پندرہ سالہ جواد خان جن کی موت کے بعد پانچ لوگوں کو نئی زندگی ملی: ’فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹے کو ہمیشہ زندہ رکھوں گا‘

بی بی سی اردو  |  Jun 11, 2025

31 مئی کو مردان میں صبح سکول جاتے ہوئے نویں کلاس کے طالب علم پندرہ سالہ جواد خان حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کے دماغ کو شدید چوٹیں آئیں۔ انھیں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور پہنچایا گیا جہاں ان کے دماغ کی نازک سرجری ہوئی مگر وہ زندہ نہ رہ سکے۔

پانچ جون کو ڈاکٹروں نے جواد خان کے چچا فرہاد کو بتایا کہ ان کا دماغ مردہ ہو چکا ہے اور اب یہ صرف مشین کے ذریعے سانس لے پا رہے ہیں اور یہ کہ انھیں زیادہ دیر تک مشین پر بھی نہیں رکھا جا سکتا۔

بھتیجے کی نازک صورتحال دیکھتے ہوئے فرہاد نے جواد خان کے والد نور داد سے بات کی مگر وہ اپنے سب سے بڑے بیٹے کے لیے امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔

انھوں نے سختی سے منع کیا کہ ’مشین نہیں اتارنا۔۔ میں یہاں (آئی سی یو وارڈ) میں کھڑا ہوں اور اگر مجھے برسوں بھی کھڑا رہنا پڑا تو میں کھڑا رہوں گا۔‘

فرہاد نے اپنے بڑے بھائی کے دکھ کو سمجھتے ہوئے انتہائی نرمی سے کہا ’ہمارا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ مشین پر تکلیف سے سانس لے رہا ہے۔ وقت کم ہے۔ انسانیت کے ناطے سوچنا ہو گا۔‘

نور داد نے کہا ’اچھا اگر میرے بیٹے کے اعضا سے کسی کی زندگی بچ سکتی ہے تو جو اعضا، دل چاہتا ہے لےلو۔‘

پندرہ سالہ جواد خان کے اعضا سے پانچ لوگوں کو نئی زندگی ملی۔ ان کی آنکھوں سے دو لوگوں کو بینائی ملی، دو مختلف لوگوں میں گردوں اور ایک میں جگر کی پیوند کاری ہوئی۔

’فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹے کو ہمیشہ زندہ رکھوں گا‘

نور داد ضلع مردان کے علاقے رستم کے رہائشی ہیں۔ وہ پیشے کےلحاظ سے آٹا پیسنے والی چکی کا کاروبار کرتے ہیں۔

نور دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پانچ بچے ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیاں۔ جواد خان میرا بڑا اور سب سے لاڈلہ بیٹا تھا۔ جب حادثے کی خبر ملی تو مجھے ایسے لگا کہ قیامت آ گئی جس کے بعد اس کے چچا نے اس کو فوری طور پر پشاور پہنچایا اور میں بھی پشاور پہنچ گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹروں نے اس کا آپرپشن کیا تو انھوں نے میرے بھائی فرہاد کو کہہ دیا تھا کہ آپریشن تو کر رہے ہیں، زندگی بچانے کی کوشش کریں گے مگر امکان کم ہے کیونکہ دماغ پر گہری چوٹ لگی ہے۔ اندر ہی بہت خون بہہ چکا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ آپریشن کے بعد جواد کو آئی سی یو وارڈ میں رکھا گیا مگر ان کی حالت بہتر نہیں ہو رہی تھی۔

نور داد کا کہنا تھا کہ ’فرہاد میرے پاس آیا اور وہ بہت سنجیدہ تھا۔ اس نے کہا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے مگر ہمارے پاس ایک راستہ موجود ہے کہ ہم اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھ سکتے ہیں۔‘

’میں نے پوچھا کیسے؟ تو فرہاد نے کہا کہ ہم اس کے گردے کسی کو دے دیتے ہیں جس سے وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘

نور داد کہتے ہیں کہ ’میں نے ایک لمحے کے لیے بھائی کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے سمجھ آ گیا کہ اب میں تسلیم کروں یا نہ کروں مگر میرا بیٹا زندہ نہیں۔‘

’اور دوسرے لمحے سوچا کہ اگر میرے بیٹے کے اعضا سے کسی کو نئی زندگی مل سکتی ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے گردوں کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی تکلیف دیکھی تھی۔ بس میں نے فیصلہ کیا کہ میں اب بیٹے کو ہمیشہ زندہ رکھوں گا اور اس کے اعضا عطیہ کروں گا۔‘

Getty Imagesڈاکٹروں کے مطابق اگر لوگوں میں اس بارے میں شعور پیدا کیا جائے تو بہت سے لوگوں کو زندگی مل سکتی ہے (فائل فوٹو)’جب بھائی مان گئے تو میں فوراً ڈاکٹروں کے پاس پہنچ گیا‘

