’چین کی پاکستان کو جے 35 طیاروں کی پیشکش‘: فضاؤں پر حکمرانی کرنے والے ’خاموش قاتل‘ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس میں خاص کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 10, 2025

Getty Imagesچینی ساختہ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ جے 35 اے نومبر 2024 میں چین میں منعقدہ ایوی ایشن اور ایروسپیس نمائش کے دوران

پاکستان اور انڈیا کی جانب سے مئی میں چار روز تک ایک دوسرے پر حملوں کے تبادلے کے ایک ماہ بعد اب دونوں ممالک میں گفتگو سفارتی محاذ سے ہوتی ہوئی اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے بارے میں ہو رہی ہے۔

انڈیا کی جانب سے اس دوران پاکستان کی جانب سے طیارے گرائے جانے کے حوالے سے براہ راست اعتراف نہیں کیا گیا تاہم انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے ان دعوؤں پر پہلی مرتبہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے بلکہ یہ کہ وہ کیوں گرائے گئے۔ کیا غلطیاں ہوئیں، یہ باتیں اہم ہیں۔ نمبر اہم نہیں ہوتے۔‘

ان کے اس بیان کے بعد سے گفتگو کا محور دونوں ممالک کی فضائی صلاحیتیں اور فضائی دفاعی نظام بن گئے ہیں۔

انڈیا کی وزارتِ دفاع نے مئی کے اواخر میں جدید ترین ’ففتھ جنریشن سٹیلتھ‘ جنگی طیارے ملک میں بنانے کی منظوری دی تھی۔ ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی اس منصوبے کو انڈیا میں کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتراک سے سرانجام دے گی۔

اس کے علاوہ انڈیا میں اس حوالے سے بھی بحث جاری ہے کہ آیا اس کی فضائیہ کو روسی ایس یو 57 یا امریکی ایف 35 اور ایف 22 ریپٹر خرید لینے چاہییں۔

ایسے میں پاکستانی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ’وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت پاکستان نے کئی عظیم سفارتی کامیابیاں حاصل کیں، جن میں چین کی جانب سے 40 ففتھ جنریشن جے 35 سٹیلتھ طیارے، KJ-500 ایویکس، HQ-19 ڈیفنس سسٹم کی پیشکش اور تین اعشاریہ سات ارب ڈالر قرض کی مؤخر ادائیگی شامل ہے۔‘

تاحال چین کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم اقتصادی امور پر رپورٹ کرنے والے میڈیا ادارے بلومبرگ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کی جانب سے جے 35 طیاروں سمیت دیگر چینی ساختہ دفاعی سامان خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرنے کے بعد پیر کو چینی دفاعی کمپنیوں کے سٹاکس میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق جے 35 سٹیلتھ فائٹر جیٹس بنانے والی کمپنی اے وی آئی سی شینیینگ ایئرکرافٹ کمپنی کی سٹاک پرائس میں پیر کو 9.3 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔

خیال رہے کہ جے 35 سٹیلتھ فائٹر جیٹس میں پاکستان کی دلچسپی کے حوالے سے خبریں گذشتہ برس سے ہی گرم تھیں اور یہ پہلی مرتبہ ہے پاکستانی حکومت نے اس مبینہ چینی پیشکش کا ذکر باضابطہ طور پر کیا۔

ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹس میں ایسا کیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی فضائیہ انھیں حاصل کرنے کے درپے ہیں؟

اس بارے میں معلومات جاننے کے لیے ہم نے اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو اور سابق پینٹاگون عہدیدار ایلیکس پلیٹساس اور پاکستانی فضائیہ میں ایئرکرافٹ ڈیزائن کے شعبے میں گذشتہ دو دہائیوں سے کام کرنے والے ایئرکموڈور (ر) رضا حیدر سے بات کی۔

ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کیا ہوتے ہیں اور یہ کن ممالک کے پاس ہیں؟

ایئر کموڈور رضا حیدر جو سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز میں بطور ڈائریکٹر امرجنگ ٹیکنالوجیز کے طور پر کام کر رہے ہیں نےبی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت دنیا میں صرف پانچ آپریشنل ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس موجود ہیں اور یہ امریکہ، روس اور چین کے پاس ہیں۔ امریکہ کے پاس ایف 22 ریپٹر اور ایف 35 موجود ہے، روس کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ ایس یو 57 ہے جبکہ چین کے پاس بھی دو ففتھ جنریشن طیارے ہیں جن میں جے 20 اور جے 35 شامل ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ان کے علاوہ ایسے جدید طیارے ہیں جو ابھی تعمیراتی مراحل میں ہیں جن میں برطانیہ، اٹلی اور جاپان کی شراکت سے بنایا جانے والا طیارہ ’ٹیمپسٹ‘ ہے، فرانس، جرمنی اور سپین فیوچر کامبیٹ ایئر سسٹم (ایف سی اے ایس) نامی طیارہ بنا رہے ہیں اور ترکی کی جانب سے ’کے اے اے این‘ نامی طیارہ بنایا جا رہا ہے۔‘

