Getty Images
پاکستان اور انڈیا میں سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مبینہ طور پر امریکہ کی مدد کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی خبروں میں ہیں۔
اور اس کی وجہ امریکی رُکن کانگریس بریڈ شرمین کی جانب سے چھ جون کو ’ایکس‘ پر کی جانے والی وہ سلسلہ وار ٹویٹس ہیں جو انھوں نے بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستان کے سفارتی وفد سے ملاقات کے بعد کی ہیں۔
یاد رہے کہ انڈیا، پاکستان کے درمیان حالیہ تنازعے کے بعد سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک سفارتی وفد واشنگٹن، لندن اور برسلز کے دورے پر ہے۔ یہ وفد سب سے پہلے امریکہ پہنچا تھا جہاں اُنھوں نے حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ’عالمی سطح پر انڈیا کے پراپیگنڈے‘ کے حوالے سے پاکستان کا کیس عالمی رہنماؤں کے سامنے رکھا۔ امریکہ کا دورہ مکمل کر کے پاکستان کا یہ سفارتی وفد اب لندن پہنچ چکا ہے۔
انڈین رُکن پارلیمان ششی تھرور کی سربراہی میں ایک انڈین سفارتی وفد نے بھی حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ ششی تھرور نے بھی امریکی رُکن کانگریس بریڈ شرمین کے ڈاکٹر شکیل آفریدی سے متعلق مطالبات کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
بریڈ شرمین نے کیا کہا؟
امریکی رُکن کانگریس بریڈ شرمین کی جانب سے 'ایکس' پر چھ جون کو پوسٹ کیا گیا کہ اُن کی بلاول بھٹو سمیت پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی جس میں گذشتہ ماہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے تنازعے کے بعد علاقائی کشیدگی، پاکستان میں جمہوریت اور خطے میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے معاملات پر گفتگو ہوئی۔
بریڈ شرمین نے مزید لکھا کہ انھوں نے پاکستانی وفد سے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے کی ضرورت سے متعلق پیغام پہنچائیں۔ 'وہ (شکیل آفریدی) صرف اس وجہ سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو مارنے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔'
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی نائن الیون حملوں کے متاثرین کے لیے بھی ایک اچھی خبر ہو گی۔
امریکی رُکن کانگریس کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کے ساتھ ملاقات کے دوران دریائے سندھ کے پانی کا مسئلہ بھی بات چیت کا ایک اہم نکتہ رہا۔ 'انڈیا کو دریائے سندھ کے پانی کو محدود کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی منفی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کے اندر، پنجاب اور سندھ سے بہنے والا پانی ان لاکھوں پاکستانیوں کے لیے قابل رسائی رہنا چاہیے جو زندہ رہنے کے لیے اس پر انحصار کرتے ہیں۔'
انھوں نے مزید لکھا کہ 'میں نے پاکستانی وفد پر دہشت گردی سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا، اور خاص طور پر، جیش محمد نامی گروپ کے خلاف، جس نے 2002 میں میرے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے (صحافی) ڈینیئل پرل کو قتل کیا تھا۔'
انھوں نے مزید لکھا کہ 'پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہندو، مسیحی اور احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو تشدد، ظلم، امتیازی سلوک کے خوف کے اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔'
انڈیا کے سفارتی وفد کے سربراہ ششی تھرور نے بریڈ شرمین کے ان مطالبات کا خیر مقدم کیا ہے اور 'ایکس' پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 'پاکستان میں آپ کو دہشت گردی کو فروغ دینے پر نوازا جاتا ہے جبکہ دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔'
ڈاکٹر شکیل آفریدی کن الزامات کے تحت قید ہیں؟
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنہ 2011 میں پشاور کے علاقے کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اُن پر الزام تھا کہ انھوں نے امریکہ کے لیے جاسوسی کی اور اسامہ بن لادن کے خلاف کیے گئے ایبٹ آباد آپریشن میں امریکہ کی مدد کی تھی۔
ان الزامات کے برعکس سنہ 2012 میں انھیں شدت پسند تنظیم 'لشکر اسلام' کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزام میں 33 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد ازاں اپیل کے نتیجے میں ان کی سزا دس سال کم کر کے 23 سال کر دی گئی۔
پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی گذشتہ 14 برس سے جیل میں قید ہیں۔
شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے امریکہ کی جانب سے ماضی میں بھی مطالبات سامنے آتے رہے ہیں جبکہ رُکن کانگریس بریڈ شرمین بھی اس سے متعلق سوالات اٹھاتے آئے ہیں۔