فرہاد مردان ٹریفک پولیس میں اے ایس آئی کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹروں نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جواد خان کے زندہ بچنے امکانات بہت کم ہیں۔ جو کچھ ڈاکٹر کرسکتے تھے انھوں نے کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سن رکھا تھا اور بی بی سی میں ایسی کہانیاں پڑھی تھیں جس میں کچھ لوگوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی اور کچھ کے لواحقین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے مرحومین کے اعضا عطیہ کریں گے۔ جس سے لوگوں کو نئی زندگیاں ملی تھیں۔‘

’میں بھی اکثر سوچا کرتا تھا کہ سارا دن سڑکوں پر کھڑا رہتا ہوں تو کیا پتا کب کوئی حادثہ ہوجائے تو مجھے بھیاپنے اعضا عطیہ کر دینا چاہیے۔‘

فرہاد کا کہنا تھا ’جب ڈاکٹروں نے جواد کے بارے میں جواب دیا تو میں نے اپنے بھائی نورداد سے بات کی، جنھوں نے پہلے انکار کر دیا۔‘

’دوبارہ جب بات کی تو اس وقت ہمارے والد اور جواد کے دادا بھی موجود تھے۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ اب کیوں نہ ہم یہ فیصلہ کریں کہ جواد کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنا ہے۔‘

فرہاد کا کہنا تھا کہ وہاں میرے والد کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ ’ہم جواد کے اعضا عطیہ کر دیتے ہیں اور اس سے کئی لوگوں کو نئی زندگی مل جائے گی۔ یہ سن کر میرے والد کے تاثرات ایسے تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ یہ ہو جائے اور جب میرے بھائی نے ہمارے والد کے تاثرات دیکھے تو وہ بھی مان گئے۔‘

فرہاد کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ ہری پور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنے اعضا عطیہ کیے تھے مگر وہ اسلام آباد ہی میں رہائش پذیر تھیں جبکہ جواد خیبر پختونخوا میں رہتا تھا اور اس کے اعضا کا عطیہ بھی خیبر پختونخوا میں ہو رہا تھا۔

’جب میرے بھائی مان گئے تو میں فوراً ڈاکٹروں کے پاس پہنچ گیا۔‘

سور کا گردہ ٹرانسپلانٹ کروانے والے مریض کی وفات: ’اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ موت کی وجہ ٹرانسپلانٹ بنی‘فواد ممتاز: درجنوں مقدمات کے باوجود 10 سال تک گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کرنے والا ڈاکٹر کیسے پکڑا گیا؟ میڈیکل سائنس میں ترقی کے باوجود دماغ ٹرانسپلانٹ کرنا اب تک ممکن کیوں نہیں ہو سکا؟ہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیں’جو عطیہ کر سکتے ہیں، وہ کر دیں‘

ڈاکٹر محمد اظہار ٹرانسپلائنٹ سرجن اورحیات آباد میڈیکل کمپلیکس سے منسلک کڈنی سنٹر میں رجسڑار کی خدمات انجام دیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اظہار بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’جب فرہاد نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے بھتیجے کے اعضا عطیہ کرنا چاہتے ہیں تو سچ پوچھیں یہ ہمارے لیے پہلا موقع تھا اور کان سننے کو یہ ترس چکے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ اعضا کئی لوگوں کی جانیں بچا لیں گے۔ یہ ہونا چاہیے مگر کیسے ہو گا، میں فوراً ہی اس کا منصوبہ بنانے لگ گیا تھا۔‘

ڈاکٹر اظہار کا کہنا تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں مگر خوش قسمتی سے نفرالوجسٹ ڈاکٹر محمد فرمان میرے ساتھ تھے۔ گردوں کے حوالے سے انھوں ہی نے فیصلہ کرنا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جواد کے والد سے مل کر ان کی رضامندی حاصل کی گئی۔ ’ان سے پوچھا کہ کیا عطیہ کرنا ہے تو انھوں نے کہا کہ گردے کر دیں مگر جب میں نے سمجھایا تو انھوں نے کہا کہ آنکھیں اور جگر بھی عطیہ کر دیں اور جو عطیہ کرسکتے ہیں کردیں۔‘

ڈاکٹر محمد اظہار کا کہنا تھا کہ اس کے بعد متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر قانونی تقاضے اور دیگر انتظامات پورےکیے گئے۔

’سب سے اہم مرحلہ یہ دیکھنا تھا کہ جواد خان کے اعضا اس قابل ہیں کہ ان کو عطیہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ساتھ میں یہ بھی دیکھنا تھا کہ کیا ان کا دماغ مردہ ہوچکا یا نہیں۔ یہ انتظامات مکمل کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت کم تھا اور اگلا دن عید کا دن تھا۔‘