دفاع، ایرو سپیس اور ہائی ٹیک شعبوں میں انسدادِ دہشت گردی اور ڈیجیٹل تبدیلیوں کے ماہر ایلیکس پلیٹساس اور رضا حیدر کے مطابق ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کے مندرجہ ذیل فیچرز ہیں:

سٹیلتھ فیچر، یعنی یہ اپنے ڈیزائن کے باعث ریڈار پر دکھائی نہیں دیتا۔ایویانکس سینسر فیوژن، یعنی اس کے ریڈار، نیویگیشن اور فائر کنٹرول سسٹم تمام ہی ہم آہنگ ہوتے ہیں جس سے پائلٹ کی سچویشنل اویئرنس بہتر ہوتی ہے۔سپر کروز، یعنی اگر آپ سپر سونک پروازکر رہے ہوں تو آپ بہت کم ایندھن استعمال کر رہے ہوتے ہیں، اس سے طیارہ طویل عرصے تک فضا میں رہ سکتا ہے اور اس کی رینج بڑھ جاتی ہے۔نیٹ ورک سینٹر، یعنی باقی تمام سسٹمز کے ساتھ آپ جڑے ہوئے ہوتے ہیں جو گراؤنڈ پر ہوں جیسے ریڈارز یا فضا میں ہوں جیسے ایئر بورن ارلی وارننگ سسٹمز (اے ای ڈبلیو ایس) یا یو اے ویز اور ڈرونز۔کون سے عوامل ایک طیارے کو ففتھ جنریشن اور سٹیلتھ بناتے ہیں؟

خیال رہے کہ آسمان میں بقا کی مسلسل جنگ میں کسی بھی جنگی طیارے کے لیے سب سے قیمتی خصوصیات میں سے ایک اس کی ’سٹیلتھ‘ صلاحیت یعنی ریڈار پر کم سے کم نظر آنا ہے۔

آج جب دشمن کی نظروں سے بچنا زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے، ایسے میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی لڑاکا اور بمبار طیاروں کے لیے محض ایک اضافی خصوصیت نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔

ایلیکس پلیٹساس کے مطابق ’سٹیلتھ ٹیکنالوجی‘ طیارے کی ریڈار کراس سیکشن اور حرارت کے ذریعے شناخت کو کم بناتی ہے جس کی وجہ سے طیارے کی موجودگی کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس طیارے کا ڈیزائن اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ یہ ریڈار ویوز کو منتشر کر دے، جبکہ ریڈار جذب کرنے والے مواد یا کمپوزٹ میٹیریل ریڈار سگنل کو جذب کر کے طیارے کا مکمل عکس واپس بھیجنے سے روکتے ہیں، جس سے ریڈار سسٹم کے لیے طیارے کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

پلیٹساس کے مطابق ’نئے انجن ڈیزائن، کولنگ سسٹمز، ایگزاسٹ اور اندرونی ہتھیاروں کے خانے طیارے کی حرارتی شناخت (ہیٹ سگنیچر) کو کم کر دیتے ہیں، جس سے تھرمل ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

Getty Imagesتائیوان کا ریڈار سیٹ

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تمام خصوصیات جیسے سٹیلتھ ٹیکنالوجی، جدید مانور ایبیلٹی (چالاکی سے حرکت کرنے کی صلاحیت) اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار مل کر فیفتھ جینریشن کے جنگی طیاروں کو نہایت خطرناک بنا دیتی ہیں، جنھیں تلاش کرنا اور نشانہ بنانا جدید ترین ٹیکنالوجی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔‘

اس بارے میں ایئر کموڈور رضا حیدر کہتے ہیں کہ ’ففتھ جنریشن طیاروں کے ہتھیار اور فیول ٹینک آپ کو باہر دکھائی نہیں دیتے کیونکہ اس کا بے انٹرنل ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ باہر ہوں گے تو یہ ویوز کو ریفلیکٹ کر دیں گے۔‘

اس کے علاوہ طیارے کو ریڈار ایبزاربنٹ میٹیرئل سے بنایا جاتا ہے۔ اس میں میٹل اور کمپوزٹ کی مختلف اقسام ہیں جن میں ریڈار ایبزاربنٹ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مخصوص پینٹ کیا جاتا ہے جو ریڈار کی ویوز کو جذب کر لیتا ہے اور ریفلیکٹ نہیں ہونے دیتا۔

