اسرائیل نے ایران میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا ہے جس میں نہ صرف ایران کے یورینیئم افزودگی کے پلانٹ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ایرانی کمانڈرز کے ساتھ ساتھ کئی جوہری سائنسدان بھی مارے گئے ہیں۔
جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب شروع ہونے والے پہلے حملے کے بعد ایرانی وزیرِ خارجہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی جانب سے ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر ایک ’غیر ذمہ دارانہ‘ حملہ قرار دیا۔
اس کے بعد سے ایران نے اسرائیل پر جوابی فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔
ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ نطنز میں واقع یورینیئم افزودگی کا مرکز عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے زیرِ نگرانی چل رہا تھا اور اس پر حملے سے ’ریڈیولاجیکل تباہی‘ کا امکان تھا۔
تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا تاکہ ایرانی ایٹمی پروگرام کو روکا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے یہ کارروائی اس لیے کی کیونکہ ’اگر (ایران کو) نہ روکا گیا تو یہ بہت جلد جوہری ہتھیار بنا سکتا تھا۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ ’یہ ایک سال کے اندر بھی ہو سکتا تھا۔ کچھ ماہ میں بھی ہو سکتا تھا۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔ تاہم وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں نہ تردید۔
کیا ایسے شواہد موجود ہیں کہ ایران ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کر رہا تھا؟
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے پاس انٹیلی جنس اطلاعات موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت نے ایٹم بم بنانے کے لیے ضروری سمجھے جانے والے ہتھیاروں کے حصے تیار کرنے کی کوششوں میں ’ٹھوس پیش رفت‘ کی ہے۔ اس میں یورینیئم میٹل کور اور نیوکلیئر دھماکے کرنے کے لیے ضروری نیوٹرون سورس انیشییئیٹر شامل ہیں۔
امریکہ میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن میں عدم پھیلاؤ کی پالیسی کی ڈائریکٹر کیلسی ڈیون پورٹ کہتی ہیں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اس متعلق کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے نزدیک تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی ماہ سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے درکار فیژن مواد تیار کرنے کے بہت نزدیک ہے۔ ’اسی طرح یہ دعویٰ بھی کوئی نیا نہیں کہ ایران چند ماہ کے اندر جوہری ہتھیار بنا سکتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایران کی کچھ کارروائیاں ایسی تھیں جو بم بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ تاہم امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندازوں کے مطابق ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے پر کام نہیں کر رہا تھا۔
رواں سال مارچ میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی گبارڈ نے کانگریس کو بتایا کہ ایران کے افزودہ یورینیئم کے ذخائر تاریخ کی ’بلند ترین سطح‘ پر ہیں اور کسی ایسی ریاست میں اس کی نظیر نہیں ملتی جس کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا اب بھی یہ ’اندازہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا اور اس کے رہبرِ اعلیٰ [آیت اللہ علی خامنہ ای] نے 2003 میں معطل کیے گئے جوہری ہتھیاروں کا منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کی منظوری نہیں دی ہے۔‘
ڈیون پورٹ کہتی ہیں کہ اگر نتن یاہو کو خالصتاً ایران کے جوہری پھیلاؤ کے خطرے کا ڈر تھا تو اسرائیل ممکنہ طور پر اس انٹیلی جنس کو امریکہ کے ساتھ شیئر کرتا اور ابتدائی حملے میں ایران کی تمام اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا۔
’آئرن ڈوم‘ اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟اہم شخصیات کی ہلاکتیں اور جوہری تنصیبات پر حملے: اسرائیل کا ایران میں ’ریجیم چینج‘ کا ممکنہ آخری داؤ جو ایک جُوا ہو سکتا ہےاسرائیل کی ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کی کوشش جو مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی ’نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے‘اسرائیلی حملے کے بعد ایران میں شہران آئل ڈپو پر آگ لگنے کے مناظر’میزائلوں کے ایندھن کی کھیپ‘: ایران کی سب سے اہم بندرگاہ پر دھماکہ جس نے کئی سوال کھڑے کیے
آئی اے ای اے نے گذشتہ ہفتے اپنی تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران 60 فیصد تک خالص یورینیئم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے جو ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد یورینیئم افزودگی کے بہت نزدیک ہے۔
رپورٹ کے مطابق افزودہ یورینیئم کی مقدار اتنی ہے جس سے ممکنہ طور پر نو ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں۔ آئی اے ای اے کا کہنا تھا کہ جوہری پھیلاؤ کے خطرات کے پیش نظر یہ معاملہ ’سنگین تشویش‘ کا باعث ہے۔
ائی اے ای اے کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ ایرانی جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن تھا کیونکہ ایران تین غیر اعلانیہ جوہری مقامات سے ملنے والے انسانی ساختہ یورینیئم کے ذرات کی تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہا۔
BBCہم ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ایران ہمیشہ سے زور دیتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس نے کبھی نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔
تاہم آئی اے ای اے کی ایک دہائی تک جاری رہنے والی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ ایران نے 1980 کی دہائی کے اواخر سے 2003 تک ایسی متعدد ’سرگرمیاں انجام دیں جو ایٹمی دھماکہ خیز ڈیوائس کی تیاری‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ تاہم 2003 میں ’پروجیکٹ امد‘ نامی اس منصوبے کو روک دیا گیا تھا۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بھی 2009 تک ایران نے مختلف سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس وقت مغربی طاقتوں نے زیرِ زمین افزودگی کے مرکز فورڈو کا انکشاف کیا تھا۔ تاہم آئی اے ای اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کے بعد سے ہتھیاروں کی تیاری کے ’کوئی قابل اعتماد شواہد‘ نہیں ملے ہیں۔
سنہ 2015 میں ایران نے دنیا کی چھ طاقتوں کے ساتھ ایک جوہری معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت ایران پر عائد پابندیاں اٹھانے کے بدلے اس نے نہ صرف اپنی جوہری سرگرمیوں پر پابندیاں قبول کیں بلکہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو سخت نگرانی کی اجازت بھی دی۔
اس معاہدے کے تحت ایران پر افزودہ یورینیئم کی پیداوار پر بھی قدغن لگائی گئی۔ یہ یورینیئم جوہری ری ایکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
لیکن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران اس معاہدے کو یہ کہتے ہوئے ختم کر دیا کہ اس سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے میں زیادہ مدد نہیں ملی اور انھوں نے ایران پر امریکی پابندیاں بحال کر دیں۔
ایران نے اس کے جواب میں تیزی سے پابندیوں کی خلاف ورزی کی، خاص طور پر افزودگی سے متعلق پابندیوں کی۔
جوہری معاہدے کے تحت فورڈو میں 15 سال تک افزودگی کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم 2021 میں ایران نے 20 فیصد تک یورینیئم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دی۔
جمعرات کو آئی اے ای اے کے 35 ملکی بورڈ آف گورنرز نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ایران نے 20 سالوں میں پہلی بار جوہری عدم پھیلاؤ کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ ’محفوظ مقام‘ پر ایک نئی یورینیئم افزودگی کی سہولت قائم کرے گا اور فورڈو پلانٹ میں یورینیئم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے فرسٹ جنریشن سینٹری فیوجز کی جگہ جدید چھٹی جنریشن کی مشینیں نصب کرے گا۔
Reutersاسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان پہنچایا ہے؟
جمعے کے روز اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اس کے ابتدائی فضائی حملوں میں نطنز کے زیر زمین سینٹری فیوج ہال کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اہم انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے جو اس پلانٹ کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے ضروری تھا۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ حملوں کے نتیجے میں نطنز میں سطحِ زمین پر موجود پائلٹ فیول افزودگی پلانٹ (پی ایف ای پی) اور بجلی کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ زیر زمین ہال پر کسی براہِ راست حملے کے ثبوت نہیں ملے تاہم بجلی کی فراہمی کے تعطل سے وہاں موجود سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا ہو گا۔
امریکہ میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی کا کہنا ہے کہ پی ایف ای پی کی تباہی اہم ہے کیونکہ اس مرکز کو 60 فیصد افزودہ یورینیئم بنانے اور جدید سینٹری فیوجز تیار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ڈیون پورٹ کا کہنا ہے کہ نظنز پر حملوں سے ایران کے 'بریک آؤٹ ٹائم' بڑھ جائے گا لیکن اس حملے کے مکمل اثرات کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔
انھوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک آئی اے ای اے کو اس مرکز تک رسائی نہیں مل جاتی تب تک اس بات کی واضح تصویر حاصل نہیں ہو سکے گی کہ ایران کتنی جلدی وہاں اپنا کام دوبارہ شروع کر سکتا ہے یا ایران یورینیئم کو وہاں سے یورینیئم ہٹانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
BBC
حملوں کے بعد جمعے کے روز ایران نے آئی اے ای اے کو بتایا تھا کہ اسرائیل نے فورڈو کے یورینیئم کے مرکز اور اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اصفہان میں ایک حملے میں 'دھاتی یورینیئم بنانے کے ایک مرکز، افزودہ یورینیئم کو دوبارہ تبدیل کرنے کے بنیادی ڈھانچے، لیبارٹریوں اور اضافی انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔'
ڈیوین پورٹ کا کہنا ہے کہ 'جب تک فورڈو آپریشنل رہے گا، ایران کی جانب سے مستقبل قریب میں پھیلاؤ کا خطرہ لاحق رہے گا۔ تہران کے پاس آپشن ہے وہ یا تو اسی جگہ پر ہتھیاروں کے درجے کی سطح تک یورینیئم کی افزودگی کے عمل کو تیز کر سکتا ہے یا یورینیئم کو کسی غیر اعلانیہ مقام پر منتقل کر سکتا ہے۔'
اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ 'اس خطرے کو دور کرنے کے لیے جتنے دن لگیں'اتنے دن تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔
تاہم ڈیوین پورٹ کے خیال میں یہ ایک غیر حقیقی ہدف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'حملوں سے تنصیبات کو تباہ کیا جا سکتا ہے اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے ایران کی جوہری معلومات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران یورینیئم کی افزودگی میں پیشرفت کی وجہ سے ماضی کی نسبت اب زیادہ تیزی سے تعمیر نو کر سکتا ہے۔'
’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد قُم کی جمکران مسجد پر سرخ پرچم کیوں لہرایا گیا؟ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سمیت وہ طاقتور شخصیات جو اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئیںزیر زمین خفیہ عمارتوں، جوہری جزیرے اور یورینیم کانوں پر مشتمل ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ایران کا ’انٹیلیجنس سٹرائیک‘ کے ذریعے اسرائیل کی حساس جوہری دستاویزات تک رسائی کا دعویٰ