Getty Imagesٹرانسپلانٹ سرجن بریگیڈر (ر) ڈاکٹر محمد سرورعلوی کے مطابق ہر سال پاکستان میں پچاس ہزار لوگوں کو گردے، جگر اور دیگر عطیات کی ضرورت پڑتی ہے’شعور دیا جائے تو زیادہ لوگ عطیہ کریں گے‘

ڈاکٹر محمد اظہار نے بتایا کہ 15 سالہ جواد خان کے اعضا سے پانچ مریضوں کی جان بچائی گئی۔ اس کے لیے مختلف ہسپتالوں کی مشترکہ کوشش کی گئی۔

’ایک گردہ دیر کے مریض کو پشاور میں لگایا گیا جبکہ دوسرا بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے مریض کو لگا۔پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیوٹ لاہور کی ٹیم نے جگر حاصل کر کے لاہور میں پیوند کاری کی جبکہ آنکھیں مقامی طور پر عطیہ کی گئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عید کی صبح سے شروع ہونے والا یہ عمل شام تک کامیابی سے مکمل ہوا۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، کڈنی سنٹر، بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال اور لاہور انسٹیوٹ کے ڈاکٹروں نے مل کر کام کیا۔

ڈاکٹر محمد اظہار کا کہنا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا میں اعضا کے عطیے کے بارے میں شعور بڑھایا جائے تو یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں اعضا عطیہ کر سکتے ہیں۔

’ہسپتالوں کو ہدایت کی جائے کہ برین ڈیتھ کو موت ڈیکلیئر کیا جائے‘

پاکستان ایسوسی ایشن آف یورالوجی راولپنڈی، اسلام آباد کے ڈونر شعبہ کے انچارج اور بحریہ سفاری ہسپتال کےٹرانسپلانٹ سرجن بریگیڈر (ر) پروفسیر ڈاکٹر محمد سرورعلوی کا کہنا ہے کہ ’ہر سال پاکستان میں پچاس ہزار لوگوں کو گردے، جگر اور دیگر اعضا کی ضرورت پڑتی ہے، جس میں سے صرف اڑھائی سے تین ہزار ٹرانسپلانٹ ہی ہو پاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں عطیات کا نہ ملنا ہے۔ ’لوگ برین ڈیتھ کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ اکثر اوقات ہسپتالوں میں آئی سی یو وارڈ میں جب برین ڈیتھ ہو جاتی ہے اور سانس چل رہی ہوتی ہے تو اس وقت طبی عملہ، ڈاکٹرز بھی لواحقین کو یہ کہنے سے ڈرتے ہیں کہ آپ کا مریض ختم ہو چکا۔ وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ وینٹی لیٹر پر تو سانس چل رہی ہے۔‘

بریگیڈر (ر) پروفسیر ڈاکٹر محمد سرور علوی کا کہنا تھا کہ ’جب برین ڈیتھ ہوتی ہے تو اس کے بعد ایک یا دو دن کا وقت ہوتا ہے کہ اس کے اعضا کو استعمال کر لیا جائے مگر جب ڈاکٹر لواحقین سے بات نہیں کرتے اور لواحقین تسلیم نہیں کرتے تو وہ اعضا بھی مردہ ہو جاتے ہیں اور ان کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ ہسپتالوں کو ہدایات کی جائیں کہ برین ڈیتھ کو موت ڈیکلیئر کیا جائے اور اس موقع پر کوشش کی جائے کہ لوگوں سے عطیات حاصل کیے جائیں۔‘

ڈاکٹر محمد سرور علوی کا کہنا تھا کہ ’لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے۔ ان کو بتایا جائے کہ یہ صدقہ جاریہ ہے اس سے کچھ اور لوگوں کو زندگی مل جائے گی۔‘

’اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپلانٹ کی سہولتوں اور اس کے ہنر مند افراد میں اضافہ کیا جائے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹرانسپلائنٹ کرنے کی سہولتیں بھی اتنی نہیں، جتنی اس وقت ضرورت ہے۔

سور کا گردہ ٹرانسپلانٹ کروانے والے مریض کی وفات: ’اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ موت کی وجہ ٹرانسپلانٹ بنی‘فواد ممتاز: درجنوں مقدمات کے باوجود 10 سال تک گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کرنے والا ڈاکٹر کیسے پکڑا گیا؟ ہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیںمیڈیکل سائنس میں ترقی کے باوجود دماغ ٹرانسپلانٹ کرنا اب تک ممکن کیوں نہیں ہو سکا؟ہاتھ کی پہلی کامیاب پیوندکاری کے 10 سال: ’نئے ہاتھ سے بیوی کی زندگی بچائی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More