’اگر تکنیکی زبان میں بات کریں تو ان طیاروں کا ریڈار کراس سیکشن بہت کم ہوتا ہے جس سے یہ ریڈار پر دکھائی نہیں دیتے۔‘

Getty Imagesدسمبر 2022 میں لی گئی تصویر جس میں امریکہ-جنوبی کوریا مشترکہ مشقوں کے دوران امریکی ایف 22 لڑاکا طیارے کنسان ایئربیس پر لینڈنگ کے بعد کھڑے ہیںففتھ جنریشن فائٹر کے آنے سے فائدہ کیا ہو گا؟

ایئر کموڈور رضا حیدر کے مطابق ’اس سے ایک پائلٹ کو فرسٹ لُک، فرسٹ شاٹ، فرسٹ کِل صلاحیت مل جاتی ہے۔ یعنی دوسرے جہاز مجھے ریڈار پر دیکھ ہی نہیں پا رہے تو میرے پاس اسے پہلے دیکھ کر اس پر حملہ کرنے اور مار گرانے کی صلاحیت ہو گی۔‘

یہ صلاحیت سیکنڈز کی بنیاد پر تبدیل ہوتی فضائی جنگ کی صورتحال میں ایک ایسی صلاحیت ہے جو ایک ایئرفورس کو دوسری پر برتری دلوا سکتی ہے اور کیونکہ ماہرین کے مطابق اگلی جنگوں میں فضاؤں میں برتری انتہائی اہم ہو گی اس لیے بھی ان کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دوسرا فائدہ یہ ہے کہ طیارے کی بقا کے امکانات اس لیے بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھی مجھے نہیں دیکھ پا رہے۔‘

Getty Imagesبی-ٹو سٹیلتھ بمبار اپنی پہلی پرواز کی 25ویں سالگرہ پر کیلیفورنیا کے پام ڈیل ایئرکرافٹ سینٹر پر لینڈ کرتے ہوئے (17 جولائی 2014)سٹیلتھ ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں پڑی؟

معروف دفاعی تجزیہ کار کائل میزوکامی ’سروائیول ان دا سکائے، سٹوری آف سٹیلتھ ٹکینالوجی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’1960 کی دہائی میں دنیا بھر کے ممالک نے جدید اور مربوط فضائی دفاعی نظاموں میں سرمایہ کاری شروع کی۔ زمین اور فضا میں نصب ریڈار سسٹمز کو مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز سے جوڑا گیا جہاں سے فوری طور پر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹمز اور اڑان بھرنے کے لیے تیار لڑاکا طیاروں کو ہدایات دی جا سکتی تھیں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’ویتنام، مشرقِ وسطیٰ اور مغربی یورپ میں یہ نظام اس قدر طاقتور تصور کیا جاتا تھا کہ کسی بھی حملہ آور بمبار فورس کو تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔‘

’اس بدلتی صورتحال نے فضائی طاقتوں کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ نئے طریقے متعارف ہوئے۔جیسے ایئر کمانڈ اینڈ کنٹرول، الیکٹرانک وار فیئر، فضائی دفاع کو غیر مؤثر بنانے کے آپریشنز وغیرہ تاکہ دشمن کے کم سے کم طیارے دفاعی حصار کو پار کر کے اپنے اہداف تک پہنچ سکیں۔‘

’تاہم ان تمام حکمتِ عملیوں کے باوجود یہ مشن انتہائی خطرناک تھے۔ درجنوں طیارے اور ان کے پائلٹس مسلسل خطرے کی زد میں رہتے۔‘

کائل میزوکامی کے مطابق ’اس سب نے عسکری منصوبہ سازوں اور ایرو سپیس انجینئرز کو سوچنے پر مجبور کر دیا: اگر کوئی طیارہ دشمن کی فضائی حدود میں داخل ہو جائے اور ریڈار پر نظر ہی نہ آئے تو؟

’ایسی صورت میں درجن بھر طیاروں کو اکٹھے ایک ہدف پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بس ایک طیارہ ہو جو بم لے کر جا رہا ہو، دشمن کے پیچیدہ دفاعی نظام میں خاموشی سے داخل ہو، اپنے ہدف کو نشانہ بنائے اور بخیروعافیت واپس لوٹ آئے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’اگر کسی طیارے کی ریڈار پر شناخت کی حد 100 میل سے کم ہو کر صرف 20 میل رہ جائے، تو سٹیلتھ طیارہ دشمن کے ریڈار سسٹمز کے درمیان سے خاموشی سے گزر سکتا ہے اور دشمن کو کانوں کان خبر نہ ہو۔‘

