’وہ بطور ایئر ہوسٹس اپنی ملازمت سے بہت خوش تھی۔ یہ اُس کا خواب تھا۔ ابھی وہ کالج ہی میں زیر تعلیم تھی جب اس نے ایئر ہوسٹس بننے کا امتحان پاس کیا اور ایئرلائن میں نوکری حاصل کر لی۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 19 سال تھی۔ وہ ابھی کچھ دن پہلے ہی گھر آئی تھی لیکن اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔‘
سنتومبھا شرما جب ہمیں اپنی 21 سالہ بھانجی نگانتھوی شرما کی کہانی سُنا رہی تھیں تو اُن کے چہرے پر اداسی تھی اور آنکھیں نم تھیں۔
21 سالہ ایئرہوسٹس نگانتھوی شرما ایئرانڈیا کی اس پرواز پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی تھیں جو 12 جون کو ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس بدقسمت طیارے پر سوار صرف ایک شخص ہی زندہ بچ پایا تھا جبکہ دیگر 241 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں اپنی بھانجی کو یاد کرتے ہوئے سنتومبھا شرما نے کہا کہ ’میری بھانجی اپنے تین بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ اس کی ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے جو دسویں کلاس میں پڑھتا ہے۔‘
ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ٹریفک کے لیے بنایا گیا ’90 ڈگری موڑ والا پُل‘ اور سوشل میڈیا پر تبصرے: ’یہ پُل تو منصوعی ذہانت بھی نہیں بنا سکی‘ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘سدھو موسے والا کو کیوں قتل کیا گیا؟ گینگسٹر گولڈی برار کی زبانی
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے خاندان میں زیادہ تر لوگ باورچی کا کام کرتے ہیں، لیکن نگانتھوی خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جو ایئر ہوسٹس بنیں۔ اُن کی نوکری ایسی تھی کہ وہ کبھی دبئی ہوتیں اور کبھی امریکہ۔۔۔ اس نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔‘
سنتومبھا شرماکے مطابق ان کی بھانجی شروع ہی سے پڑھائی میں اچھی تھی۔ ’اُس کی کچھ سہیلیاں ایئر ہوسٹس بننے کے لیے اکیڈمی سے تربیت لے رہی تھیں۔ میری بھانجی نے بھی نوکری کا فارم بھرا اور پہلی ہی کوشش میں وہ منتخب ہو گئی۔‘
'ہم سب بہت خوش تھے کہ اسے یہ نوکری مل گئی۔ وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس کو ایک بڑی کمپنی میں کام کرنے کا موقع ملا۔'
'سب ختم ہو چکا'
ریاست منی پور میں آباد نگانتھوی شرما کا خاندان ناقابل یقین حد تک صدمے کی حالت میں ہے۔ اُن کی والدہ بھی صدمے میں ہیں۔ نگانتھوی نے لندن جانے والی ایئرانڈیا کی پرواز پر سوار ہونے سے کچھ دیر قبل اپنی بڑی بہن گیتانجلی کو فون کیا تھا۔
گیتانجلی اب اپنی بہن کی تصاویر ان لوگوں کو دکھاتی ہیں جو ان کے گھر میں تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ یہ تصاویر دکھاتے ہوئے وہ رونا شروع کر دیتیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے بہت خوشی ہوتی اگر مجھے یہ کال موصول ہوئی ہوتی کہ میری بہن نگانتھوی مجھے ملنا چاہتی ہے مگر اب میں اس کی لاش لینے احمد آباد جا رہی ہوں۔ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘
نگانتھوی کے والد نندیش کمار شرما نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اُن کی بیٹی نے جمعرات کی صبح تقریباً 11:30 بجے فون پر اپنی بڑی بہن سے بات کی تھی اور یہ اس کی آخری کال تھی۔
والد کے مطابق نگانتھوی نے اس فون کال پر اپنی بڑی بہن کو بتایا کہ ’وہ لندن جا رہی ہیں اور مصروفیت کے باعث اگلے چند دنوں تک فون نہیں کر سکیں گی۔ اس نے کہا کہ وہ 15 جون کو واپس انڈیا پہنچ کر فون کرے گی۔‘
لیکن اُسی روز دوپہر میں جب گیتانجلی نے اپنے موبائل پر طیارے کے حادثے کی خبر دیکھی تو پورا گھر تشویش میں مبتلا ہو گیا۔
والد کے مطابق 'ہمیں معلوم تھا کہ وہ اسی طیارے میں تھی۔ لیکن ابتدا میں ہمیں ایئر انڈیا یا کسی نمائندے کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ہمیں طیارہ حادثے کا علم صرف خبروں اور سوشل میڈیا سے ہوا۔'
اُن کے مطابق 'تاہم، شام کو ایئر انڈیا کے کچھ اہلکار گھر آئے اور خاندان کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے احمد آباد جانے کو کہا۔'
انھوں نے کہا ان کی بیٹی آخری مرتبہ تین، چار دن کے لیے گھر آئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے والد ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
سنتومبھا شرما کہتی ہیں کہ ’وہ اکثر گھر والوں سے ملنے آتی تھیں۔ گیتانجلی اس کی بڑی بہن سے زیادہ دوست تھی۔ جیسے ہی وہ گھر کے گیٹ پر پہنچتی، گیتانجلی کو پکارنا شروع کر دیتی۔ اس کے بغیر سب کچھ ویران ہو گیا ہے۔‘
ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘احمد آباد طیارہ حادثہ: بی بی سی کے نامہ نگار نے جائے حادثہ پر کیا دیکھا؟سدھو موسے والا کو کیوں قتل کیا گیا؟ گینگسٹر گولڈی برار کی زبانیٹریفک کے لیے بنایا گیا ’90 ڈگری موڑ والا پُل‘ اور سوشل میڈیا پر تبصرے: ’یہ پُل تو منصوعی ذہانت بھی نہیں بنا سکی‘ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