کرتے۔ وہ اپنی ذات میں کئی جہتوں کو سموئے ہوئے تھے۔‘

طارق محمود نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ ایک بار انڈین صحافی بھابھانی سین گپتا کو گورنر پنجاب نے ملاقات کے لیے فوری ٹائم دے دیا۔ انہوں نے بطور سیکریٹری گورنر صاحب کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ فارن آفس سے بریفنگ لیے بغیر یوں نہیں کرنا چاہیے تھا کہیں یہ کچھ ایسا ویسا نہ لکھ دے۔ گورنر سجاد قریشی نے غور سے بات سنی اور کہا، میں سنبھال لوں گا۔

 بھابھانی سین گپتا انٹرویو کے لیے آئے تو اس سے پیشتر کہ وہ سوال کرتے، مخدوم سجاد قریشی نے ان سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ قیام پاکستان سے قبل کی یادوں کا حوالہ دیا اور پھر رامائن پر گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو طوالت پکڑ گئی، موضوع اختتام کو پہنچا تو مخدوم صاحب نے بھگوت گیتا کے اشلوک سنانے شروع کر دیے۔

بھابھانی سین گپتا ہکا بکا سنتے رہے، وہ ٹوک بھی نہیں سکتے تھے۔ اسی دوران مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ مخدوم صاحب کھڑے ہوئے، اے ڈی سی دروازے پر منتظر تھا، مہمان کے لیے گفٹ پیک تیار تھا۔ مخدوم صاحب نے بھارتی صحافی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ انہیں نماز کے بارے میں باور کرایا کہ مجھے جماعت کے ساتھ پڑھنی ہے۔

طارق محمود بتاتے ہیں کہ ’مالیاتی معاملات میں احتیاط کے ساتھ ساتھ مخدوم صاحب کی بذلہ سنجی متاثرکن تھی۔‘ (فوٹو: فلکر)بھبانی سین گپتا حیرت زدہ تھے، کہنے لگے کہ میری عمر 63 سال ہے، اپنے طویل صحافتی کیریئر میں ایسا کبھی نہیں ہوا، انٹرویو لینے آیا تھا، لیکن مخدوم صاحب ہی ان کا انٹرویو لیتے رہے۔ مخدوم سجاد قریشی کھلکھلا کر ہنس دیے، وعدہ کیا کہ اگلی بار جب بھابھانی گپتا پاکستان آئیں گے تو ان کے ساتھ کھل کر باتیں ہوں گی۔

ایک بار طارق محمود نے کوئی ڈرافٹ بنا کر منظوری کے لیے پیش کیا۔ گورنر سجاد قریشی نے ان کی انگریزی کو سراہا، مگر نکتہ اٹھایا کہ آپ نے اوپر نیچے بہت جگہ چھوڑ دی ہے۔

بعد میں مخدوم سجاد قریشی نے واقعہ سنایا کہ ایوب خان دور میں وہ ملتان کارپوریشن کے وائس چیئرمین تھے۔ ملتان کے ایک طبیب نے انہیں وائس چیئرمین بننے پر مبارکباد کا خط لکھا۔ مخدوم صاحب نے کارپوریشن کے لیٹر پیڈ پر جوابی شکریہ کا خط لکھ دیا۔ بات ختم ہوگئی۔ مگر کچھ دنوں بعد ایک صاحب ملنے آئے تو پوچھنے لگے کہ مخدوم صاحب اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ مخدوم سجاد قریشی نے حیران ہو کر کہا کہ میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں۔ اسی طرح چند دنوں میں کئی لوگوں نے مخدوم صاحب کی طبیعت کا حال پوچھا تو وہ حیران ہوئے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ اسی ڈاکٹر صاحب نے اپنے کلینک میں مخدوم صاحب کا وہ خط فریم کر کے دیوار پر ٹانگا ہوا ہے جس میں جوابی شکریہ کے اختتام پر نیچے ایک اضافی نوٹ ڈالا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے جو گولیاں دی تھیں، انہوں نے خوب اثر کیا اور میں پہلے سے بہت بہتر ہوں۔

گورنر مخدوم سجاد قریشی نے یہ پرانا واقعہ سنا کر ہنستے ہوئے مشورہ دیا کہ خط لکھتے ہوئے اتنا مارجن چھوڑا ہی نہ کرو کہ کہیں کوئی ڈاکٹر جیسا نہ ٹکر جائے جو نیچے اپنی مرضی کا اضافی نوٹ ڈال دے اور اسے مشتہر کرے۔

بیوروکریسی اور سول سرونٹس کے بارے میں مخدوم صاحب عملی نظریہ رکھتے تھے (فوٹو: فلکر)بیوروکریسی اور سول سرونٹس کے بارے میں مخدوم صاحب عملی نظریہ رکھتے تھے۔ وہ سول سرونٹس کی ذہانت اور متانت کے قائل تھے، مگر کئی اعتبار سے شاکی بھی۔ سرائیکی میں کہا کرتے، ’انہاں وچ سپ دی پھنکار وی ھے تے پر پیراں تلے زمین وی نئیں (ان میں سانپ کی پھنکار بھی ہے اور پاؤں تلے زمین بھی نہیں یعنی زہر تو ہے مگر استقامت نہیں)۔

مخدوم سجاد قریشی نے ایک بار قصہ سنایا کہ وہ وزیراعلیٰ نواز شریف کے ساتھ کسی جگہ ایک ہی گاڑی میں گئے۔ وہاں پہنچے تو ایک صاحب نے آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھلا، گورنر کو دیکھ کر وہ فوری دروازہ چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا تاکہ جلدی سے وزیراعلیٰ کا دروازہ کھول دے۔

’گورنر صاحب اس پر شاکی نہیں تھے، وہ پاور پالیٹکس کو سمجھتے تھے اور اکثر اپنے سیکریٹری طارق محمود کو سمجھاتے کہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، وہی اہمیت رکھتا ہے۔

طارق محمود کی کتاب میں جونیجو، ضیا ٹکراؤ کے حوالے سے بھی کئی دلچسپ باتیں ہیں۔ گورنر ٹکا خان اور منظور وٹو کے واقعات بھی بیان کیے گئے۔ وہ آئندہ کسی نشست میں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More