Getty Imagesفرانسیسی ساختہ ریڈار جس کی مانگ میں یوکرین جنگ میں استعمال کے بعد سے اضافہ ہوا ہےرفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںچینی جے 10 سی اور فرانسیسی رفال طیارہ بنانے والی کمپنیوں کے شیئرز میں ’اتار چڑھاؤ‘ کا پاکستان اور انڈیا تنازع سے کیا تعلق ہے؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیآپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

خیال رہے کہ سنہ 1960 کی دہائی میں ایک سوویت سائنسدان پیوتر اُفیومتسیف نے طیارے کا ایسا ماڈل تیار کیا جس سے یہ پیش گوئی ممکن ہو گئی کہ برقی مقناطیسی لہریں جیسے کہ ریڈار ویوز دو جہتی یا سہ جہتی سطحوں سے ٹکرا کر کس زاویے اور شدت سے منتشر ہوں گی۔ اگرچہ یہ تحقیق سوویت یونین میں شائع ہوئی لیکن اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

بعد میں امریکی ڈیفینس کمپنی لاک ہیڈ کی نظر اس تحقیق پر پڑی اور انھوں نے اُفیومتسیف کے کام کا انگریزی میں ترجمہ کروایا اور یہی تحقیق جدید سٹیلتھ ٹیکنالوجی کی بنیاد بن گئی۔

کائل میزوکامی لکھتے ہیں کہ ’لاک ہیڈ نے اس تحقیق کو مکمل طور پر استعمال کیا کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ جہاز کی خاص ساخت ریڈار پر اس کے سگنیچر کو کم کر سکتی ہے۔ جہاز کے ہر بڑے حصے جیسے سامنے ولا حصہ، باڈی، پر، کاک پٹ، فلیپس وغیرہ کا جائزہ لیا گیا اور انھیں ’ریڈار کراس سیکشن‘ کی شکل میں سمجھا گیا۔

’وہ جہاز جن کے حصے بڑے اور چپٹے ہوتے ہیں جیسے بی-52 بمبار، یا جن کے پیچھے کھڑے پر ہوتے ہیںجیسے ایف-111، وہ ریڈار ویوز کو زیادہ واپس بھیجتے ہیں اور آسانی سے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بم، میزائل یا ایندھن کے ٹینک جیسے باہر لگے آلات بھی ریڈار لہروں کو واپس بھیجتے ہیں۔‘

ریڈار سے بچنے یا سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے ڈیزائن کیا گیا پہلا طیارہ ہیَو بلیو (Have Blue) تھا۔ اسے لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کیا اور یہ اپنی ساخت کے اعتبار سے پہلے بننے والے تمام طیاروں سے مختلف تھا۔

اس کے بعد ایف اے 117 طیارہ تیار کیا گیا جسے امریکی فضائیہ کی جانب سے متعدد مشنز میں استعمال بھی کیا گیا اور یہ وہ واحد سٹیلتھ فائٹر جیٹ بھی ہے جسے یوگوسلاویا کی جنگ کے دوران سنہ 1999 میں ایک سربیا کے ایئرڈیفنس سسٹم نے مار گرایا تھا۔

Getty Imagesعراق پر مشن مکمل کرنے کے بعد بی-ٹو سپرٹ سٹیلتھ بمبار نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوتے وئے (27 مارچ 2003)مستقبل میں ایئر وارفیئر کیسا ہو گا؟

ایئر کموڈور رضا حیدر کے مطابق ’آج کل کی ایئر وارفیئر میں طیارہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ پوری جنگ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ ملٹی ڈومین آپریشنز میں متعدد دیگر نظام مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مستقبل میں ایئر کرافٹ کے جدید ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر معاون نظاموں میں بھی جدت آئے گی۔‘

انھوں نے جدید وارفیئر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اس میں ایک کولیبوریٹو کامبیٹ ایئر کرافٹ لائل ونگ مین کانسیپٹ ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ طیارے کے ساتھ سٹیلتھ ڈرونز ہوتے ہیں جو بطور شیلڈ کام کرتے ہیں اور اگر کوئی میزائل طیارے کی جانب فائر کیا جائے تو یہ ڈرون اس کے راستے میں آ کر طیارے کو بچا لیتے ہیں۔‘

’دو سے آٹھ ڈرونز ایک پائلٹ کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور یہ ایک پائلٹ کو معلومات بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح میزائل کی رینج بڑھتی جا رہی ہے، ان میں جدت آ رہی ہے اور وقت کے ساتھ یہ ایئر وارفیئر اب ایروسپیس وارفئیر کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘

رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںچینی جے 10 سی اور فرانسیسی رفال طیارہ بنانے والی کمپنیوں کے شیئرز میں ’اتار چڑھاؤ‘ کا پاکستان اور انڈیا تنازع سے کیا تعلق ہے؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیپاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟آپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More