اسامہ کی تلاش میں امریکہ کی ’مدد‘ کرنے والے شکیل آفریدی کس حال میں ہیں؟جب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘وہ رات جب اسامہ بن لادن وزیرستان کے ایک گھر میں رات کے کھانے پر آئےپاکستان میں ’خلافت‘ کے نام پر فوجی بغاوت کا منصوبہ کیسے ناکام ہوا
گذشتہ برس مارچ میں کانگریس میں ایک سماعت کے دوران امریکہ کے سابق سفارتکار ڈونلڈ لو نے سینیٹر بریڈ شرمین کی جانب سے اسی حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے کبھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات نہیں کی ہے۔
بریڈ شرمین نے اس سماعت کے دوران کہا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری کا مطلب دنیا بھر کو یہ پیغام دینا ہے کہ سی آئی اے سے تعاون نہ کریں۔ 'اگر آپ امریکی ہیں تو پھر آپ کے لیے زمین اور آسمان ایک کر دیں گے مگر غیرملکی ہونے کی صورت میں آپ جیل میں سڑتے رہیں۔'
انھوں نے کہا تھا کہ 'وہ شخص جس نے اسامہ بن لادن کا پتا چلایا وہ اب پاکستانی جیل میں ہے۔'
’میرا مقدمہ واپس لے لو، مجھے انصاف کی توقع نہیں رہی‘
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی کے مطابق ان کے بھائی نے اپنی سزا کا ابتدائی عرصہ پشاور کی سینٹرل جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں گزارا اور اس کے بعد انھیں پنجاب کے شہر ساہیوال کی اس ہائی سکیورٹی جیل میں قید کیا گیا جہاں انتہائی خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی ملاقات اپنے بھائی سے ساہیوال جیل میں ہوتی رہتی ہے۔ اُن کے مطابق 'چند روز قبل ہونے والی ملاقات میں انھوں نے مجھے یہ ہدایات بھی دی ہیں کہ میرا مقدمہ واپس لے لو کیونکہ اب مجھے ان عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں رہی ہے۔'
جمیل آفریدی نے کہا کہ اُن کے بھائی کی سزا کے خلاف اپیل سے متعلق مقدمے میں بہت طویل تاریخیں دی جاتی ہیں۔
جن الزامات کے تحت شکیل آفریدی کو سزا سنائی گئی اس سے متعلق ان کے بھائی کا دعویٰ ہے کہ 'وہ کبھی منگل باغ یا اُن کی تنظیم کا حصہ نہیں رہے اور نہ ہی انھوں نے کبھی کسی کا علاج ذات پات یا مذہب دیکھ کر کیا ہے۔' یاد رہے کہ شکیل آفریدی کو کالعدم تنظیم 'لشکر اسلام' کو مبینہ طور پر فنڈنگ کرنے اور اس تنظیم کے شدت پسندوں کا علاج کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ان کے بھائی شکیل آفریدی ایک دردل دل رکھنے والے ذمہ دار شہری اور ڈاکٹر تھے جو صرف اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔
جمیل آفریدی نے کہاکہ شکیل آفریدی کے تین بچے ہیں جن میں سے ایک بڑے بیٹے اور چھوٹی بیٹی کی شادیاں ان کی غیر موجودگی میں ہو چکی ہیں۔
جمیل آفریدی نے کہا کہ ان کے بھتیجے اپنے والد سے ملنے ساہیوال جیل جاتے ہیں اور ان کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔
ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن اور اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق حقائق کا پتا چلانے کے لیے پاکستان نے ایک کمیشن بنایا جو 'ایبٹ آباد کمیشن' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس کمیشن کی سربراہی پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج اور وفاقی احتساب کے ادارے نیب کے سابق سربراہ جاوید اقبال کو دی گئی تھی۔
اس کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی وہ ابھی تک سرکاری سطح سے جاری نہیں ہو سکی ہے۔
صدر مملکت آصف زرداری کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنی حالیہ کتاب 'دی زرداری پریذیڈینسی، ناؤ اٹ مسٹ بی ٹولڈ' میں تفصیلات لکھی ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ شکیل آفریدی کا ٹرائل اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں سی آئی کی مدد کرنے پر نہیں بلکہ اپنے کلینک میں کالعدم تنظیم 'لشکر اسلام' کے شدت پسندوں کا علاج کیا ہے۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق شکیل آفریدی کو برطانوی دور کے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے ایک صدی پرانے قوانین کے تحت قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کے مطابق سنہ 2012 میں آصف زرداری نے اپنے پہلے دور صدارت میں ان قوانین کا خاتمہ کر دیا تھا مگر اس کے باوجود شکیل آفریدی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔
اسامہ کی تلاش میں امریکہ کی ’مدد‘ کرنے والے شکیل آفریدی کس حال میں ہیں؟جب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘پاکستان میں ’خلافت‘ کے نام پر فوجی بغاوت کا منصوبہ کیسے ناکام ہوا’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہواوہ رات جب اسامہ بن لادن وزیرستان کے ایک گھر میں رات کے کھانے پر آئے